’آؤٹ سائیڈرزکا کھیل‘

منگل 8 اگست 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تضادات ایک بار پھر ساری صورت حال پر حاوی ہیں۔دونوں طرف کی کیفیت اور احوال یکسر مختلف ہے۔کارپوریٹ میڈیا جس کے شکم بھرنے کی رسدمسلسل اور قابل رشک ہے‘ کی کاوشوں،چوبیس گھنٹے نشریات اور روزانہ وارسینکڑوں صفحات کے احوال کے باوجود 22کروڑ لوگ ایسے چُپ ہیں جیسے کسی اور جہاں میں بس رہے ہوں۔ایک لاتعلقی کاسماں ہے ۔ٹیلی وژن بند کردو اور اخبار پڑھنا چھوڑ دو تو سماج میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے ۔

ہلکی پھلکی سیاسی سرگرمیاں بھی سماجی معمولات کا ہی حصہ ہوتی ہیں۔’حکمرانوں کا ردوبدل ‘اورپانچ سالوں میں ایک دو وزراء اعظم کا نکالا جانا کاہے کی خبر ہے! پاکستان میں ایسا ہی چلن ہے۔ جس کو تھپڑ پڑے وہ روتا چلاتا بھی ہے ،دھاڑ فریاد بھی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

(جاری ہے)

کیا بدلا ہے ؟ اور کیسے بیان کیا جائے کہ کچھ بدل چکا ہے۔مگر دوسری طرف بھگڈر جیسا سماں ہے۔

کان پائی آواز نہیں سنائی دے رہی۔شورشرابے کی ایسی مثال قریب قریب نہیں ملتی۔مگریہ صورتحال بھی عجب فسانہ پیش کررہی ہے۔یوں تو ہر کھیل میں ہر کھیلاڑی کا اپنا ایک طے شدہ کردار ہوتا ہے،وہ اپنی ٹریننگ میں پوری یکسوئی سے اپنے شعبے اور دائرہ کار میں مہارت حاصل کرتا ہے ،تاکہ ٹیم کے ہر کھیلاڑی کی طرح وہ اپنی ذمہ داری بااحسن نبھاکر پوری ٹیم کو سرخرو کرسکے۔

فٹ بال ہو تو تب بھی گول کیپر ،سنٹر فارورڈ کی جگہ نہیں لیتا اور لیفٹ آؤٹ رائٹ آؤٹ کی پوزیشن میں چلا جائے تو سارے میچ میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ کرکٹ کی طرح کے کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جن میں مخصوص اور ناگزیر ضرورتوں کے مطابق کھیلاڑیوں کی ترتیب بدل بھی دی جائے تو بعض اوقات زیادہ فرق نہیں پڑتا مگروہاں بھی ابتدائی اوورز میں فاسٹ باولرز کی ضرورت ہوتی ہے اور اوپنر بلے بازوں کی جگہ پر باولرز کو بیٹنگ پر بھیجنے سے میچ کے ہارنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

مگر کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ کرکٹ میچ میں کبڈی کا ’جھاپی‘ اوپنگ کرنے کیلئے آگیا ہو یا کسی سوئمپرکی جگہ پر ویٹ لفٹر نے پول میں چھلانگ لگادی ہو۔ایسا ہونا ”آؤٹ سائیڈرز“ کی مداخلت قراردیا جاتا ہے۔مگر یہاں ہمارے سامنے دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے،یہ
پاکستان ہے ۔یہاں کوئی اپنے شعبے میں خواہ ناکام ترین کیوں نہ ہو وہ دوسروں کے میدان میں کودنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔

دخل درمعقولات کی عادت‘سماجی ثقافت کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔کسی کے سامنے اپنی یا کسی کی بیماری کا ذکر‘ جو کیا جائے تو پھر یکا یک وہ اپنی پٹاری سے ’دیسی نسخوں‘،ٹوٹکوں اور علاج معالجے کا دفتر نکال کر بیٹھ جائے گا۔پرانے زمانوں کے ہر عہد میں چند ایک دانش ور پوری دنیا کی راہنمائی کیا کرتے تھے ۔ انکے فرمودات کو سمجھنے میں سینکڑوں سال لگ جاتے تھے۔

ا پنے پاکستان میں‘ دانش وری کی علت ‘وبائی بیماری کی طرح ہر سوپھیل چکی ہے۔جتنی آبادی ہے تقریباََاتنے ہی دانشوریہاں پائے جاتے ہیں۔بھانت بھانت کی نظریاتی توجیہات کا جمع بازار گرم ہے۔کارپوریٹ میڈیا کی موجیں ہیں، آخر چوبیس گھنٹے کی نشریات چلانی ہیں خواہ موضوع ”کتے کے انسان کو کاٹنے“کا ہی کیوں نہ ہو۔بے محل کہنا تو خود موجودہ ’سیاسی محشر‘کو بے معنے کردے گا‘ مگر 9سال بغیر کسی روک رکاوٹ کے بندوق کی نوک پر مطلق العنان حکمران رہنے والے پرویز مشرف کی زنبیل سے کیمیائی نسخوں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔

کارگل کے معرکے کا’ انجام ‘ میدان جنگ سے دورکھڑے ’بے خبر بندے‘ کے ذمہ لگاکراپنا دامن صاف کرنے میں مہارت رکھنے والے ریٹائیرڈ جنرل مشرف کا من پھر سے اقتدارکے تخت پر جلوہ افروز ہونے کو مچل رہا ہے۔ یہاں وہ پھر سے الٹی گنگا بہانے کے چکر میں ہیں۔ان کی ’تھیوری‘ کا لب لباب ہے کہ’ فوجی آمریت جمہوریت سے بہتر ہے‘۔مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر خدانخواستہ یہاں پر رائج موجودہ ’اٹھارہ نمبر‘ جمہوریت کی بساط لپیٹ بھی دی گئی تو اس محنت کا پھل وہی کھائیں گے، جو آمریت کی فصل کے لئے غیر موزوں موسم میں کھیتی باڑی کرنے کا خطرہ مول لیں گے۔

جنرل مشرف کے حصے میں وہی تجزیہ نگاری آئے گی ،جو وہ اور انکے ہم عصر سابق ’عسکری ماہرین ‘سرانجام دے رہے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنرل مشرف اور بھانت بھانت کے درجنوں سابق فوجی آفیسرز سیاسی ،نظریاتی، معاشرتی اور تمدنی علوم پر طبع آزمائی کی بجائے دفاعی موضوعات پر تحقیق وتالیف کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے ۔ دخل درمعقولات کی بیماری کا شکار صرف فوجی طالع آزماء اور ناکام عسکری ماہرین ہی نہیں ہیں، بلکہ حالات کی ستم رسیدی نے کوئے کو کوئل کے کام پر معمور کردیا ہے اور بوڑھے باز کو فاختہ کا کردار سونپ دیا ہے۔

غربت کے خاتمے،روزگار کی فراہمی ،نجکاری اورسامراج مخالف نعرے اور مطالبات جو کبھی بائیں بازو کی جماعتیں یاماضی میں ایسا تاثر رکھنے والی پیپلز پارٹی جیسی سیاسی پارٹیوں کے ہواکرتے تھے ، اب رجعتی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسلامی کو کرنے پڑرہے ہیں،انکا نعرہ ’اسلامی انقلاب‘بدل کراب ’عوامی انقلاب‘ہوچکا ہے۔ستر کی دھائی میں کسانوں کی انجمنوں اور مزدوروں کی یونین سازی کو بھائی سے بھائی کو لڑانے کی سازش قراردینے والا انکا نظریہ 180درجے موڑ کاٹ چکا ہے،اب اس قسم کی ’سازشیں‘ انکی سیاسی مجبوری بن چکی ہے۔

امریکہ کو اہل کتاب کہہ کرقبول کرنے کی بجائے اب امریکہ مردہ باد کیوں کر ہوا ؟قیاس آرائیاں بہت ہیں مگر وضاحت کبھی نہیں آئی۔ مبینہ ایمپائیر اور اسکے زیرک ماہرین کے ڈیزائن کرد ہ روڈ میپ‘ جس کی منزل موجودہ نام نہاد جمہوریت کو کھائی یا کھڈے میں گرانا ہے پر اب تنہا تحریک انصاف ہی گامزن نہیں ہے بلکہ اسکے ’سیاسی فائیر‘ کے نشانے پر کھڑی پیپلز پارٹی بھی اپنا سیاسی اور نظریاتی روڈ میپ پچھلی نشستوں پر پھینک دینے کے بعد تحریک انصاف کی ہم رکاب بن چکی ہے۔

روٹی کپڑا اور مکان کیسے دیا جائے گا؟ پارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کے سلوگن اوراسکی مکمل سیاسی معاشیات پر مبنی وضاحت کو ’کوڑے دان ‘ میں پھینک کر، شریک چیئرپرسن اور پارٹی کے ’دانائے کل ‘آصف علی زرداری”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“کو اسکا ذریعہ قرار چکے ہیں۔انکی دانست میں ہر بے روزگاراور غریب کو بھیک لیکر روٹی، کپڑا اور مکان حاصل کرلینا چاہئے۔

دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنی پارٹی کے بنیادی پروگرام اور اسکے انقلابی نظریات کی جگہ پر خیرات،صدقات،امداد اور اسی قسم کے لولے لنگڑے معاشی ٹوٹکوں کو اپنا نصب العین بنالیا ہے۔بالکل ایسے ہی ‘اپنی پارٹی کی علیحدہ فکری اور نظریاتی حیثیت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی بجائے چربہ فلموں کی طرز کی مانگی تانگی سیاسی چالوں پر انحصار کرنا شروع کردیا ہے۔

ستم ظریفی کا سلسلہ دراز ہے ‘ آمریتوں کا ددوھ پی کر جوان ہونے والے اور ہر آمر کی بن نکاحی زوجہ کا کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ کے ایک حاوی دھڑے کی قیادت پر فائز نواز شریف موجودہ خلفشار میں’مقتدر اداروں‘ کی بجائے سول حاکمیت کی جدوجہد کے سرخیل بنے ہوئے ہیں۔ نظریہ ضرورت کے بطن سے جنم لینے والے نوازشریف آئین کی شق چھ کو توڑنے والوں کو سز ا نہ دینے کے شاکی دکھائی دے رہے ہیں۔

یقینا اس وقت خود عجوبے کادرجہ رکھنے والا پاکستان بھی حیران بلکہ پریشان ہوا ہوگا جب سعد رفیق ‘گزرے وقتوں کے فوجی طالع آزماؤں کی قبروں کو’ فاتحہ خوانوں‘ سے محروم اورسناٹوں میں ڈوبے ویرانے قراردے رہے تھے۔
یہ ایک غیر نظریاتی سیاست کا عہد ہے ، نظریات سے عاری سیاست‘ جس میں قربانیوں، گہری وابستگیوں،اخلاص،ایثار کی بجائے ’الیکٹ ایبلز‘ یعنی وننگ ہارس کو ترجیح دی جاتی ہے۔

جہاں پارٹیوں کا دفاع کرنے اور مخالفین پر حملہ آور ہونے کیلئے کارکن ہونے کی بجائے”پیشہ ور“ ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہ پیشہ ورماہرین ‘جمہوریت کی سربلندی کی چیخ وپکار سے آمریت کی حقانیت اور ناگزیری کی تدریس تک کا سفر آنکھ جھپکنے سے پہلے کرسکتے ہیں۔’آؤٹ سائیڈرز‘ کے اس سارے ہنگام میں 22کروڑ لوگ سانس بند کئے چُپ سادھ ہیں۔ان کے نام پر انکے خلاف ان تماشوں پر کہیں تو انکی چُپ ٹوٹے گی۔بس وہی دن حقیقی تبدیلی کا ہوگا جب حقیقی کھیلاڑی میدان میں آئیں گے ۔تب تبدیلی کے جعلی نعروں اور آوازوں،وردی اور بغیر وردی کی حاکمیت،روشن خیالی کی آڑ میں سامراجی غلامی کے تمام پیادوں کو شکست فاش ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :