ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آواز دے کہاں ہے"؟

اتوار 5 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

میں مشکل سے چار پانچ سال کا ھوا ھوں گا کہ کانوں میں صبح سویرے قرآن مجید کی سریلی آیات کی آواز نیم نئید میں ایسی تسکین لاتی تھی ، ایسا لگتا تھا کہ کوئی اللہ تعالیٰ سے اپنے دکھ درد بیان کر رہا ہے،" اللہ تو میرے پاس ھوتا، میں تیرے بالوں میں کنگھی کرتی" دور کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ اس سریلی آواز میں شامل ھو کر۔ میری صبح میں ایسے رس گھولتی کہ دل فطرت کے نظاروں میں کہیں کھو جاتا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جس بالکل اپنے ربّ کے پاس ھوں، اس آواز میں ایسا ترنم اور نغمگی تھی کہ دل روتا اور ایسی فریاد بلند ھوتی جو قبولیت کا یقین لے کر امید باندھا دیتی، آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ آواز خاموش، وہ فرحت اور اطمینان قلب نایاب، بس احساس کا لمس زندگی کی تحریک ھے،
  ماں جی کو ھم "بھوجی" کہتے تھے اور یہ کہہ کر انہیں اتنا قریب محسوس کرتے کہ شاید ماں، امی یا مما کہہ کر قریب نہ ھوتے، بھوجی فطرت نگاری بھی خوب جانتی تھی، سبزیوں، پھلوں  کی افزائش ، پرورش اہنے بچوں کی طرح اور ان کو خود اپنے ھاتھ سے دوسروں میں تقسیم کرنے کا شوق تھا، یہی وجہ تھی کہ اتنی سبزیاں اور پھل ہوتے تھے کہ سنبھالنا مشکل ھوتا تھا، دور دور سے پانی کی بالٹیاں لا لا کر ھم بھائی تھک جاتے، پھر ماں خود دو دو گھڑے سر پہ رکھ لیتں، ھمیں سکول بھیجنا، واپسی تک راستے دیکھتے رہنا بچوں کو کچھ ھو نا جائے، لوگوں سے پوچھتے رہنا "میرے بچے نہیں دیکھے"خود بچوں کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جاتی تھیں، کچھ دن کے لئے پنڈی آنا پڑا تو رو رو کر آئیں اور واپس جاکر بہت روئیں،
  ماں کو بچوں سے لازوال محبت ہوتی ہے، ھماری ماں کی بھی تھی تربیت کے دوران کی جانی والی سختی ، محبت کی علامت ہی ھوتی ھے، جہاں ہڑھی لکھی مائیں ہوں یا آن پڑھ رویہ محبت کے گرد ہی گھومتا ہے، مجھے یاد ہے ماں نے کبھی مارا تو وہ خود بھی روتی تھیں اور کھانا تک نہیں کھاتیں،  سخت مشقت کی زندگی گزاری، حساس اتنی کہ گاؤں میں کوئی بھی واقعہ ھو جائے لگتا تھا ان کا اپنا کوئی بیمار ھے، مر چکا ہے، یا۔

(جاری ہے)

اپنے کو نقصان پہنچا ہے، میرا آٹھویں کلاس میں ایک بندے کی وساطت سے آرمی کالج جہلم میں داخلہ ھوا تو ماں نے اس لئے نہیں جانے دیا کہ میں بچے کو اپنی آنکھوں سے دور نہیں بھیج سکتی، بڑے بھائی کراچی گئے تو جو حالت ماں کی ھوئی میں واقف ہوں، دن رات گزارنے مشکل ھو جاتے، یر آنے جانے والے سے پوچھتی تھیں، اپنے بھائی سے اتنی محبت، اپنی ماں سے اتنا گہرا تعلق میں نے کہیں نہیں دیکھا، میرے والد اچھے روزگار سے وابستہ تھے کسی چیز کی کمی نہیں ھوئی لیکن  گھر کے اخراجات ماں کے ھاتھ میں تھے، جو بہترین مینجر کی طرح چلایا کرتیں، ماں کو اپنی ماں کی طرف سے مذھبی تعلیم و تربیت ملی تھی مجھے یاد ہے کہ تیسری کلاس سے میں ریگولر نماز پڑھنا شروع ھوا تھا، جن میں میری ماں اور میرے استاد زرین صاحب کا ھاتھ تھا،  گھر میں دودھ میں، فصل میں، سبزی، پھل، کھانے پینے کی چیزوں، اور پہننے کی ہر چیز میں صدقہ ماں کا عام معمول تھا، باریک سی باریک چیز کا گہرا مشاہدہ رکھتیں تھیں،
  فروری 2004ء میں اللہ نے ان کو اور والد صاحب کو اپنے گھر بلا لیا ایک مشکل وقت تھا، بھائی کی جواں سالہ موت کا گہرا غم، لیکن حج نے وقتی طور پر زخم مندمل کر دیئے، حج کا سفر بھی انتہائی محبت اور عشق والا تھا، اللہ تعالیٰ نے گھر سے ہی کٹھن سفر کے بعد منزل عظیم کی طرف بلایا، برف بھاری کی وجہ سے کئی گھنٹے پیدل چل کر  بلوچ اور پھراسلام آباد پہنچیں تو ذرا بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں تھا
سب ڈاکیومنٹس ایک رات میں مکمل ہو گئے اور دوسرے دن فلائٹ تھی وہ بھی حج کی آخری فلائٹ، انتہائی رش، اور پہلی دفعہ کا سفر، مکہ پہنچ کر طواف کیا، اور سعی کے دوران ماں صفا اور والد صاحب مروہ رہ گئے، ساتھ ہی میرا سفر شروع ھو گیا دو دن  عبادت اور دعا کے بس رب سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہوتی، دونوں کے بچھڑنے سے ایک نئی آزمائش شروع ھو گئی، دوسرے دن ماں نے اپنے کسی عزیز سے فون پر رابطہ کر لیا، کہنے لگی خورشید مجھے پتہ ہے تم پریشان ہو لیکن یہاں میں اکیلی ھوں اور کوئی آواز آتی ہے کہ"خورشید تمھارے ساتھ موجود ہے"میں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی ھوں تو سکوں ھو جاتا ھے، ماں سفر حج کے باقی لوازمات کی ادائیگی کے لیے روانہ ھوئیں ھشاش بشاش تھیں، جو کچھ ھوا اللہ کی مرضی ھے میں حیران ھو رہا تھا کہ یہ وہی ماں ھے جو ڈر جاتی تھی، یہاں تو پر اعتماد ھے، مجھے حوصلہ دے رہی ہے، خیر والد صاحب کا پتہ نہیں لگا، والد صاحب مکمل بھوک پیاس اور ننگے پاؤں حج کا سفر مکمل کر کے واپس مکہ پہنچے، میں مسلسل دعاؤں میں مصروف تھا، ایک لمحے یہ دعا کی کہ "اللہ سال کی ہی سہی انہیں زندگی دینا، اور اب اگر نہ ملے تو میں نہیں اٹھوں گا"بس کیا تھا کہ دس مِنٹ میں نذیر صاحب اور پھر ماموں کی کال آگئی کہ مل گئے ہیں، حالانکہ وہ والدہ کا اکیلے ہی ٹکٹ کروا چکے تھے، میں سوچ رہا تھا ائیرپورٹ پہنچیں گے تو میں پاؤں چوموں گآ، یہ سفر اس لئے بیان کیا کہ ماں کی محبت اور اللہ کی مدد ساتھ ساتھ چل رہی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے مکمل دیوانگی کے ساتھ حج نصیب کیا، جیسے اس کا حق ہے، گرد آلود، سفر کی تھکان، محبت کا جنوں سب کچھ تو تھا، یہ بھی نصیب کی بات ہے،
ماں نے بیماری بھی دیکھی لیکن احساس نہیں ہونے دیا، اپنے بچوں، بھائی اور نہنیال کا تذکرہ اور یاد ھمیشہ ساتھ تھا، تمام بیٹوں ، بیٹی اور بہن، بھائی سب سے بے مثال محبت تھی،  2003ء سے میرے ساتھ خصوصی طور پر رہیں جس کا لمحہ لمحہ یادگار ہے، سب مائیں ایسی ہی ھوتی ھوں گی، وہ کون ہیں جو ماں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، میری ماں تو استاد، منتظم اور مربی سب کچھ تھیں، چھ ستمبر 2016ء کو مختصر علالت کے بعد، ھنستی مسکراتی داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں، اب ان کی یادیں ہیں جن کے لیے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، اللہ تعالیٰ میری ماں کو رحمتوں اور مغفرتوں سے نوازے۔


آواز دے کہاں ہے۔۔۔چلنے کو تیار کارواں ہے،
" میری ماں تو کہاں ھے"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :