بجٹ 2020-21ء مزدوروں کے مطالبات

جمعہ 29 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

 عالمی وبائے ناگہانی ’کرونا‘کی ہلاکت خیزیوں نے جہاں بربادیاں پھیلائی ہیں وہاں ہی اس وباء نے عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام اور اسکے سامراجی شکل کے حقیقی ناقص اور مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ 1992ء کے بعد ”جس نظام کو ’ایک جیسی دنیا‘،سلامتی والے سماج اوردنیا بھر کے انسانوں کیلئے صحت مندی اور خوشحالی کی علامت قراردیاجارہا تھا۔موجودہ عالمی وباء نے اسکے چہرے باقی ماندہ نقاب بھی اتاردیئے ہیں۔

کروناء کی وباء جس کوبالکل آغازمیں شعوری یا لاشعورطور پرامیر اور غریب کے فرق کے بغیر ایک ہلاکت خیز مصیبت قراردیاجارہاتھا ، اپنے آغاز سے ہی اس وباء نے ثابت کیا ہے کہ یہ صرف غریبوں کیلئے موت کا ہی پیغام نہیں بلکہ مصیبتوں کے پہاڑ توڑنے والی بلاء ثابت ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

جب کے اس وباء نے کروڑ پتیوں کو ارب پتی اور ارب پتیوں کو کھرب پتی بنا دیا ہے۔


حقیقی طور پر تو 1945سے شروع ہونے والے سرمایہ داری کے بے نظیر ابھار اورعروج کے زوال کا آغاز 1974ء سے ہی ہوگیا تھا ، اسکے بعد اس میں عارضی ابھارآتے رہے مگر2008ء سے عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام روبہ زوال اور 1930کے گریٹ ڈیپریشن طرز کی گراؤٹ کا شکار تھی۔کرونا سے قبل بھی دنیا بھر کی معیشتیں اپنے عروج کی شرح پیدائش سے بہت نیچے تھیں۔

اس کی مثال سرمایہ داری کے موجودہ چمپئین ملک چین کی ہے جو 12فیصد شرح ترقی سے گرکر 6فیصد کے قرب وجوار میں ہی دکھائی دیتا ہے۔اسطرح پاکستانی معیشت کی شرح نمو جس کو تین فیصد سے زیادہ بتایا جارہاتھا حقیقی طور پر 1.5فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔یوں کرونا سے قبل بھی یہ دنیا کوئی جنت نہیں تھی۔بے روزگاری، غربت، مہنگائی ،کرنسیوں کی بدتر حالت ،لاعلاجی اور آبادی کا بڑا حصہ تعلیم حاصل کرنے کے مالی استطاعت سے دورہی تھا۔

اس پس منظر میں کرونا کی آفت کا نزول ہوا۔ جس نے سب سے پہلے سرمایہ د اری نظام کے ماتحت چلنے والی سلطنتوں کے علاج معالجے کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ہم غریب ممالک رونا روتے آرہے تھے مگر کرونا نے واضع کیا کہ امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی علاج معالجہ حق نہیں ہے بلکہ مراعات یافتہ طبقے کی قوت خرید کے مطابق منڈی کی قوتوں کی ایک پراڈکٹ ہے۔

یعنی جس کے پاس پیسے ہیں وہ علاج کرائے باقی بھاڑمیں جائیں۔ قیاس آرائیوں کے برعکس کرونا کا ظہور ہی منڈی کی معیشت کی منع زوری کے سبب ہوا، یعنی ووہان کی اس منڈی سے جہاں جنگلی درندوں اور جانوروں کاوہ گوشت بکتا تھا جس کو ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔یہ مارکیٹ اور یہاں پر کیا جانے والا ”دھندا“ سرکاری طور پر ممنوع قراردینے کے باجود پھر”پراسرار“ طورپر شروع ہوگیا کیونکہ غیر روائتی گوشت کی مانگ کروڑ پتیوں کو اپنی جنسی صلاحیت بڑھانے کیلئے موجود تھی۔

سرمایہ داری میں‘ منڈی میں سب کچھ بکتا ہے ، چاہے اس سے پوری نسل انسان خطرے میں پڑجائے۔
 ایک طرف تمام ریاستوں نے اس وباء کے شروع ہونے پر” ریلیف پیکج “دینا شروع کئے جو بہت بڑی رقوم پر مبنی تھے،ان پیکجز کو عوام کیلئے ریلیف فنڈ قراردیا گیا۔ مگر ان ریلیف پیکجز کے خزانے کا رخ سرمایہ داروں،کارخانے داروں اور بڑی بڑی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کی طرف تھا،عام لوگوں کوسرمایہ داروں کے لبالب گلاسوں سے ”چھلکنے والے قطروں“ کا مستحق قراردیا گیا۔

 
پاکستان میں بھی یہ رقم 1200ارب روپے کے خطیر حجم پر مبنی رکھی گئی ۔ مگر اس میں سے ایک روپیہ بھی مزدوروں،کسانوں اور غریبوں کیلئے نہیں رکھا گیا۔ ہاں صرف وہی رقم جو پہلے ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ میں رکھی جاتی تھی ،اسی کی تین قسطوں کو جمع کرکے 12000 روپے انہی” مستحقین“میں چند لوگ اور شامل کرکے دیے کر خوب مشہوری کی گئی اور ابھی تک کی جارہی ہے ۔

وہ دیہاڑی دار مزدورجن کی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے،اورجوفیکٹریوں، اداروں، کاروباری مالز،دُکانوں، تعلیمی اداروں، ٹرانسپورٹ،ورکشاپس ،ریڑھی اور چھابڑی والوں ،گھریلو ملازمین ، گھریلو سطح کی صنعتوں کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے بڑے کاروبار سے منسلک تھے، ان کو کسی نے پچھلے تین ماہ میں پوچھا تک نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، ان کی روٹی کا بندوبست کے وسائل کہاں سے میسر ہورہے ہیں۔

کورونا وبا جس کو ہمارے ملک میں شروع دن سے ہی ناقص منصوبہ بندی سے ڈیل کیا گیا اسکا سارا نزلہ محنت کش طبقے پر پڑا ہے۔ آمدنی کے ذرائع بند ہونے کے بعد سب سے بڑی آفت اشیا صرف کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ جس کی وجہ سے کورونا کی ہلاکت خیزی نے بہت سے خاندانوں کو بالکل برباد کردیا حتکہ ملک کے کچھ حصوں میں بھوک کی وجہ سے خود کشیوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

جومحنت کش فیکٹروں میں مسدود رہ کرکام کررہے تھے ، ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، ان کے بچے پچھلے ڈھائی ماہ سے فیکٹری کالونیوں میں قید ہونے کی وجہ سے اپنی نوکریوں /روزگارسے محروم ہوچکے ہیں۔اس معاشی قتل کی تلافی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان فیکٹریوں میں انتظامیہ کا جبر پہلے کی نسبت کئی گنا بڑہ چکا۔
بجٹ 2020-21ء کی تیاری ہورہی ہے جس کو جون میں پیش کیا جائے گا۔

اس موقع پر پاکستان کا محنت کش طبقہ جس سے کرونا کے دوران جانی اور مالی قربانیاں لی گئی ہیں، سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔پاکستان کابجٹ بھی عجیب ہوتا ہے جس کی تیاری عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کو پیش نظر رکھ کرکی جاتی ہے یا پھر سرمایہ داروں کے مسائل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں کو بجٹ سازی کے مراحل میں بالکل فراموش کردیا جاتا ہے۔

پاکستاں کی تاریخ میں ایک بھی بجٹ ایسا نہیں بنا جس کے بنانے میں محنت کشوں کے نمائندگان کو شامل کیا گیا ہو۔ہم یہاں پر وہ فوری مطالبات پیش کررہے ہیں جن کا بجٹ 2020-21ء میں شامل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
مطالبات اور پروگرام
# آئی ایم ایف کی ترتیب کردہ معاشی پالیسیوں اور بجٹ میں ہونے والی کٹوتیوں کا خاتمہ کیا جائے اور بنیادی ضروریات زندگی کی مناسب داموں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

# عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے تمام تر قرضہ جات کا عوامی آڈٹ کروایا جائے اور کئی دفعہ ادا شدہ قرضوں کی ضبطگی کے لئے قانون سازی کی جائے۔
#ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 1200ارب روپے کے کورونا پیکج میں سے وبائی دور(کے دورانئے ) کے لحاظ سے مزدوروں کی اجرت اور نقصان کی رقم وضع کرکے مزدوروں میں تقسیم کی جائے۔
#نجکاری پالیسی کی فوری منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے نجکاری عمل کو فوری طور پر روکتے ہوئے ، عوامی اداروں کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

#نجی اورسرکاری ملازمین کی موجودہ کم ازکم تنخواہ غیر حقیقی ہے ، اسکو مزدوروں کی مانگ ”ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر“ کرنے کیلئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے۔موجودہ بجٹ میں فوری طور پر موجودہ تنخواہ کو ڈبل کیا جائے۔
# تمام سرکاری اور نجی شعبے کے محنت کشوں اور طلبا کو یونین سازی کا حق دیا جائے نیز یونین سازی پرعائد تمام قدعنوں کوختم کیا جائے۔

#ملک بھر میں بیروزگاروں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جائے اور کم از کم 20,000روپے بیروزگاری الاؤنس دیا جائے۔
#علاج و معالجہ، تعلیم، رہائش کی سہولیات کی بلا تفریق مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے جس کے صحت کے شعبے کے لئے کل بجٹ کا 7 فیصد، تعلیم کے لئے 5 فیصد اور سماجی گھرانوں کے قومی منصوبے کو بغیر قرضہ جات کے عمل میں لایا جائے۔

# ملک میں بسنے والے ہر فرد کے لئے یونیورسل سوشل سیکیورٹی، اولڈ ایج بینیفٹس، صنفی انصاف اور ہیلتھ کیئر کا نظام لایا جائے۔
# میڈیا پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے ساتھ صحافیوں کی جبری برطرفیوں کا خاتمہ اور باہمی مشاورت سے ویج ایوارڈ کو فی الفور نافذ عمل لایا جائے۔
#فیکٹریوں ،اداروں میں موجود ورکرز کو رسک الاؤنس دیا جائے۔

#کورونا ائرس یااس قسم کی قدرتی آفت میں مزدوروں کے روزگار اور ان کی اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے نیز برطرف کئے مزدوروں کو تنخواہ کے ساتھ بحال کیا جائے۔
# طبی عملے کو عالمی معیار کے مطابق حفاظتی سامان مہیاکیا جائے نیز صحت کے شعبے میں رسک الاؤنس تنخواہ کے برابر دیا جائے۔
#ٹڈی دل سے متاثرہ علاقوں کا سروے کرکے کاشتکاروں کو بیج اور پانی کا معاوضہ اور مزارعوں کو انکی ’بٹائی‘ کی رقم ادا کی جائے۔

#کسانوں کو دیے گئے تمام تر سودی قرضے معاف کئے جائیں نیزفصل کا پورا معاوضہ اداکیا جائے۔ گزارش ہے کہ تمام محنت کشوں،مزدوروں،کسانوں اور مزارعوں کوان مطالبات کو تمام ذرائع استعمال میں لاکرہر سطح پر پھیلانا چاہئے تاکہ اسکو پورے پاکستان کے مزدوروں،کسانوں کا مطالبہ بنا دیاجائے ۔اس طرح اسکی گونج سے بجٹ بنانے والے ”ماہرین“ کے کانوں میں بھی مزدوروں کے مطالبات پہنچ سکیں تاکہ دانستا نظرانداز کئے گئے محنت کش طبقے کی آواز انکے وجود کا احساس دلا کر سنگ دل حکمرانوں کی عیاری کو بے نقاب کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :