اقبال ایک مرد قلندر

منگل 21 اپریل 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

حکیم الامت علامہ محمد اقبال (9نومبر 1877تا 21 اپریل 1938)بیسویں صدی کے معروف شاعر مصنف،قانون دان،مسلم صوفی،اور اس وقت امت مسلمہ کے ایک بیدار مغز رہنما تھے.ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن پر وقتا فوقتا مختلف اوقات میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ اقبال کی شخصیت کو سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ان کا کلام ہے جس سے نہ صرف ان کی شخصیت کے متعلق آگاہی ملتی ہے بلکہ جابجا ان کے نظریات  بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔

علامہ محمد اقبال اپنے افکار اور نظریات کے حوالہ سے اپنے ہم عصر شعراء اور مفکرین سے ممتاز نظر آتے  ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی علامہ اقبال کے نظریات اور ان کے کلام کی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں۔فارسی زبان میں ان کے کلام نے  بین الاقوامی شہرت حاصل کی  اور ایک پورا عہد  آپ کے کلام کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

(جاری ہے)

بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر نظریاتی تحریک کے پس منظر میں کلام اقبال کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے۔

۔اقبال کے کلام میں مرد مومن، انسان کامل،بندہ آفاقی، مرد خدا اور مرد قلندر کا ذکر جابجا ملتا ہے۔درحقیقت یہ ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں
نقطہ پرکار حق  مرد خدا کا یقین
اور عالم تم،وہم و طلسم و مجاز
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں ہے جو صاحب افلاک نہیں ہے
اقبال محض اپنی ذات میں ہی مرد قلندر نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسے مرد قلندر کی تشکیل کے خواہاں تھے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بنے۔

کلام اقبال کے مطالعہ سے سے مرد قلندر کے جو خدوخال سامنے آتے  ہیں وہ کچھ ایسے ہیں کہ ایک ایسا بندہ مومن جس میں ایمان اور یقین کی روح پھونکی گئی ہو،جس کے ارادے آسمانوں سے بلند اور چٹان سے زیادہ سخت ہوں۔جس کا دل سچائی کے نور سے منور ہو۔جس کی نگاہ سمندر کی تہہ میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اقبال کا مرد قلندر سوچوں کو جانچنے اور پرکھنے کی قدرت سے مالامال ہے۔

اقبال کا مرد قلندر اس جیسی بے شمار خوبیوں کا حامل ہے جو اس کو عام انسانوں سے ممتاز کر کے ایک خاص انسان بنا کر معاشرے میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔دراصل اقبال امت مسلمہ کے ہر فرد کو مرد قلندر کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔انکی اس خواہش کا اظہار ان کے کلام اور ان کے افکار میں جابجا ملتا ہے۔اقبال کا مردِ قلندر ایک ایسا انسان ہے جو نہ صرف اپنی ذات سے آگاہ ہے بلکہ دوسروں کے دل کی دنیا بدلنے پر بھی قادر ہے۔

اقبال کا مرد کامل ایک ایسا سمندر ہے جس میں علوم کے بے پناہ خزانے موجزن ہیں۔اور جو بھی اس مرد کامل کے افکار میں جتنا گہرا غوطہ لگائے گا اتنا ہی اپنے دامن کو لعل و یمن سے بھر کر لائے گا۔
اقبال کا مرد قلندر ایمان افروز سوچ  سے تراشا ہوا ایسا پیکر ہے جو ہمہ  وقت ایمان اور یقین کے نور سے اپنے من کو روشن رکھتا ہے۔اس کا سینہ محبت الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔

حکیم الامت علامہ اقبال ایک ایسے مرد قلندر کی تشکیل کے خواہاں ہیں جو ہر دور میں معاشرے کی ضرورت بنے معاشرے کی راہنمائی کرے اور اگر وہ معاشرہ راہ مستقیم سے بھٹکنے لگے تو وہ ان کے لئے خضرِ راہ کا کام کرے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کوئی ایسا انسان نہیں ملتا جو اقبال کے تراشیدہ پیکر  کے نزدیک تر ہو۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج کا معاشرہ ایسا ہے جس کے رہنما بے سمت، بے مغز اور اس کے لیڈر عقل سے عاری ہوں۔اگرہم اقبال کے قلندرانہ افکار کو اپنی عملی زندگیوں کا حصہ نہیں بنائیں گے تو یہ بے راہ روی ہمیشہ ہمارا مقدر رہے گی۔آج کا نوجوان عمل سے کوسوں دور ہے جبکہ اقبال کا مردِ قلندر کہتا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
آج کا انسان ان مادیت کے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔

اس کی سوچ اور عمل حرص اور طمع سے آلودہ ہیں۔جبکہ اقبال کا مردِ قلندر ان تمام آلائشوں سے بلند اور مبرا ہے۔اس کے لیے یہ تمام مال و زر بے معنی ہیں۔وہ ان آسائشات اور آلائشات میں الجھ کر کر اپنے تن اور من کو آلودہ نہیں کرتا بلکہ وہ تو شہادت کو کو اپنی تمنا سمجھتا ہے
شہادت ہے مطلوب ومقصود ومومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
قلندر لاہوری کا تشکیل کردہ مرد قلندر اس دنیا کی آلائشوں میں زندگی گزارتا ہے لیکن اپنے دامن کو ان سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔

اس کی شخصیت میں فولاد کی سختی اور کردار میں محبت رسول  کی مستی ہوتی ہے۔وہ ایک عملیت پسند انسان ہے۔خوابوں کی دنیا سے نکل کر اپنے زور بازو سے وہ مشکلات پر سواری کرتا ہے ان کو اپنے اوپر حاوی نہیں کرتا۔حکیم الامت کا مردِ قلندرفقر و استغنا سے بھی مالا مال ہوتا ہے۔کیونکہ بندہ مومنن کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا نا اپنی بندگی کی توہین سمجھتا ہے۔

وہ فقر غیور اور اور عشق خودآ گاہ کا نقیب ہوتا ہے۔
مختلف مفکرین، اسکالرز اور ماہرین اقبالیات نے اس امر پر کافی مباحث تحریر کی ہیں کہ اقبال کایہ تصور کہاں سے اخذ کیا گیا ہے۔محققین نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق خامہ فرسائی کی ہے اور تحقیق کے موتی صفحات پر بکھیرے ہیں۔لیکن میری ناقص رائے میں بندہ مومن اور مرد قلندر کا یہ تصور قرآن حکیم اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے اقبال کے بعض اشعار تو بالکل  قرآن کریم کا منظوم ترجمہ معلوم ہوتے ہیں اس لیے یہ کہنا بعید از حقیقت نہیں ہے کہ اقبال کا اکثر کلام اور بندہ مومن کا تصور اور قرآن وسنت سے اخذ کردہ ہے۔اقبال کا مردِ قلندر در قرآن و حدیث کا پابند ہے اور اس کی آفاقی سوچ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاس ہے
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
اقبال کا مرد قلندر جلال و جمال کا حسین امتزاج ہے۔

وہ حق کے لیے موم اور باطل کے لیے شمشیر بے نیام ہوتا ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل  ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال کا مرد مومن ہر حالت میں پیکر صبر و رضا ہے۔یہ مرد قلندر دن کے وقت کفار کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اپنی رات اللہ کے حضور اور سجدوں میں گزارتا ہے۔ہر بدلتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ اس کا طرز عمل حالات کے مطابق تبدیل ہوتا ہے۔

اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہر دم تیار ہوتا ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
اقبال کا مرد قلندر ہمیشہ عشق کو عقل پر ترجیح دیتا ہے۔وہ صرف دل کی بات سنتا ہے۔وہ مصلحت کو بالائے طاق رکھتا ہے۔اقبال کے مرد قلندر   کا تصورموذن رسول سیدناحضرت بلال سے بھی اخذ کردہ ہے جو اپنے آقا کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتے ہیں اور مقام یہ ہے کہ زمین پر چلتے ہیں لیکن  قدموں کی چاپ عرش پر سنائی دیتی ہے۔


روز ازل مجھ سے کہا جبرائیل نے
عقل کا جو غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
اقبال کے مرد قلندر کا عکس طارق بن زیاد،صلاح الدین ایوبی،سلطان محمود غزنوی،موسی بن نصیر،اور محمد بن قاسم جیسی ہستیوں میں نظر آتا ہے
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اقبال کے مرد قلندر کا تصور اور بلاشبہ ایسا مکمل انسان کا تصور ہے ہے جو ایک طرف تو اسلامی تعلیمات سے مالامال ہو اسلامی تاریخ سے اس کا سینہ روشن ہو ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا سرمایہ حیات ہو جب تک یہ خصوصیات  ہماری امت اور ہماری قوم کے اندر پیدا نہیں ہوں گی  تب تک یہ بے راہ روی ہمارا مقدر رہے گی۔

شاعر مشرق کا پیغام اس کی صحیح روح کے مطابق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :