امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کی پہلی باقاعدہ ملاقات

منگل 22 جون 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

16جون بروز بدھ کو دو بڑی عالمی طاقتوں کے سربراہان کی ملاقات عالمی میڈیا کے لیے ایک بڑی خبر تھی۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق سوئٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں 5 گھنٹے تک جوبائیڈن اور ولادیمیر پیوٹن میں ہونے والی ملاقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔خیال رہے کہ امریکا اور روس کے درمیان حالیہ برسوں کی بد ترین کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے صدور کی یہ پہلی ملاقات ایسے وقت پر ہوئی جب دونوں ممالک چند ماہ قبل اپنے سفیروں کو واپس بلا چکے ہیں۔

ملاقات میں روسی صدر پیوٹن نے پہلا قدم اُٹھانے پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا جس پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ایک دوسرے سے آمنے سامنے ملنا ہمیشہ بہتر رہتا ہے۔امریکی صدر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ بات چیت مکمل طور پر تعمیری رہی ہے اور دونوں ممالک نے کشیدہ تعلقات میں کمی کے لیے اپنے اپنے سفیروں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)


 پیوٹن نے کہا کہ امریکا کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں، دونوں ملک اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔روسی صدر نے کہا کہ عالمی سطح پر جوہری استحکام روس اور امریکا دونوں کی ذمہ داری ہے، روس نے امریکا کو سائبر سیکیورٹی پر مفصل معلومات فراہم کی ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ سائبر حملے امریکا سے ہی ہوتے ہیں، روس پر بھی تمام سائبر حملے امریکا سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بائیڈن نے مجھے قاتل کہنے پر وضاحت پیش کی جو میں نے مان لی ہے، امریکا نے کھلے عام روس کو دشمن قرار دیا جوکہ نہیں ہونا چاہیے تھا، بائیڈن ایک تعمیری سوچ والے اور تجربہ کار رہنما ہیں۔پیوٹن کا کہنا تھا کہ روس امریکا کے ساتھ سرد جنگ کبھی نہیں چاہیگا، سرد جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں۔دوسری جانب ایک علیحدہ پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے کہا کہ میں نے روسی صدر کو بتایا ہے کہ میرا ایجنڈا روس مخالف نہیں ہے، ملاقات میں اسلحے کی تخفیف سے متعلق مذاکرات کے آغاز پر اتفاق ہوا، افغانستان میں دہشت گردوں کو ابھرنے سے روکنے کی اہمیت پر بھہ بات ہوئی، سائبرسیکیورٹی کے معاملے پر بھی گفتگو کی گئی۔

بائیڈن نے کہا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے پر روس کے ساتھ اتفاق ہوا ہے، روس پر واضح کر دیا ہے کہ امریکا یا اتحادیوں کے مفادات کے خلاف اقدامات کا جواب دیا جائے گا۔
مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ 'تناؤ سے بھرپور عرصے میں بھی' مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔دونوں صدور کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ کے تعاون سے آپسی تنازعات اور جوہری جنگ کے خدشے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اپنی پریس بریفنگ میں دونوں رہنماؤں نے متعدد موضوعات پر گفتگو کی جس میں انسانی حقوق، جوہری ہتھیار اور سائبر سکیورٹی وغیرہ بھی شامل تھے۔
صدر پیوٹن نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سائبر کرائم کے متعلق بھی بات کی جو دونوں ممالک کے مابین وجہ نزاع بن چکا ہے۔روسی صدر نے کہا کہ روس نے امریکہ کو مبینہ سائبر حملوں کے متعلق ’تفصیلی معلومات فراہم‘ کی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ نیاگرچہ اب تک اب تک اس پر جواب نہیں دیا ہے۔تاہم مستقبل میں اس بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ وہ اور صدر بائیڈن سائبر سکیورٹی پر ’بحث کے لیے پرعزم‘ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ سائبر سکیورٹی دونوں ممالک کے لیے اہم ہے اور اُنھوں نے حال ہی میں امریکہ میں ایک تیل کی پائپ لائن سسٹم اور روس میں ایک طبی نظام پر سائبر حملے کی جانب اشارہ کیا۔

صدر پیوٹن نے امریکی صدر کی تعریف کرتے ہوے کہا کہ جو بائیڈن ’تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاستدان‘ ہیں اور یہ بھی کہا کہ ’وہ صدر ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں۔‘ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے امریکہ میں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے لیے امریکی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ’ہمارے ملکوں میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کے ذمہ دار لیڈر خود ہوتے ہیں۔

آپ امریکہ کی سڑکوں کو دیکھیں، روز لوگ مرتے ہیں۔ آپ منھ بھی نہیں کھول پاتے کہ آپ کو گولی مار دی جاتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کیا ایسے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے؟`صدر پیوٹن نے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔
صدر جو بائیڈن کا اظہار خیال۔روسی صدر کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پریس کانفرنس کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں، روس کے خلاف نہیں۔

اسکا مطلب یہ تھا کہ وہ روس کے خلاف کوی عزائم نہیں رکھتے۔انہوں نے کہا کہ
’جہاں کہیں بھی اختلاف ہیں وہ حل ہونے چاہیں۔اسی طرح میں چاہوں گا کہ صدر پیوٹن سمجھیں کہ میں جو کہتا ہوں وہ کیوں کہتا ہوں۔اسکا پس منظر کیاہے، اور جو کرتا ہوں وہ کیوں کرتا ہوں۔انہون نے کہا کہ میں نے صدر پوتن کو بتایا ہے کہ میرا ایجنڈا روس یا کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ امریکی عوام کے حق میں ہے۔

جو کہ ایک مثبت بات ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ انسانی حقوق امریکیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ ’ہمیشہ ایجنڈے پر رہیں گے۔‘
جب صدر جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ اُنھوں نے امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت روکنے کے لیے کیا کیا ہے، تو اُن کا کہنا تھا کہ 'پوتن جانتے ہیں کہ اس کے نتائج ہوں گے۔'
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ روس ’عالمی قوت کے طور پر اپنی عالمی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنیوا میں ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی کم درجے پر ہیں اور دونوں ممالک اپنے سفیروں کو واپس بلا چکے ہیں، تاہم اپنی پریس کانفرنس میں صدر پوتن نے کہا کہ صدر جو بائیڈن سے ملاقات میں سفیروں کی واپسی طے پا گئی ہے۔توقع کی جا رہی تھی کہ ملاقات میں اقتصادی پابندیوں، سائبر حملوں اور انتخابات میں مداخلت کے موضوعات پر بات چیت ہو گی۔

دونوں صدور کے مابین ملاقات کے لیے مقام کا انتخاب بھی دلچسپ ہے۔ 1985 میں جب سرد جنگ کے عروج پر تھی تب امریکی صدر رونلڈ ریگن اور سوویت یونین کے رہنما میخائل گورباچوف کی جنیوا میں ملاقات ہوئی تھی۔
امریکہ اور روس کے سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر ہیں اور دونوں ممالک میں کسی کا بھی سفیر دوسرے ملک میں موجود نہیں۔
روس نے حال ہی امریکہ کو ’غیر دوستانہ‘ ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

البتہ امریکی صدر نے کہا ہے کہ تعلقات میں ’استحکام‘ اور ’غیریقینی‘ کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اس ملاقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی کو بتایا اس ملاقات کو حوصلہ افزا قرار دیااور کہا کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔البتہ روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری اشاکوف نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’پرامیدی‘ کی زیادہ گنجائش نہیں۔

روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر بائڈن ایک دوسرے کیلے اجنبی نہیں کیونکہ صدر جو بائیڈن ایک بار پہلے روسی صدر سے بطور نائب امریکی صدر ملاقات کر چکے ہیں۔جب وہ صدر اوباما کے پہلے دور صدارت میں نائب صدر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔اس ملاقات سے قبل دونوں ملکوں کے مابین تعلقات دوستانہ سطح پر نہیں تھے۔کیونکہ امریکی صدر نے کچھ عرصہ پہلے روسی صدر کو ’بے رحم قاتل‘ قرار دا تھا۔


کن موضوعات پر بات ہوئی۔دونوں صدور کے ملاقات کی مکمل تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں تاہم دونوں رہنماؤں کے پاس بات چیت کے لیے اسلحہ کی تخفیف، سائبر سیکورٹی اور نئے میدان جنگ سمیت کء اہم موضوعات پر بات ہوی ہے۔اسی طرح امریکہ کے پاس انسانی حقوق کے حوالے سے شکایات کی لمبی فہرست ہے جسے صدر پوتن رد کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
تاہم قیدیوں کی تبادلے کے حوالے سے کسی پیشرفت کی توقع کی جا رہی ہے۔

امریکہ اپنے فوجی پال ویلن کی رہائی چاہتا ہے جو روس میں جاسوسی کے الزامات پر سزا پا چکے ہیں، جبکہ روس بھی ماضی میں قیدیوں کے تبادلے کی کوشش کرتا رہا ہے۔دونوں ملکوں کے مابین ’سفارتی جنگ‘ کو روکنے کے لیے شاید کوئی معاہدہ طے پا جائے اور دونوں ملک اپنے سفیروں کو واپس اپنے عہدوں پر بھیج دیں۔
اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی نیا موڑ نہیں آئے گا اور دونوں ملکوں کی عداوت کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن یہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے لیے موقع ہے کہ وہ آمنیسامنے بیٹھ کر کھلے انداز میں اپنے خدشات پر بات چیت کر سکیں اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچا لیں۔


متنازع موضوعات اور ان پر پیش رفت کی توقع
سفارتی تعلقات کی بحالی:روس اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔دونوں ممالک کے سفراء متعلقہ ممالک میں کام نہیں کر رہے۔امید کی جا رہی ہے کہ دونوں فریق سفیروں کو واپس بلانے کے معاملے پر بات کریں گے۔ امریکہ حالیہ برسوں میں درجنوں روسی سفارت کاروں کے ملک سے نکالنے کے علاوہ روسی سفارت خانے کے دو احاطوں کو بند کر چکا ہے۔

اسی طرح روس نے بھی امریکی سفارت خانے پر مقامی لوگوں کو بھرتی کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور امریکی سفارتی عملے کو کم ویزے جاری کیے تھے۔
تخفیف اسلحہ:دوسرا اہم ترین موضوع تخفیف اسلحہ ہے۔حکام کا خیال ہے کہ تخفیف اسلحہ کے معاہدیکے حوالے سے کچھ معاملات پر پیشرفت ہو سکتی ہے۔ روس نے رواں برس فروری میں جوہری اسلحہ کے حوالیسے معاہدے میں توسیع کی تھی۔

روس چاہتا ہیکہ اس میں مزید توسیع کر دی جائے۔اسلحہ کے پھیلاؤ کے حوالے سے روس اپنا ایک موقف رکھتا ہے جبکہ امریکہ میں اسلحہ سازی کے ساتھ امریکی معاشی مفادات وابستہ ہیں۔اسلحہ سازی کی صنعت سے متعلق افراد امریکی سیاست میں اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔اب دیکھنا ہوگا کہ اس موضوع پر کیا بات چیت ممکن ہوسکتی ہے۔اور کس حد تک پیش رفت ہوسکتی ہے۔


سائبر حملی:توقع کی جا رہی ہے کہ صدر جو بائیڈن روسی ہیکروں کے سائبر حملوں کے حوالے اپنے خدشات کا اظہار کریں گے۔ صدر پیوٹن ان حملوں میں روس کے ملوث ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔
انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ:امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ صدر پوتن اس کی تردید کرتے ہیں۔
قیدیوں کا تبادلہ:روسی جیلوں میں قید دو امریکی شہریوں کے خاندانوں نے سربراہ ملاقات سے پہلے قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھایا ہے۔

جب صدر پوتن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہوں گے تو ان کا جواب تھا: ’یقینا`امید کی جا سکتی ہے کہ اس ملاقات کے بعد قیدیوں کے معاملے میں بہتری کی توقع ہے۔
یوکرین:2014 میں روس کی طرف سے یوکرین کے علاقے کرائمیا کو اپنے ملک میں شامل کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ حالیہ مہینوں میں ایک بار کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا تھا جب ایسی رپورٹس سامنے آئیں کہ روس کرائمیا میں اپنی فوجی طاقت کو بڑھا رہا ہے۔


روسی صدر نے یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شمولیت کو تسلیم کرنے پر اپنی ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا۔
شام:توقع کی جا رہی ہے کہ صدر بائیڈن روسی صدر کو کہیں گے کہ شام میں امداد پہچانے کے لیے اقوم متحدہ کا واحد راستہ بند نہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ میں اس حوالے سے ووٹنگ ہونا ہے جہاں روس کو ویٹو کی طاقت حاصل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :