ننھا مکینک

بدھ 6 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ننھے پر یہ میرا دوسرا مضمون ہے۔ ایک آج سے انیس ،بیس سال پہلے تب لکھا تھا جب ننھے نے اپنے گھر سے پچاس گز دور گول چوک کے شمالی حصے میں موٹرسائیکل مرمت کی دوکان کھولی تھی۔ مضمون لکھنے کی وجہ وہ گفتگو تھی جو ننھے اورمیرے مابین تب ہوئی تھی جب میں اپنے 50ccسوزوکی موٹربائیک کی ٹیوننگ کرانے اسکے پاس آیا تھا۔ یہ موٹرسائیکل میں نے 7000روپے کا لیا تھا اور اتنے ہی پیسے اسکی پہلی مینٹی ننس پر لگ گئے تھے۔

ایک بالکل ہی پیدل انسان کیلئے یہ سب کچھ غنیمت سے بھی بہت آگے کی بات تھی۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ ایکدن میں عارف ٹاؤن کی ایک گلی مڑا تو سامنے چھ سات شریر بچوں نے موٹربائیک کو دیکھتے ہوئے ایک کورس میں چلا ناشروع کردیا”خونی چھکڑا،خونی چھکڑا“۔یہ معصوم سا موٹر بائیک جس کوبچے ازراہ تفنن خونی چھکڑاکہہ رہے تھے‘ میری غربت کی مجبوری تھااور مجھے اس پر اس قسم کے تبصرے سننے کے باوجود کوئی ملال نہیں ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

موٹر سائیکل کے جملہ مکینکل معاملات ننھے کے ہی ذمے تھے۔ وہ مجھ سے ٹیونگ چارجز لینے سے انکاری تھا۔ ننھا موٹرسائیکل کی طرف انگلی اٹھا کر”کہتا یار اس کو دیکھ کر تو جیب سے پیسے دینے کو دل کرتا ہے“، ”توجاساڈی خیر اے“۔کبھی کبھار ننھے کے والد محترم بھی دُکان پر ہوتے اور میں انکے چہرے پر ابھرنے والے ناگوارتاثرات دیکھتا تو گھبراہٹ طاری ہوتی،بہر حال جیب کی حالت اس ناگواریت کو خاطر میں نالاتی اور نا ہی ننھا اپنے ابا کے اشارے کنائے سمجھنے کی کوشش کرتا۔

یوں یہ سلسلہ سالہاسال چلا۔ننھا لطیفوں اور دلچسپ واقعات کی پٹاری کھولتا اور مجھے نفسیاتی دباؤ سے بھی نکالتا اور ساتھ اس نحیف بزرگ نما موٹرسائیکل کی مرمت بھی کرتا جاتا۔
ننھا چٹا ان پڑھ تھا مگر ذہین تھا اور ہر معاملہ پر اسکی اپنی ایک رائے ہوتی تھی جو اسکی سنجیدہ سوچ کا مظہر ہوتی۔ میرے پاس ”جدوجہد “کے شمارے دیکھتا تو مجھ سے سوالات کرتا۔

وہ سوشلزم کے متعلق جاننا چاہتاتھا۔ سوال کے بعد سوال کرتا اور گہری دلچسپی کا اظہار کرتا۔ آخر میں ضرورکہتا بات تو بہت ہی اچھی ہے مگر ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔ 
ایک دن ننھا کہنے لگا ”یار ایک بات سمجھ نہیں آرہی “ ، میں نے پوچھا بتاؤ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ننھا کہنے لگا کہ موٹرسائیکل کا انجن اور باقی میکانیزم بالکل سادہ ہے مگر ایک موٹرسائیکل کی اچھی ٹیونگ پر 40منٹ سے زیادہ وقت لگتا ہے،اگر اس سے کم وقت لگایاجائے توگاہک کو تو نہیں پتا چلتا مگر ضمیر پر بوجھ سارہتا ہے کہ حق ادا نہیں ہوا،میں نے کہا ٹھیک مگر یہ کیوں کہہ رہے ہو، ننھا بولا بات یہ ہے کہ میں کل ڈاکٹر کے پاس گیا ، میری باری سے قبل ڈاکٹر نے دس مریضوں کو دیکھا ۔

میں غور کررہا تھا کہ ڈاکٹر فی مریض 30سے 45سیکنڈ دے رہا تھا،نسخہ لکھنے کے وقت کو شامل کیا جائے تو ایک منٹ سے کچھ زیادہ ٹائم لگ رہا تھا۔ انسان اتنی پیچیدہ مشینری ہے کیا اسکی جانچ پڑتال اتنے کم وقت میں ہوسکتی ہے؟ پھر خود ہی بولا ،ناممکن ہے،اتنی دیر میں تو کچھ بھی پتا نہیں چل سکتا، پھر یہ نسخہ کیسے تجویز کرلیتے ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ وہ فارمولہ نسخہ لکھتے ہیں ۔

ننھادائمی طور پر حیرانگی کے عالم میں رہتا تھا اور عام طورپر بات کرتے اسکا منہ تعجب سے کھلا رہتا تھا۔ اب بھی وہی کیفیت تھی ،وہ میری طرف اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ عام ڈاکٹر ایسا ہی کرتے ہیں چار پانچ ادویات کا مکس فارمولہ دیتے ہیں جن میں سے کچھ نا کچھ تو کارگر ہوہی جاتا ہے۔
ننھے کاتعجب اسکے چہرے کے خدوخال پر گہرا ہوتا جارہا تھا۔

کیا یہ زیادتی نہیں ہے ؟ننھے نے سوال داغا۔ بالکل زیادتی ہے، جب تک مکمل تشخیص نا ہو ،دوائی تجویز کرناصرف الہامی بنیادوں پر ہی ممکن ہے ، میں نے جواب دیا۔ پھر یہ(ڈاکٹرز) کیوں ایسے کرتے ہیں؟ننھے کا منہ ابھی تک کھلا تھا۔ بس یار ایک تو صحت کا نظام ہی ایسا ہے جس میں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے ،نجی صحت کے نظام میں جانچ پڑتال مہنگی اور ہر مریض اسکو ایفورڈ نہیں کرسکتا اس لئے یوں ہی نسخے لکھے جاتے ہیں ، میں ننھے کو مطمین کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ مطمین نہیں ہوا اور کافی دیر تک غم زدہ حالت میں ڈاکٹروں کو کوستا رہا۔

اسکی تمام باتوں میں فوک وزڈم ہوتا تھا، وہ بولتا رہا اور میں سنتا رہا، پھر میں نے وہ کالم لکھا جو ہمارے مشترکہ حلقوں میں کافی سراہا گیا۔ ننھا بچپن سے ہی غیر معمولی تھا۔ محنت کش گھرانوں کے بچوں کی طرح اسکو بھی اپنا بچپن قربان کرنا پڑا، مکینک بنا اور پھر تبھی سے روزی روٹی کی تگ ودومیں مصروف ہوگا۔ ننھا ہاکی کاشیدائی تھا،شائد اسکی وجہ اسکے آبائی شہر گوجرہ کے کھلاڑی تھے جو ہاکی کی قومی ٹیم میں شامل ہواکرتے تھے۔

صادق آباد میں ملکی سطح کے معروف سونا کپ ہاکی ٹورنا منٹ میں بھی اسکی فیورٹ ٹیم گوجرہ ہی کی ہوا کرتی تھی، وہ گوجرہ کے ہاکی کھیلاڑیوں کی ’کیری‘ اور بال نکالنے کے ہنر کا شیدائی تھا۔
ننھالکیر کافقیر نہیں تھا بلکہ نت نئی راہیں نکال کر اپنے کام کو بہتر بناتااور اچھا روزگار کماتا۔ جن دنوں کیڑے مارادویات کو سپرے کرنے کیلئے مشینیں آئیں تو انکی کوالٹی کی وجہ سے مینٹی ننس کا کام نکلتا مگر کاریگرناہونے کی وجہ سے ہزاروں روپے کی مشینیں ناکارہ ہوجاتیں۔

ننھے نے اس میدان میں خیمے گاڑے اور سپرے مشینیں ٹھیک کرنے لگا گیا ، کام اتنا چلا کہ اسکو اپنا اصل کام یعنی موٹرسائیکل مکینکی کچھ وقت کیلئے خیر باد کہنا پڑی۔ انہی دنوں ہماری کام کی جگہیں قریب قریب تھیں۔ گرمیوں کی طویل اور بے زار دوپہریں گزرنے کا نام نا لیتیں۔ میں نے اور شیخ مبشر نے‘ اس طویل اور بورنگ دوپہروں میں شترنج کی بازی لگانی شروع کردی۔

ننھا دلچسپی سے دیکھا کرتا۔ پھر یہ بھی اس کھیل میں شریک ہوگیا اور جلد ہی ہمیں ٹف ٹائم دینے لگا۔
جب لوڈ شیڈنگ کی طوالت نے لوگوں کو ہلکان کرنا شروع کیا تو لوگوں نے جنریٹر لینا شروع کردیئے، پاکستان میں” کوالٹی کنٹرول“نام کی کوئی چیز نا ہونے کی وجہ سے اسکی ری پیئرنگ بھی مسئلہ بن گئی۔ ننھے نے موٹر سائیکلوں کا کام پھر چھوڑ کر جنریٹر ٹھیک کرنا شروع کردیئے ۔

کام اتنا چلا کہ اسکی دُکان کے اندر باہر جنریٹرز اور گاہکوں کا اژدھام ہوتا۔مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسکے پاس گئے تو اس نے کام کا بہانہ بنا کر محفل جمانے کا عذر کیا ہو۔ وہ ہمیشہ چائے بسکٹ، گولڈ لیف اور تازہ ترین لطائف سے تواضع کرتا۔
ایک دفعہ مجھے بنک گارنٹی کی ضرورت پیش آئی تو میری خاطر بنک میں کھاتہ کھلوایا۔ بنک میں جاوید منا تو ہمارا مشترکہ دوست تھا ہی مگر ننھے کی رنگا رنگ شخصیت دل موہ لینے کا فن جانتی تھی،سارا بنک ہی ننھے کا گرویدہ ہوگیا۔

ننھا اکثر بنک میں آتا اور مدبھیڑ ہوتی، استفسار پر کہتا بھائی بنک میں کھاتہ ہے ،اپنی رقم کی حفاظت سے لاتعلق کیسے رہ سکتا ہوں ! ہمیشہ خود بھی اپنی گفتگوسے محظوظ ہوتا،ہنستا،قہقہے لگاتا ۔ کئی سالوں سے بیماریوں نے ننھے کو گرفت میں لیا ہوا تھا، شوگر جیسی موذی مرض اسکی لاپراوہی سے فائدہ اٹھا رہی تھی۔میں نے ہر ملاقات میں سوچا کہ ننھے پر پھر سے لکھوں۔۔۔مگر یہ نہیں پتا تھا کہ مجھے اسکے بچھڑجانے کے بعد ہی اس پر لکھنے کا موقع ملے گا۔ ننھے جیسی سدا بہار،خوش طبع اور مرنجان مرنج شخصیت کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ۔ ننھے کے بچھڑنے سے رُت ہی بدل گئی ہے، مجھے آج سب کچھ ویران دکھائی دے رہا ہے اور میں کیا ‘سارا شہر ہی سوگوار ہے۔الوداع ننھا جی الوداع

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :