سفارش، رشوت اور میرا پیارا پاکستان

منگل 1 ستمبر 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک امریکی جاسوس جرمن فوج میں شامل ہوگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ایک صحافی نے اس سے پوچھا کہ آپ نے جرمن فوج کا اتنا بڑا نقصان کیسے کیا۔ اس جاسوس نے کہا کہ مجھے جرمنی کی فوج میں ہیومن ریسور س کے ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیا گیا. میں صرف اتنا کرتا کہ قابل لوگوں کو سپاہی اور نااہل لوگوں کو افسر بھرتی کرتا۔

یہ جواب سن کر صحافی حیران و پریشان ہوگیا۔
میں اس واقعے کو اپنے سامنے رکھ کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ سفارش، رشوت، نا اہل لوگوں کو قابل جگہ پر بٹھانا میرے پیارے ملک پاکستان میں عام ہے۔ رشوت کی بنا پر میرٹ کی دھجیاں اڑانا اور سفارش کے ذریعے دوسرے کا حق مارنا بہت آسان ہے۔ جب اس طرح کے لوگ اپنا کام کرتے ہیں تو ان سے غفلت ضرور ہوتی ہے کیونکہ جو شخص رشوت اور سفارش کے ذریعے آیا ہو وہ کبھی بھی اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کرتا۔

(جاری ہے)


مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان ہو کر بھی دوسرے کے ساتھ ناانصافی سے گریز نہیں کرتے۔ جس ملک میں سفارش اور رشوت عام ہوجائے اس ملک کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دنیا میں رشوت کا کینسر بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے، کئی ایسے ملک بھی ہیں جنہوں نے اس کے خلاف قانون سازی بھی کی مگر کیا کریں ان اشرف المخلوقات کا جو خدا کے قانون سے نہیں ڈرتے تو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون سے کہا ڈریں گے۔

اسلام میں بھی رشوت کوحرام قرار دیا گیا ہے۔
رشوت اور سفارش کے معاملات میں پاکستان کے حالات ناقابل بیان ہیں۔ چھوٹے افسروں سے لے کر بڑے افسران تک سب ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں میں رشوت خوروں کی کمی نہیں چاہے وہ پولیس کا محکمہ ہو یا صحت کا لیکن سب سے بڑا طبقہ جو سفارش کرنے اور رشوت لینے کے مزے لے رہا ہے، وہ کلرک ہیں جن میں دو کتوں والی ک آتی ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جو کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں بھیڑیے کی طرح بیٹھ کر اپنا شکار تلاش کرتے ہیں۔ یہ شر پسند لوگ دوسروں کی مجبوری سے کھیلتے ہیں اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب رشوت خور ہیں مگر مجھے یہ کہنے میں آر نہیں کہ زیادہ تر لوگ رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری دفتروں سے لے کر بڑے ایوانوں تک سب ہی مستفید ہوتے ہیں۔


یہ بات بھی درست ہے کہ جو شخص رشوت دے کر سرکاری کرسی پر بیٹھے وہ یقینی طور پر اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے چاہے وہ سفارش کرنے کے بہانے رشوت لے یا کوئی اور کام کرے۔ ان افسران کو خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس کام کو روکنے کے لیے مکمل قانون سازی کریں تاکہ جو کوئی رشوت لے اور سفارش کروائے اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

خیر ہمارے حکمران بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ان سے کیا امید رکھیں۔ رشوت لینا اور سفارش کرنا ایک انسان کو زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت ہے اور انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اخلاقیات سے نہ گرے۔ حسن نثار کیا خوب کہتے ہیں کہ اس ملک میں معاشیات کی نہیں اخلاقیات کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :