عید ٹرو، اور مولانا غلام حیدر خان جنڈالوی کے مزار پر حاضری!!!

بدھ 19 مئی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

عید ٹیرو یعنی ( عید کے دوسرے دن ) شمالی جنڈالی کے چند گھروں میں جانے کا موقع ملا، اسی دوران تاریخی شخصیت مولانا غلام حیدر جنڈالوی کے مزار پر حاضری کا موقع ملا، زندگی رہی تو مولانا صاحب کے حوالے سے آئیندہ دنوں کالم لکھوں گا، تاہم تذکرہ کرتا چلوں کہ مولانا غلام حیدر جنڈالوی کا نام قرارداد پاکستان 1940ء کے مقررین اور کشمیر کی طرف نمائیندگی کرنے پر نام شامل ھے۔

ان کی تاریخ پیدائش 1905ء اور وفات 1959ء ھے، مولانا جنڈالویان کے علاؤہ حسین شاہ گردیزی صاحب باغ والے کا نام بھی قرارداد پاکستان جلسے میں نمائیندگی کرنے والوں میں شامل ہے ، مولانا غلام حیدر جنڈالوی انتہائی ذھین، زیرک اور شعلہ بیان مقرر تھے، سیاسی سوجھ بوجھ اور علمی شعور  کا بھی منفرد پیمانہ تھا، محض کسی شہرت یا مبالغے کے لیے مزار پر نہیں گیا بلکہ کافی عرصہ کی دلی خواہش پوری کی، بعض اوقات ھم یہ جاننے کے لیے  کہ کون قریب ہے، بڑے دور جانا پڑتا ہے، کئی انتہائی قریبی عظیم لوگ بھی ھمارے تذکروں میں شامل نہیں ہوتے ، ھماری حیثیت کچھ نہیں ہے، یہی لوگ ہماری پہچان ہیں، میں  غازی یوسف علی خاں میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام نوجوان نسل کو ایسی شخصیات کی خوبیوں، ان کے تاریخی ، سماجی، فلاحی، سیاسی اور علمی و شعوری کارناموں پر" وہ جو انمول ہیں" کے عنوان کے تحت باقاعدہ مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، دوستوں سے کئی دفعہ مشاورت کر چکا ہے، اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے یہ پروگرام نہیں ہو سکے، جلد ہی انشاللہ اس پر کام کیا جائے گا تاکہ نئی نسل کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والوں کا علم ہو، ان میں سے شاید کوئی ایک بھی ان کے نقش قدم پر چل سکے۔

(جاری ہے)

اور ھم کامیاب ھو سکیں مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی تاریخی حیثیت ایک مثال ہے۔اور تحریک آزادی کشمیر بھی ان کے تذکروں سے خالی نہیں،
  اسی طرح الحاج غازی یوسف علی خاں مرحوم کی جنڈالی کے لیے بے مثال سیاسی، سماجی اور فلاحی خدمات ایک منفرد درجہ رکھتی ہیں، تراڑکھل تا چھوٹا گلہ سڑک کی تعمیر میں" اپنی مدد آپ" اور برادری کے تعاون سے قائدانہ کردار ادا کیا، سیاسی محاذ پر چیئرمین یونین کونسل اور تحریک آزادی کشمیر میں ڈوگرہ فوج کے خلاف جدوجہد میں کردار ادا کیا، تعلیمی اداروں اور تعلیمی و مذھبی، سیاسی اور معاشی شعور کے لیے بڑا کام کیا، ان کے کئی کارناموں کے ھم چشم دید گواہ ہیں، جبکہ اسی طرح کیپٹن یوسف خان مرحوم کے سیاسی، سماجی اور فلاحی کاموں کی ایک طویل فہرست ہے جو نوجوان نسل کو بتانے کی ضرورت ہے، یہ لوگ دراصل انسانیت کا ایک روشن باب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے  ھم جیسے کئی کم علم لوگ بھی پہچانے جاتے ہیں، وگرنہ ھم کیا ہیں! میں دور کیا جاؤں سردار اشرف صاحب مرحوم  کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی خدمات کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہے، ان سے کئی تاریخی، قانونی اور سماجی موضوعات پر طویل نشستیں ہوئیں، ھمارے استاد اور قریبی رشتہ دار تھے اس کے باجود کئی کئی راتیں علمی اور تاریخی مباحث رہے جو میری خوبصورت یاد گار ہیں، ان کے ھم نام سردار اشرف صاحب حادثاتی موت کا شکار ہوئے، دارالحکومت مظفرآباد میں اپنے گاؤں اور تمام علاقوں کے لیے ان کی خدمات قابل فخر اور نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں، سردار شہزاد ایڈووکیٹ مرحوم کی سیاسی خدمات ایک قابل امتیاز حثیت رکھتی ہیں، ماسٹر سید اکبر خان کی فلاحی ، اصلاحی سوچ اور عملی خدمات ہوں ، ھمارے استاد، جنڈالی کی منفرد پہچان مولانا عارف صاحب مرحوم جن کی کمی اس مرتبہ شدت سے محسوس ہوئی ان کے کارنامے ھو ں یا خدمات  قابلِ قدر مقام  رکھتے ہیں ، یہ لوگ تو روشن چراغ کی مانند تھے اور ان کے کیے ھوئے کام خود بولتے ہیں، مگر چند دیے ایسے بھی ہیں جن کے  جلنے سے ھمارا گاؤں اور گرد و نواح کے علاقے روشنی حاصل کرتے رہے،
  شمال مشرقی جنڈالی ایک خوبصورت اور دلکش نظاروں کا مرکز ہے، دوتھان، پوٹھی چھپریاں، تتہ پانی، ھجیرہ کے خوبصورت مناظر آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں، ڈاکٹر نور حسین صاحب مرحوم کے گھر کے قریب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی، قاری افتخار صاحب کی خوبصورت  اور دل میں اترنے والی قرآت کے ساتھ روحانی لطف دوبالا ہو گیا،  حسین اتفاق یہ تھا کہ سترہ سال پہلے ان کے امامت میں نماز پڑھی تھی اور جو سورہ انہوں نے اس وقت تلاوت کی تھی ، وہی سورہ آج بھی جمعہ کی نماز میں انہوں نے پڑھی ، خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لیے دل بھی خوبصورت اور آنکھیں بھی متلاشی ہونی چاہیئے، لوگ انمول تھے، نظارے انمول ہیں، صد افسوس کہ انمول ھمیشہ بے مول جاتے ہیں، کاش اس انمول حیثیت کو ھم پہچان سکیں،اور اپنی زندگی میں انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر جائیں، سرخرو رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :