چاچا جی …

جمعرات 14 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ہم اکثر ملتے رہتے ہیں۔ ہمار ا اتفاق رائے کم کم ہی ہوتا ہے۔ مگرپھر بھی ہمیں آپس میں ملنے پر قباحت نہیں ہوتی۔ مجھے ان کے نظریات اور اعتقادات سے شدید اختلاف ہی نہیں‘ بلکہ انکے انداز زندگی ،مصلحت کوشی اور (انکے نذدیک تشکیل کردار کا کام دینے والے) اصولوں اور طریقوں پر بھی اعتراض ہے۔ ہمارے تعلقات کی وجہ ارادی نہیں تھی،وہ میرے والد مرحوم کے دوست تھے،اسی بنا پر مجھ پر توجہ دیا کرتے تھے۔

یہ ملنا ملانا برسوں پرمحیط ہے مگر ا ب ہم میں گہرا تعلق پیدا ہوچکا ہے۔ہمارا تعلق دوستی میں بدل چکا ہے۔اگر چہ کھبی کبھی مجھے اس دوستی میں ”معاندانہ “جذبوں کی بو محسوس ہوتی۔مگراس سے اب کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بعض لوگ محبت کرتے ہوئے بھی ”برتری“کے ناگوار جذبوں کو ساتھ لئے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہمیشہ ہر رشتے ،ناطے اور تعلق کو فتح کرنے کی خواہش میں مغلوب رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ذاتی ملکیت کے معاشرے میں ایسا ہونا زیادہ عجب نہیں ہے۔ ساس اور بہوایک دوسرے کو اس لئے قبول نہیں کرتیں کہ انکی ”ملکیت“ میں حصہ داری کا ’معاملہ‘ آجاتا ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں لوگ علم،حکمت ،واقفیت ،دانائی اور رتبوں کی ذاتی ملکیت پر پہرہ دیتے پائے جاتے ہیں ۔کوئی عالم پسند نہیں کرتا کہ اسکا کوئی مدمقابل پیدا ہو،نا ہی کوئی خطیب کسی اور کو خود سے بڑا مقرر ماننے کیلئے آمادہ ہوتا ہے۔

یہ تنگ نظری ‘دانش وروں میں زیادہ ہوتی ہے۔انکی دانش وری انہیں گہری اور یخ بستہ تنہائی سے ہم کنار کردیتی ہے۔ وہ کسی اور کی بات سننا یا ماننا اپنی انا کا قتل سمجھتے ہیں۔ اس لئے اپنے خول میں بند ہوتے ہوتے بالآخر اپنے کنویں کے مینڈک بن جاتے ہیں اور پھر مرتے دم تک وہیں ”ٹراتے“ رہتے ہیں۔ یہ ذاتی ملکیت کا سب سے خوفناک انجام ہوتا ہے۔ مگر یہ المناک تنہائی صرف اپنی تعمیر وترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتی بلکہ اپنی اولاد ،دوستوں رشتہ داروں حتہٰ کہ جیون ساتھی جیسے قریبی رشتے سے بھی دورکردیتی ہے۔

آج پھر ہم ”چچا بھتیجا“کی مدبھیٹرتھی۔میں اپنا لکھا ہوا ایک نیا مضمون سننانے کیلئے گیا تھا۔چچا بار بار مداخلت کررہے تھے۔اضافے اور تصحیح کیلئے اتنے بے چین تھے کہ بات ہی نہیں کرنے دیتے تھے۔ میں نے جیسے تیسے مضمون مکمل کیا اور چچا نے تبصرہ شروع کردیا۔چچا آج پھر حسب عادت کھُل کر بول رہے تھے۔ میرا گمان ہے ،ایسی گفت گووہ صرف میرے سامنے ہی کیا کرتے تھے۔

وہ دل کا غبار نکال رہے تھے،وہ انگشافات کررہے تھے۔ طلسم کدہ تھا جومیرے سامنے کھُل رہا تھا۔ 62سالہ چچا اندر کے 14سالہ جواں جذبوں کا تعارف کرارہے تھے۔وہ مجھے بتارہے تھے کہ انسان کا اندر کیا ہوتا ہے۔خواہشیں کیا کیا ہوتی ہیں۔ سوچ کی دھاروں کی سمتیں کتنے جھرنوں کو رعنائیاں بخشتی ہیں۔ کیسے کیسے ُسوتے پھوٹتے ہیں۔ کیسے کیسے خیال جنم لیتے ہیں۔

وہ مجھے زندگی کو ”زمان ومکاں“کی بندشوں سے نکال کردکھانے پر مُصرتھے۔وہ ان تصورات کی عکاسی کررہے تھے جو عمر بڑھنے یا ڈھلنے کے جبر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتے ۔ وہ ان مجبوریوں کو آشکار کررہے تھے جو محض عمر کے بڑھنے سے پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں ۔وہ کہہ رہے تھے کہ عزیز ترین رشتے بھی کیسے پار‘ نا ہوسکنے والے آہنی دائروں میں پناہ لے کر دوری اختیا رکرلیتے ہیں۔

وہ بہت تفصیل اور گہرائی سے سمجھا رہے تھے کہ کیسے ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کی ساری حسیات سب کیلئے پوری کی پوری موثر نہیں رہتیں،جذبے مانند ہی نہیں ہوتے برعکس سمتوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ وہ وقت کے گھاؤ کھانے والے بعض رشتوں کوگونگا بہرہ قرار دے رہے تھے۔ میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں ان سے سیکھ رہا تھا۔ساتھ ہی ساتھ میں یہ سمجھنے کی کوشش کررہاتھا کہ ”آزادی“ کی طلب کتنا سچا اور حقیقی جذبہ ہے۔

یہ’ آکسیجن‘ کی طرح انسان کی ضرورت ہے۔مگربسا اوقات انسان خود اپنی اس ضرورت کے راستے میں کس کس طرح کی رکاوٹیں ڈالتا ہے۔جب انسان اپنے اردگرد کے لوگوں سے بڑا ہونے کیلئے انکے اوپر اپنا پورا وزن ڈال کر کھڑا ہوجائے تو پھر قد تھوڑا سا بڑا تو ضرور ہوجاتا ہے۔ مگر نیچے دبنے والا اس اونچے قد کی‘چاہتے بھی‘ تعظیم نہیں کرپاتا ۔ جب انسان اردگرد کے لوگوں کی عقل کو ناقص گردان کر‘ ان سے قطع تعلق کرلے تو پھر وہ لوگ بھی اس داناشخص کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔

اسکی بات سمجھنا ضروی نہیں سمجھتے ۔ اسکی بے توجہی کے جواب میں اس دانش ور اور عالم شخص سے بے گانہ ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنی کچھ آزادیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے زنجیریں پہنابیٹھتا اور پھر ان زنجیروں سے ماتم کرتے کرتے خود کو لہو لہان کرلیتا ہے۔ اس چھوٹی سی زندگی کیلئے مراعات کی خواہش صرف اپنی ذات کیلئے کرنے کی صورت میں ‘انسان ان تمام لوگوں کی محبتیں کھوبیٹھتا ہے جو اسی قسم کی مراعات کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ضرورت مند بھی۔ انسانوں سے ڈرنے کی بجائے انکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔مگر انسانوں کو سمجھنے کیلئے ،بلندی سے اتر کر ان جیسا ہوکر ،ان سے محبت کرکے ،انکی ضرورتوں کو سمجھ کر،انکو اپنا بنانے کیلئے انکا بننا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :