برائے فروخت
منگل 2 اکتوبر 2018
(جاری ہے)
اب شنید ہے کہ وزیرِاعظم ہاوٴس کی بھینسیں بمعہ اپنی ”آل اولاد“ کے 23 لاکھ 2 ہزارمیں فروخت کر دی گئیں۔ اِن میں سے تین بھینسیں تھیں جن کی اولاد چار کَٹیاں اور ایک کَٹا۔ تین بھینسوں میں سے ایک کی بولی ایک لاکھ سے شروع ہو کر 3 لاکھ 85 ہزار، دوسری 3 لاکھ 30 ہزار اور تیسری 3 لاکھ میں فروخت ہوئی۔ بولی دینے والے حیران تھے کہ اتنی” اونچی“ بولی کیسے چلی گئی۔ تب یہ عقدہ وا ہوا کہ یہ تینوں بھینسیں نوازلیگ کے کارکنوں نے خریدیں جو گھر سے یہ طے کرکے آئے تھے کہ بہرصورت اِن بھینسوں کو خرید کر میاں نوازشریف کو ”گفٹ“ کرنا ہے۔ یہ میاں صاحب سے محبت کا والہانہ اظہار تو ہے ہی لیکن حکمرانوں کو بھی یہ فائدہ ہو گیاکہ ہیلی کاپٹر کے دو، تین چکر اور لگ جائیں گے اور خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔یہی تو ”سادگی“ ہے اور اسی کو کہتے ہیں ”رند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی“۔ اب اگر کوئی جَل بھُن کے سیخ کباب ہونے والا کہتا ہے کہ یہ ”نیا پاکستان“ نہیں بن رہا تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بھئی ! یہی تو نیا پاکستان ہے جس میں نِت نئے تجربات ہو رہے ہیں اور اِسی لیے تو سارے سونامیے کورس میں گاتے رہتے ہیں کہ ”ہم سا ہو تو سامنے آئے“۔
ارسطوانہ دماغ رکھنے والے اکابرینِ تحریکِ انصاف نے سوچا کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے لیے تو صرف ایک کمرہ ہی کافی ہے، اِس لیے چلو ریڈیو پاکستان کی عمارت کو فروخت یا پھرکم از کم ”پَٹے“ پر دے دیتے ہیں اور ریڈیو پاکستان اسلام آباد کو اُٹھا کر کسی دو، چار مرلے کی عمارت میں منتقل کر دیتے ہیں۔ شاید بزرجمہروں نے سوچا ہو کہ الیکٹرانک میڈیا کے اِس دَور میں بھلا ریڈیو کون سنتا ہے۔ اِس لیے ”نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری“۔ اُنہوں نے یہ سوچا تک نہیں کہ ریڈیو پاکستان ارضِ وطن کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہی ریڈیو پاکستان ہے جس پر 27 رمضان المبارک، 14 اگست 1947ء کو جب یہ آواز گونجی ”یہ ریڈیو پاکستان ہے“ تو پورا ملک تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ یہ وہی ریڈیو پاکستان ہے جس نے عالمی نقشے پر اُبھرنے والے اِس اسلامی جمہوریہ کو اقوامِ عالم میں متعارف کروایا۔ یہ صرف ریڈیو نہیں، پاکستان کی تاریخ ہے جس نے اپنے اندر بہت کچھ محفوظ کر رکھا ہے۔ بھلا ایسی نشانیوں کو بھی کوئی پَٹے پر دیتا ہے؟ لیکن پتہ نہیں موجودہ وزیرِاطلاعات فواد چودھری کے دماغ میں کِیا کھچڑی پکی کہ اِس عمارت کا سودا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ تو خیر گزری کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے ملازمین مرنے مارنے پر تُل گئے جس پر یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
فواد چودھری بھی عجیب ہے جس نے یہ سمجھ لیا کہ وہ پارلیمنٹ نہیں، کسی جلسہٴ عام میں کنٹینر پر کھڑاہو کر تقریر کر رہا ہے ۔ شاید اُس نے یہ جانا کہ سامنے سب ”لَلو، پَنجو“ بیٹھے ہیں۔ اُس کے اِس خطاب پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر (جو تحریکِ انصاف ہی کے منتخب کردہ ہیں)نے نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اسمبلی اور جلسے کی تقریر میں فرق ہوتا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فوادچودھری نے کہا” گزشتہ برسوں میں خزانہ لُوٹا گیا۔ اپوزیشن نے قومی خزانے کو ایسے برباد کیا جیسے ڈاکے کی رقم مجرے پر لُٹائی جاتی ہے۔ سٹیل مِل، ریڈو پاکستان اور پی آئی اے سمیت ادارے تباہ کیے گئے۔ نیویارک میں ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو بنا دیا۔ خورشید شاہ نے آٹھ سو افراد کو ریڈیو میں بھرتی کیا۔ مشاہد اللہ خاں نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز کرایا۔ وزیرِاعظم میری بات مانیں تو اِن کو اُلٹا لٹکا دینا چاہیے“۔ فواد چودھری نے انتہائی غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی کو ”چمچے، کڑچھے“ تک کہہ دیا۔ جواباََ سابق قائدِحزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا ” وزیر ِاطلاعات نے گھٹیا زبان استعمال کی۔ مجرہ جہاں ہوتا ہے، سب کو پتہ ہے، سوشل میڈیا پر بھی آتا ہے، کہیں تو ہم سکرین لگا کر دکھا دیں۔ موقع ملا تو آٹھ سو کیا، ایک لاکھ لوگوں کو نوکریاں دوں گا، پھانسی پر لٹکانا ہے تو لٹکا دو“۔ قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا کہ وزیرِاطلاعات ایوان سے معذرت کریں ورنہ ہمیں واک آوٴٹ کرنا ہوگا۔ اِس کے بعد اپوزیشن واک آوٴٹ کر گئی جس پر تحریکِ انصاف کے کچھ ارکان اپوزیشن کو منا کر واپس لائے اور فوادچودھری نے معافی مانگی۔ نئے پاکستان کے بانی وزیرِاعظم عمران خاں کے فوادچودھری جیسے شخص کے انتخاب پر داد دینے کو جی چاہتا ہے لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
فوادچودھری کے گھٹیا اور غیرپارلیمانی الفاظ کی گونج ایوانِ بالا (سینٹ) میں بھی سنائی دی۔ نوازلیگ کے سینیٹر مشاہداللہ خاں کچھ زیادہ ہی ”تَپے“ بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ یا تو فوادچودھری ثابت کرے کہ میں نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں نوکری دلوائی یا پھر سینٹ میں آکر معافی مانگے ورنہ سینٹ کی کارروائی چلنے نہیں دی جائے گی۔ اُنہوں نے عمران خاں سے فواد چودھری کے استعفے کا مطالبہ بھی کیااور ساتھ یہ پیشین گوئی بھی کر دی کہ ایک دِن عمران خاں خود اِسے نکال باہر کرے گا۔ ایک موقعے پر جب مشاہداللہ نے یہ قطعہ پڑھا کہ
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
خاک میں مِل گئے نگینے لوگ
کِسے دماغ کہ ہو دو بدو کمینے سے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.