افغانستان امن مذاکرات اور پاکستان‎

ہفتہ 6 جولائی 2019

Omar Khattab

عمر خطاب وٹو

پاکستان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ افغانستان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور کسی ایک گروپ کی حمایت کرنے کے بجائے اسے غیر جانبدارانہ حیثیت میں افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرنی چاہئے ۔اگر ماضی کا جائزہ لیں تو پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے حقیقت پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے ۔مگر عالمی برادری بالخصوص امریکہ اور افغانستان نے پاکستان کی غیر جانبداری اور امن کی کوششوں کےاس دعوے کو کبھی بھی شرف قبولیت نہیں بخشا ۔


لیکن اب افغانستان میں وسیع تر مفادات رکھنے والے ممالک نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان افغانستان مسئلے کے حل کے لیے امن مذاکرات میں ایک مخلص سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے ۔سب سے اہم مذاکرات قطر کے شہر دوحہ میں ہو رہےہیں، جہاں افغان طالبان اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے 29 جون 2019ء کو بات چیت کے ساتویں راونڈ میں دوبارہ شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس سے ایک ہفتہ قبل چین نے بھی امن کے لیے اپنی مخلصانہ کوششوں کا ثبوت دیتے ہوئے افغان طالبان کے راہنماؤں کو امن پروسیس پر تبادلہ خیال کے لیے بیجنگ مدعو کیا تھا ۔روس بھی 2017ء میں امن مذاکرات مذاکرات بہت متحرک رہا ہے ۔اس نے فروری اور اپریل 2017ء میں خطے کے ممالک کے ساتھ دو مرتبہ مشاورتی عمل کا انعقاد کیا تھا ۔اس نے نومبر 2018ء میں، فروری 2019ء اور 29-28 مئی 2019ء کو افغان راہنماؤں اور طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے تین راونڈ کا بندوبست کیا ۔

مئی 2019ء میں ہونے والے مذاکرات میں کابل حکومت کو باقاعدہ شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی، مگر اس کے روس میں متعین سفیر نے ان مذاکرات میں شرکت کی تھی ۔ابتداء میں افغان حکومت نے روس میں ہونے والی بات چیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔
دوسری طرف پاکستان نے 23-24جون 2019ء کو بھوربن میں افغان سیاسی جماعتوں اور عسکری گروپوں کے مابین بات چیت کے انتظامات کیے، جنہیں لاہور پروسیس کا نام دیا گیا ۔

پاکستان نے افغان گروپوں کے مابین مذاکرات میں صرف میزبانی کا کردار ادا کیا تھا ۔افغان طالبان کا موقف یہ  ہے کہ افغانستان میں امن ،امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلاء کا فیصلہ تو اصل میں امریکہ نے ہی کرنا ہے ۔اس لیے افغان طالبان نےکابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔
ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ کابل حکومت نے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک وفد تشکیل دیا جس میں 240 خواتین وحظرات شامل تھے ۔

طالبان نے وفد کے اتنے بڑے سائز کو دیکھ کر اس پیشکش کو مسترد کر دیا ۔امریکی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ اس سال کے خاتمے سے پہلے ہی امن معاہدہ ہو جائے تاکہ امریکہ 2020 تک افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا بندوبست کر سکے ۔اس عمل سے سب سے زیادہ فائدہ امریکی  صدر ٹرمپ کو ہو گا، اس طرح صدرٹرمپ کے لیے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو نومبر 2020ء میں دوسری مدت کے صدارتی الیکشن کی مہم کا حصہ بنانے کا موقع مل سکتا ہے ۔

امریکہ چاہتا ہے کہ وہ سیز فائر کر کےاپنی فوجوں کو باآسانی افغانستان سے نکال سکے۔امریکہ اس لیے طالبان اور کابل حکومت کے مابین کوئی سیاسی مفاہمت چاہتا ہے، اور ایسا معائدہ تب ہی ممکن ہے جب طالبان اور افغان حکومت براہ راست مذاکراتی عمل میں شرکت کریں، جس کےامکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا فیصلہ کرتا ہے تو کیا کابل میں موجودہ حکومت اور طالبان کوئی قابل عمل سیاسی بندوبست کر لیں گے؟کیا طالبان سیاسی مفاہمت کے تحت غیر طالبان سیاسی فورسز کے ساتھ ملکر کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟پھر دیکھنا یہ ہو گا کہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس یہ دونوں فورسز کس حد تک طالبان کا دباؤ برداشت کر سکتی ہیں ۔

جبکہ طالبان کو بھی یہ یقین ہے کہ آیا وہ تمام مخالفین کو شکست دے کر پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کر سکیں گے ۔
روس اور  چین اب افغانستان میں داخلی استحکام کے لیے علاقائی انتظامات کے تحت وہاں داخلی امن اور سماجی و معاشرتی ترقی کی کوششوں کو فروغ دے رہے ہیں، چین اور روس مستحکم  افغانستان چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں ہمسایہ ملک پاکستان کا تعاون درکار ہے ۔

اسی تناظر میں افغان صدر اشرف غنی کے 27-28 جون کے دورہ پاکستان کا بغور جائزہ لینا ہو گا،ان کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے ۔جس کی ایک وجہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن اور طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں بے یقینی کی فضا ہے ۔اس لیے اشرف غنی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے ساتھ ڈائلاگ اور مفاہمت کے لیے ان کی مدد کرے۔


پاکستان کو اب چاہیے کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھے،اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ وہاں کس کی حکومت قائم ہے ۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے۔ماضی میں یہ باہمی تجارت اکثر کشیدگی اورعلاقائی سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے ۔

پاکستان کے لیے یہ تعلقات اس لیے بھی اہم ہیں کہ اس طرح اس کی شمالی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی ،اسے دہشت گردی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی اور اسکا سنٹرل ایشیاء کے ساتھ محفوظ زمینی لنک قائم ہو سکے گا۔حالیہ مذاکراتی عمل کی بات کریں تو بھارت کا کردار مذید کم ہو گیا ہے، تاہم پاکستان کو افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ،بشرطیکہ وہاں کے داخلی تنازعات سے خود کو دور رکھے ۔جبکہ مذاکراتی عمل کے فروغ میں اپنا غیر جانبدار انہ کردار برقرار اور افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر ے۔اس سے فائدہ یہ گا کہ دونوں ممالک میں دو طرفہ اعتماد کی ساکھ بہتر ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :