رحمت کے دروازے کی چابی

پیر 27 اپریل 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

رمضان کا بابرکت مہینہ رحمتوں کے آغاز سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی پکار کے  ساتھ عرش پر جلوہ افروز ھے اور پکار رہا ہے کہ ھے کوئی رحمت چاھنے والا میں رحمت کے تمام دروازوں کی چابیاں اس کے حوالے کر دوں، سوچنے کی بات ہے کہ اس پکار کا کوئی جواب دینے والا نہ ھو تو اس مالک حقیقی کو غصے کی بجائے پھر بھی پیار آتا ھو تو اس سے زیادہ محبت کیا ھوگی ، کیا انسانی رشتوں میں ایسی کوئی محبت ھے کہ جو اتنی پکار کے باجود جواب نہ دے اور وہ پھر بھی پیار کرے؟ اب یہ غور کرنے کا مقام ھے کہ محبت کون کرتا ہے۔

اپ کا مال، دولت، اولاد، ماں باپ، آپ کی حرص و طمع، آپ کا غرور وتکبر، ھماری سرکشی اور بے حسی ۔ دنیا کے یہ سارے رشتے اتنی پکار کے باجود جواب نہ دینے پر ھمارے ساتھ محبت کریں گے ؟ ھر گز نہیں! وہ رحمت کے دروازے کی چابی کیسے حاصل کرنی ھے! انسان اپنی فطرت میں جب خدا بن بھیٹتا ھے تو وہ براہ راست اللہ کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ھے ایسے دنیا میں کئی گھمنڈ ھم روز دیکھتے ہیں جن کے پاس رزق کی تقسیم آ جائے تو وہ تکبر اور غرور کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور دوسرے کو حقیر جان کر ٹھکرا دیتا ہے تو کیا ایسے فرد کو وہ رحمت کے دروازے کی چابی دے دے، ایک کو دولت سے نوازتا ہے تو وہ ڈھیروں کے ڈھیر جمع کر کے نعرہ لگاتا ہے کہ یہ تو میں نے اپنی محنت سے حاصل کیا ھے ۔

(جاری ہے)

کسی کو کیوں دوں، اس کو رحمت کے دروازے کی چابی مل سکتی ہے سوچیں! ایک فرد کے پاس منصب ھے اور وہ اس لئے گھمنڈ میں مبتلا ھے کہ یہ بھی میری کاوش ہے اور میرے سامنے انسان رینگ کر پہنچتے ہیں تو مجھے سکون آتا ہے ایک بڑا سا کمرہ، نوکر چاکر خوش آمد کرنے والے سب جمع ھیں کبھی وہ نہیں نکلتا ، اور کبھی خوش آمد والے نکلنے نہیں دیتے، ایک شخص علم و عمل کے گھمنڈ میں دوسرے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے! آخر کون ھو گا جسے رب العالمین رحمت کے دروازے کی چابی عطا فرمائے گا؟ سب سے پہلے عاجزی و انکساری ھی وہ ذریعہ ہے جو ھمیں اس کے قریب لے جائے گا کیوں کہ وہ بادشاہ ھے، مالک ھے انسان اس کی بہترین مخلوق مگر وہ غرور کو پسند نہیں کرتا، کیسے کرے؟ اس جیسی ایک خوبی تو لا کر دیکھائیں کیا اسے بادشاہت کا حق نہیں ہے ھم شکر گزار ھو کر عاجزی سے اس کے سامنے پیش ھوں گے تو وہ رحمت کے دروازے کی چابی ھمارے حوالے کر دے گا پھر جو مرضی دروازہ کھول کر اس کی عطاؤں کا حصہ وصول کر لیں، ھماری تجوریاں بھر جائیں گی اس کی عنایات ختم نہیں ھوں گی، کیا آپ کو رحمت العالمین، محسن انسانیت کی زندگی کے منظر یاد نہیں جو راتوں کو، دن میں، سفر و حضر میں سر جھکا کر  معافی اور عاجزی کا نمونہ بنے رہتے تھے، پاکیزہ گفتار سے لے کر پاکیزہ اعمال تک خوف کا یہ عالم تھا کہ اردگرد والے گھبرا جاتے تھے ، کیا تاجدار کائنات کو اس کی ضرورت تھی مگر کیوں اس لئے کہ انسانیت کا یہی مقام اللہ کے قرب و محبت کا باعث بن سکتا ہے۔

اج رمضان کے اس عشرے میں وہ رحمتوں کے لیے پکار رہا ہے ھم عاجزی، شکر گزاری اور صبر سے یہ چابیاں حاصل کر سکتے ہیں اٹھ جائیے، بیدار ہو جائیے قیمتی لمحات آپ کے منتظر ہیں چابیاں تقسیم ھو رھی ھیں۔۔۔۔ھم ایک قدم جائیں گے تو وہ دس قدم آئے گا دامن میں ایسے سمیٹ لے گا کہ سب رشتے بے معنی لگیں گے وہ ان رشتوں کو آپ کے لیے مسخر کر دے گا۔مانگ کر تو دیکھیں یہ کورونا سے تو ڈر گئے مگر اس مالک کی عطاؤں جو ھوا میں اڑا کر بھول گئے ہیں۔

وہ ھمیں بار بار آوازیں لگاتا ہے مگر ھم مادے کی تعیشات میں گم غفلت کی نیند سو رہے ھیں۔رحمت کیسے آئے گی۔وہ یاد نہیں کہ ھم کچھ نہیں تھے اس نے سب کچھ بنا دیا۔بیمار تھے شفا دے دی، رزق کے انبار لگا دئیے، دنیا کی سب چیزیں ھماری دسترس میں دے دیں، حاکم بنایا سر سے پاؤں تک ایک انمول سلطنت تخلیق کر کے اس کا بادشاہ بنا دیا اور دو راستے بتا دئیے ، انعمت علیھم، اور مغضوب علیھم، اختیار دے دیا کہ انعام والا راستہ چن لو یا غضب والا، ھم عقل و دانش کے باوجود غضب والے راستے کی طرف لپک رہے ہیں ، رحمت کے دروازے کی چابی چاھیے تو ھمارے لیے موقع ھے گر جائیں سجدے میں اور مان لیں کہ مالک وہی ہے دیکھنا محبت اور قربت نہ ملی تو پھر کہنا!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :