سیالکوٹ سانحہ، پس منظر و پیش منظر

جمعہ 10 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ معمولی نہیں ہے، مگر اس سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی، سماجی اور مذھبی کلچر میں کوئی ایک شخص بھی نہیں جو کھل کر اس پر بول سکے یا لکھ سکے، پھرکس سے کوئی سوال پوچھے، سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور شخصیات، محض اپنی جان اور سیاسی نقصان کی خاطر چپ ہو جاتی ہیں، اسی لیے اس قبیل کے لوگوں نے توہین مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، یہی قصور مسلمان آج سے نہیں اکثر کرتے آئے ہیں برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ایسا ہی کر رہے ہیں، ھندو ذات پات اور رویے کے بھی گہرے اثرات ہیں جو  ابھی چل رہے ہیں،
میں کوئی عالم دین یا بڑے عوامی اثر و رسوخ والا ھوتا تو ضرور کوئی بات کرتا مگر ان حیثیتوں سے پاک خالص انسانی اور دینی پس منظر میں جب برصغیر کی دینی شخصیات اور فکر کو دیکھتا ہوں تو تمام تاریخ مبالغہ آرائی، خوشامد اور ذاتی و سیاسی مقاصد سے بھری پڑی ہے، ھم اپنی ذات اور گھر کے یونٹ پر توجہ دینے کے بجائے دوسروں پر نظر رکھتے ہیں، جہاں سے بگاڑ کی ابتدا ہوتی ہے، برصغیر کی بڑی بڑی شخصیات کو دیکھیں عالم و دانشور  الفاظ میں، گفتگو میں، تقریر و تحریر میں مبالغہ آرائی غالب ھے، جس سے ھماری دینی فکر بھی شدید متاثر ھوئی ھے، قرآن وسنت کے اصل پیغام کو علماء اور مشائخ نے الجھا کر رکھ دیا پھر ھم کیسے نوجوانوں کو روک سکتے ہیں؟، قیام پاکستان سے قبل، علماء دیوبند ہوں، بریلی کے زعماء ھوں یا  اکبر و ظفر کے جوش آمیز خطابات اور نظمیں زبان و بیان کا بڑا کام, مگر فکر و عمل میں مبالغہ آمیزی موجود ہے، اس قبیل میں سرسید احمد خان پہلے دانشور تھے جنہوں نے متوازن قسم کی تحریک شروع کی، جس کے اثرات تو ھو ئے مگر علماء و فقہاء نے ایک ہی جنبش قلم سے انہیں متنازعہ بنا کر مسلمانوں کو  ان سےمتنفر کر دیا گیا،  پھر قیام پاکستان کے بعد ھم دینی اور سیاسی فکر میں مبالغہ آمیزی اور نصاب تعلیم میں مبالغہ آرائی سے بچنے کا راستہ نہیں نکال سکے، پاکستان کی ابتدا سے لے کر جماعت اسلامی کی فکر، علماء دیوبند اور بریلی کے مجاہدوں کے  کارنامے ہی نمایاں رہے، اس کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کفر کے فتووں کا ایک طویل سلسلہ شروع ھوا، بڑے بڑے لوگ توبہ توبہ کرتے گوشہ نشینی میں چلے گئے، کئی ایک نے فریاد بھی کی مگر سچ کے شور میں، بڑا سچ کوئی تلاش نہیں کر سکا،
حال ماضی کا آئینہ دار ہے، بہت دور نہ جائیں تو گزشتہ بیس سال کا تجزیہ کر لیں، خاموش مجاہدوں سے لیکر میدان جنگ تک ھم نے مبالغے اور خوشامد کو ہی فروغ دیا ھے،  جس کا نتیجہ سیاست، معاشرت اور ریاست میں نمایاں ھے، جب تک کھل کر علماء ومشائخ، سیاسی اور سماجی رہنما اس پر مشترکہ سوچ اور فکر  نہیں اپنائیں گے،  معاشرے کے ہر طبقے کو غذا ملتی رہے گی پھر وہ اژدھا کی صورت میں ھمارے سامنے کھڑا ہو گا، گزشتہ سات سال کے حالات واقعات کو ہی دیکھ لیں، مذھبی اور سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے کہاں کھڑی تھیں؟ اور انہیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ وہ اپنے آپ سے سوال کریں، جواب مل جائے گا، اور سانحہ سیالکوٹ کی وجوہات آپ کے سامنے کھڑی ھوں گی، ادراک نہیں کریں گے تو مستقبل خطروں سے بھرپور ہی ھو گا کیونکہ مستقبل تو ماضی و حال پر کھڑا ہوتا ہے،۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں موجودہ حکومت نے رحمت العالمین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا ھے، جو اچھی کاوش ہے، اس اتھارٹی کو آئینی تحفظ، قانون کی قوت دینے سے پہلے مکمل مشاورت اور تحقیق کرنی چاہیے، یہ ادارہ نوجوانوں کے ہر طبقے، ہر مسلک، اور ہر فکر کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھے، قرآن مجید کی اصل روح اور سنت رسول کی اطاعت و بندگی کے اصول وضع کرے، مبالغہ اور خوشامد جیسی نفسیاتی اور اخلاقی بیماریوں سے نجات کا راستہ تلاش کیا جانا چاہیے، برداشت، اختلاف رائے اور ایک دوسرے کو سننے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے، اجتماعی نظام ریاست و حکومت کے پاس، انفرادی سوچ و عمل افراد میں بانٹ دیا جائے، مذھب کو زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ھونا چاھیے نہ کہ سیاسی اور وقتی فوائد حاصل کیے جائیں،سیالکوٹ واقعہ پر تمام علماء کرام، سیاست دانوں اور مفتیان کرام نے بھرپور مذمتی بیان جاری کیے جو اچھا قدم ہے، اس پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور اپنی تعلیمات، خطبوں اور منبر و مسجد میں بھی اسی فکر کو پروان چڑھایا جائے یوں بھی یہ غیر انسانی فعل ہے جس کے محرکات کچھ اور عمل بالکل مختلف ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :