سماج کا زہر اور اس کا تریاق!

بدھ 16 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

اکثر والدین، علماء، اساتذہ اور بڑے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ موبائل فون نے بچوں کو تباہ کر دیا ہے، ان کے اخلاق، اعتماد اور اطمینان کو چھین لیا ھے، آج ایک سال کا بچہ بھی موبائل سے بھلایا جاتا ہے، سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے موبائل اس کی عادت بن چکا ہوتا ہے، اس سے  اجتماعی زندگی، صلاحیت اور نفیساتی پختگی دم توڑ دیتی ہے، نتیجتاً وہ تنہا ھوتے ہوتے کسی انجانی دنیا کا مسافر بن کر رہ جاتا ہے، والدین کے پاس وقت نہیں، وہ معاشی چنگل سے نکلنے کے منصوبے بناتے بناتے ، اپنا ہنستا مسکراتا مستقبل کھو دیتے ہیں، دنیا آج ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت رکھتی ہے، اس کی اھمیت اور ضرورت سے واقف ہے جس پر آئے روز کام ہو رہا ہوتا ہے، اس کے باوجود آن ملکوں میں بھی نفسیاتی اور سماجی مسائل کا انبار ہوتا ہے جس کا حل بھی تجویز کیا جاتا ہے اور تربیت کو تعلیم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے، تاہم جو حالت تیسری دنیا کے غریب اور متوسط ممالک میں ھے وہ کہیں نہیں، جبکہ وہ امیر ممالک بھی اس زبوں حالی کا شکار ہیں جہاں تعلیم، تربیت اور پرورش کے ضروری اور فطری اصولوں سے انحراف کیا جاتا ہے، دوسری وجہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے، جس کی وجہ سے موبائل ایک بڑا سماجی زہر بن کر معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، عوامی، سماجی، مذھبی اور حکومتی سطح پر کوئی کام نہیں ہو رہا، نہ کو مناسب، متوازن اور ویسٹرن انٹرسٹ سے مبرّا دعوت موجود ہے کہ بچے ، جوان اس سے تربیت حاصل کر سکیں، ھم وہ آخری نسل ہیں جو بچپن میں اس سے بچے رہے یا کم از کم آہستہ آہستہ اس گلوبل ویلج میں شامل ہوئے ہیں، اس کے بعد آنے والے بڑی تیزی سے" جدت کی حدت" کا شکار ہیں، ایک دوست نے کہا کہ بچے آگے نہیں نکلے ھم پیچھے رہ گئے یہ بات کسی حد تک درست ہے تاہم اس کے باوجود انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی معاملات تک ہر کوئی پریشان اور اس زہر کا شکار ہے، بچے گھنٹوں اس پر وقت گزار دیں گے، اخلاقیات، ذمہ داریوں اور کتاب و حکمت سے کہیں دور اپنی زندگی میں گم نظر آئیں گے، روز اس موبائل کے ذریعے کتنے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جھگڑے اور فساد جنم لے رہے ہیں مگر علمی و تحقیقی طور پر بانجھ معاشرے میں کوئی حل موجود نہیں ہے، رہی سہی کسر نو دولتیوں، کمرشل ازم کے پیروکاروں اور میڈیا کے بدلتے رجحانات نے چھین لی ہے، اب وہ نہیں ہوتا جو دکھتا ہے، وہ ہوتا ہے جو نہیں دکھتا، ایک بڑی وجہ شہروں یا دیہاتوں میں کھیل کے میدانوں کی کمی ھے، ھم اپنے ملک کے بارے میں ھی سوچیں تو کوئی تعلیمی ادارہ، شہر یا دیہات کھیل کود کی سہولتیں پوری نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں بچے نوجوان منشیات اور موبائل یا کسی بھی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں وقت گزارتے ہیں، جو معاشرے کا ، ملک کا اور قوم کا مستقبل ہیں وہ سرمایہ اس زہر کا تریاق نہیں پا سکتا۔

(جاری ہے)

بعض شہروں میں حالات کچھ بدلے ہیں کہ اب تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بڑی مشکل سے "ھم نصابی"سرگرمیاں کہلانے لگی ہیں، کھیل کود نہ صرف ضروری ہے بلکہ بچے کی ذہنی، جسمانی، نفسیات اور اخلاقی تربیت میں فعال کردار ادا کرتی ہے، سکولوں اور کالجوں میں پی ٹی آئی پہلے برائے نام اب بڑے کام کے ھوتے ھیں کہ بچوں کو ایک ریوڑ کی طرح دن پورا ھانکتے رہتے ہیں اور اساتذہ کرام اس ذمہ داری سے بری الزمہ ھو کر لیکچر نما کوئی چیز ٹھونس کر یہ جا وہ جا، آلا ماشاءاللہ، اساتذہ اچھے اور باصلاحیت بھی ہیں لیکن کمرشل ازم نے جہاں باقی شعبوں کو متاثر کیا ہے وہاں اساتذہ بھی معمار کی بجائے مسمار ہوتے جارہے ہیں، یہی قومی یا معاشرتی تباہی کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے، کالجز میں فزیکل ایجوکیشن کے اساتذہ ہیں مگر وہ بھی تمام بچوں کی تربیت اور پرورش میں کامیاب کی بجائے "کم یاب "ہیں، سہولتیں بھی کم اور دلچسپی بھی کم، جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل رہا، دنیا کی تاریخ دیکھیں تو وہی قومیں ترقی یافتہ ہیں جو ان ضرورتوں اور تقاضوں کا خیال رکھتی ہیں ، یونان کے سقراط، ارسطو، افلاطون کی تعلیم آج تک زندہ ھے، قدیم روما ھو یا فارس، کھیل کود، اولمپیا، واٹر لو، کے میدان اور اکیڈمیاں مصروف رہتی تھیں، آج پاکستان میں تقریباً 93 فیصد کھیل کے میدانوں کی کمی کا سامنا ھے  صرف سات فیصد کھیل یا کھیل کے میدان کتنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، گلی محلوں میں کھیل کود میں زیادہ تر کرکٹ ھی نظر آئے گی، باقی صحت مند کھیل، قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے والے کھیل اور مقابلے، یا جسمانی اور ذہنی تربیت کے ذرائع موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے دو بڑے شوق جنم لے چکے ہیں ایک موبائل کا بے تحاشا استعمال اور دوسرا منشیات یا دیگر نشہ اور اشیا،  کوئی حکومت، معاشرہ، انفرادی یا اجتماعی طور پر اس مشکل سے نکلنے یا نکالنے کے لیے تیار نہیں، مذھبی طبقات صرف اس کے منفی اثرات پر روشنی ڈال کر توبہ توبہ کہتے ہوئے نکل جاتےہیں، حکومت کو بے خبر  والدین اور اساتذہ تھک چکے یا ہار مان لی ہے، ان حالات میں والدین کو سوچنا ھو گا کہ کس طرح موبائل یا انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے بچوں کو بچایا جائے، کتنا وقت بچوں کو دیا جائے؟ بچوں کے ساتھ کیسے دوستی قائم کی جائے کہ وہ والدین کو مسیحا سمجھنے لگیں اسی طرح معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرے حکومت وہ تمام سہولتیں فراہم کرے تاکہ نئی نسل ابھر کر سامنے آئے اور ملک ترقی کرے، کیا کوئی اس زہر کا تریاق ڈھونڈے گا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :