لاک ڈاؤن کی وجہ سے تباہ حال نظام تعلیم کا نوحہ

پیر 15 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

قدرت اللہ شہاب ،شہاب نامہ میں پاکستان کے ابتدائی دور حکومت میں ایک وفاقی کابینہ کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب جب تمام اہم وزارتوں کے پورٹ فولیو تقسیم کر دیئے گئے تو لسٹ پڑھنے پر یہ معلوم پڑا کہ وزارت تعلیم پر کسی صاحبِ اختیار کی نظر التفات نہیں پڑھی یا یوں کہہ لیجئے کہ کسی نے بھی تعلیم کی وزارت کو اپنے لائق نہ سمجھا اور پھر جاتے جاتے ایک وزیر کے سر یہ محکمہ بھی تھوپ دیا گیا۔

تعلیم کے ساتھ ارباب بست و کشاد کا رویہ آج 70 سال گزرنے کے بعد بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔اس میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔بلند و بانگ نعرے اور دعوے تو سننے کو ملے تھے لیکن عملی طور پر وہی ڈھاک کے تین پات۔محکمہ تعلیم کے اساتذہ کو ایک فالتو پرزہ سمجھتے ہوئے انکے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ایک پالتو پرزے کے ساتھ ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

ان سے تعلیم کے علاوہ ہر کام لینے کے لیے حکومتی مشینری تیار نظر آتی ہے۔

پولیو کے قطروں سے لے کر قرنطینہ سینٹرز کی نگرانی تک کون سا وہ کام ہے جو اس محکمے سے نہیں لیا جا رہا ہوں۔نتیجہ وہی ہے جو ہونا چاہیے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں ڈگریوں کا ایک تھیلا توہوتا ہے لیکن ذہن عقل و دانش سے خالی فہم وفراست سے دور اور علم کی گہرائی سے محروم ہوتا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ چھپن ہزار ایک سو پرائمری سکول ہیں۔

اٹھائیس ہزار سات سو سولہ مڈل اور سولہ ہزار 59 ہائی اسکول ہیں۔وفاقی حکومت کے تحت 94 ہزار 705 پرائمری 53390 مڈل اور 33644 ہائی سکول ہیں ان سکولوں میں ایک کروڑ 74 لاکھ پندرہ ہزار 240 پرائمری، چالیس لاکھ 35ہزار 40 مڈل اور 16 لاکھ 58ہزار 2سو99 ہائی اسکول کے طلبا و طالبات پڑھ رہے ہیں۔اگر کالجز کی بات کی جائے تو ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ اس وقت ملک میں 607 ووکیشنل، 939 جنرل، اور 374 پروفیشنل کالجز ہیں۔

جبکہ وفاقی نظامت تعلیمات کے تحت اس وقت پندرہ ہزار 990 کالج کام کر رہے ہیں۔کالجوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق نو لاکھ 95 ہزار 349 ہے۔ یونیورسٹیوں کا ذکر کیا جائے تواس وقت ملک میں 45 یونیورسٹیاں ہیں ان یونیورسٹیوں میں تین لاکھ 88 ہزار 668 طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ملک میں 130 پرائیویٹ یونیورسٹیاں جن میں ایک لاکھ 16ہزار 410 طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

پاکستان کے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں تقریبا چار لاکھ پینتیس ہزارپرائمری، تقریبا 2لاکھ 46 ہزار مڈل اور تقریبا دو لاکھ ستاسی ہزار ہائی سکولوں کے اساتذہ کام کر رہے ہیں۔جبکہ یونیورسٹی میں کام کرنے والے اساتذہ کی تعداد تقریبا بیس ہزار ہے۔حکومت کی طرف سے ان اداروں اور اساتذہ پر پر سالانہ ایک کھرب 11 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔پاکستان میں اس وقت مدارس کی تعداد تقریبا 42 ہزار ہے اور ان تمام مدارس میں 32 سے 35 لاکھ طلبہ و طالبات دینی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

ان اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کے تعلیم کے شعبہ میں کام کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کی ایک بھاری تعداد مصروف عمل ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک پہلو اور بھی ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اس وقت بھی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔جبکہ سکولوں میں زیر تعلیم طلباء میں سے صرف نو فیصد یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں۔اور جو یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں ان کی تعلیمی قابلیت کا اظہار ہر سال اعلی مقابلے کے امتحانات میں دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام پہلے ہی تباہ حال ہے لیکن کرو نا نے دیگر تمام شعبہ زندگی کی طرح تعلیم کے شعبے پر بھی بے تحاشہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر تعلیم پر سب سے کم خرچ کیا جاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کرونا نے ہمارے تعلیمی نظام کے کھوکھلے پن کو مزید واضح کرکے رکھ دیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے متعین کی گئی احتیاطی تدابیر پر من و عن عمل کرنا شاید ممکن نہ تھا اس لیے حکومت نے 15 جولائی تک تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سکول و کالجز کے طلباء و طالبات کو گزشتہ امتحانات میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر اگلی جماعت میں بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔

لیکن ابھی مستقبل کے حوالے سے کسی حتمی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔کرونا بحران اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے نقصان کا شکار ہونے والے اداروں کی بحالی کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے بے روزگار افراد کے لیے وزیراعظم نے 6.6 ملین خاندانوں کیلئے 81بلین روپے کے کرونا ریلیف پیکج کا اعلان کیا جبکہ اس پروگرام کے تحت کھربوں روپے مستحق لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے گئے لیکن تعلیم کا شعبہ ابھی تک حکومت کی نظر التفات سے محروم ہے۔

تعلیمی اداروں سے وابستہ لوگ تیزی سے بے روزگار ہو رہے ہیں تعلیم کو فروغ دینے میں پرائیویٹ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن بے روزگاری کے عالم میں حکومت کا کوئی اقدام پرائیویٹ سکول اور کالجوں کی طرف جاتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
    تعلیمی اداروں کی طویل بندش کے دوران بعض سرکاری اور پرائیوٹ اداروں نے انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کی کوشش کی لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ انٹرنیٹ کبھی بھی کلاس روم میں دی گئی تعلیم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

تعلیم میں موبائل کی سکرین یا لیپ ٹاپ پر دیکھ کر چند اصطلاحات پڑھنے کا نام نہیں بلکہ پورے ماحول میں بچے کو ایک خاص انداز میں تربیت دینے کا نام ہے۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہماری موجودہ نسل نے ایک ایسا تجربہ کیا ہے جو گزشتہ سو سالوں میں کسی نسل نے بھی نہیں کیا ہوگا۔گھروں میں مقید رہ کر ان کی سرگرمیوں کا تمام محور و مرکز موبائل کی چھوٹی سکرین یا لیپ ٹاپ کی بڑی سکرین بن چکی ہے۔

کرونا کی وجہ سے ہمارے کھیلوں کے میدان ویران ہیں۔اور بچوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔ان حالات میں اگر تعلیم کو بھی انٹرنیٹ پر منتقل کر دیا گیا تو یہ نہ صرف تعلیمی نظام کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ہم ایک ایسی نسل تیار کرنے کی طرف جائیں گے جو نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہوگی بلکہ اعصابی طور پر بھی نا مکمل شخصیت کے حامل ہوں۔

مقابلے کے رجحان کے بغیر دی گئی تعلیم کسی بھی طور پر بچے کی شخصیت میں تعمیری عناصر پیدا نہیں کرسکتی۔ویسے بھی پاکستان جیسے ملک میں انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کسی طور پر بھی مکمل طور پر مفید نہیں ہو سکتی۔2018 کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 36 فیصد آبادی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔جبکہ ایک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 89 انٹرنیٹ افورڈ کرنے سے قاصر ہے۔

ایک اور افسوسناک حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں یہ سہولت بھی طبقاتی بنیاد پر دی گئی ہے۔بڑے شہروں میں اچھی رفتار کی حامل سروس دستیاب ہے جبکہ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں اس بنیادی سہولت کا کوئی وجود نہیں اور اگر کہیں ہے اس کی سروس انتہائی ناقص ہے۔اس لیے پاکستان جیسے ملک میں انٹرنیٹ کے ذریعہ تعلیم دینے کی کوشش کرنا میں مغربی ممالک کی نقالی ہوگی۔

اس کے سوا کچھ نہ
ہوگا۔ اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے تمام اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور مستقل بنیادوں پر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے یہ ایسا کام ہے جس پر پارلیمنٹ کو غور کرنا چاہیے۔ہمارے محترم اپوزیشن لیڈر جو کرونا کے خاتمے کا عزم لے کر خصوصی طور پر برطانیہ سے پاکستان واپس تشریف لائے تھے وہ چند ٹی وی ٹاک شوز کے علاوہ وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔

ان کو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہیے اور حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ایسی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جس سے ہماری آنے والی نسل کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ نوجوانوں کو غیر یقینی کی کیفیت سے نکالنا اس وقت سب سے اہم کام ہے۔میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنائے بغیر ہم کبھی بھی شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتے۔

اب پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو تعلیمی نظام کی بحالی اور اس کو اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔جس طرح کے گذشتہ سطور میں عرض کیا کہ پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے نظام تعلیم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا سب سے اہم ستون ہیں یہ ادارے اس وقت سب سے زیادہ بحران کا شکار ہیں ہیں اکثر پرائیویٹ سکول کرائے کی عمارتوں میں قائم ہے اور اداروں کی مسلسل بندش کی وجہ سے ملک میں ہزاروں افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس حوالے سے سے حیران کن رویہ کا مظاہرہ کیا ہے اپنے اقدامات سے ان اداروں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔اب جب کہ ملک کی تمام کاروباری سرگرمیاں تقریبا بحال ہوچکی ہیں بازار کھل چکے ہیں اس وقت تک ہے جو ملک کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی طرف لے جارہی ہیں۔بند کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے کے بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کر حقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

کرونا ریلیف فنڈ کی مد میں حاصل شدہ بیرونی امداد میں سے ایک مخصوص رقم پاکستان کے تعلیمی اداروں پر خرچ کرنی چاہیے بچوں اور اساتذہ کے ٹیسٹوں کا اہتمام کرکے ان میں سے جو لوگ صحت مند پائے جائیں ان کے لیے تعلیم کا بندوبست کر دینا چاہیے۔ملک کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے بچوں کے لیے حفاظتی انتظامات کے تحت یہ ادارے کھولنے کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ مزید تعلیمی نقصان نہ ہو اور ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر دی جانے والی تعلیم کلاس روم میں دی جانے والی تعلیم کا متبادل ہو سکتی ہے۔

جب تعلیمی اداروں کی سرگرمیاں بحال ہوں گی تو بچے بھی پراعتماد سرگرمیوں کی طرف دوبارہ راغب ہوں گے۔حکومت کو اپنے فنڈز کا رخ تعلیمی اداروں کی طرف کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بیروزگاری سمیت ایک ایسا بحران جنم لے گا جو حکومت کے لیے برداشت کرنا نا ممکن ہوگا۔میری نظر میں بچوں کا کتاب سے نظریں ہٹا کر موبائل سکرین اور لیپ ٹاپ پر نظریں گاڑنا یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ حکومت حفاظتی انتظامات کرنے کے بعد تعلیمی ادارے کھول دے سکولوں کی رونقیں بحال ہوں۔

اور تعلیمی اداروں سے بچوں کا ربط ایک دفعہ پھر قائم ہو۔ابھی بھی اس نقصان پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اگر بروقت اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یہ ناقابل تلافی نقصان میں تبدیل ہو جائے گا۔دینی اداروں کے حالات ایک الگ اور مستقل موضوع کو متقاضی ہے اس پر انشاء اللہ اگلے کسی کالم میں بات ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :