
وزیراعظم پاکستان کو درپیش چیلنجز
جمعہ 23 اکتوبر 2020

راجہ فرقان احمد
سب سے پہلی بات برامد کی کرتا ہوں. دو دہائیاں قبل پاکستان کی برآمدات خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے کئی گناہ زیادہ تھی لیکن بدقسمتی سے بدلتے حالات و واقعات کے ساتھ ہر گزرتے سال کیساتھ پاکستانی اشیا کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی۔
(جاری ہے)
بدقسمتی سے پاکستان برآمدی شعبے میں مسابقت کی صلاحیت کھو رہا ہے. عالم مارکیٹ میں بھی پاکستان کا برا حال ہے. عالمی برآمدات میں پاکستان کا مارکیٹ شیئر بھی کم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں مصنوعات اور مارکیٹ کے لحاظ سے تنوع نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کے عالمی مارکیٹ میں تجارتی روابط غیرمستحکم ہونا بھی برآمدات میں کمی کی اہم وجہ ہے. پاکستانی برآمدات میں دیگر ممالک کی نسبت ہائی ٹیک مصنوعات کا شیئر نہ ہونے کے برابر ہے۔ صنعتوں کو ملنے والی مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں ہونے والا اضافہ بھی برآمدات میں کمی کا باعث ہے۔ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کہ ملک کی معاشی صورتحال کیلئے نقصان دہ ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے آئندہ سال کے لیے گندم کی امدادی قیمت 1365روپے فی من مقرر کی ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 65 روپے زیادہ ہے. اس مقصد کے حصول کے لئے سرکاری شعبے کو 82لاکھ 50ہزار ٹن خریدنے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر آئندہ سال کے دوران پانچ لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کی جا سکے گی۔ اگر آئندہ برس کے دوران ملک میں گندم کی طلب و رسد کا توازن برقرار رہتا ہے تو یقیناً اسے درآمد کرنے کی نوبت نہیں آئے گی لیکن گزشتہ برس کے تناظر میں جو تشویشناک صورتحال حالیہ دنوں میں اس وقت پیدا ہوئی کہ جب نئی فصل کی قیمتوں کے تعین کا وقت آیا، منافع خوروں اور سماج دشمن عناصر نے اس کا مصنوعی بحران پیدا کیا جبکہ اس کی اسمگلنگ بھی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی. کچھ فلور مل مالکان کی جانب سے بھی بہتی گنگا پر ہاتھ دھوئے گئے اور منافع کمایا گیا. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور ایجنسیوں سے رپورٹ بھی طلب کی. آئندہ دو ماہ میں نئی فصل آنے والی ہے، ضروری ہو گا کہ فوڈ سیکورٹی کو فول پروف بنانے کی خاطر گندم کی خریداری کے مقررہ ہدف پر کڑی نظر رکھی جائے۔
اب ذرا ایف بی آر کی بات کرتے ہیں. پاکستان میں تمام حکومتیں آئیں ان کا یہی دعویٰ ہوتا ہے کہ ایف بی آر میں نئے ریفارمز لائے گئے. وزیراعظم عمران خان بارہا قوم سے وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ ٹیکس چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، ماضی کے برعکس متذکرہ حالیہ مہم ضرور کامیاب ہو گی تاہم یہ کوشش متعلقہ حکام کیلئے بہت بڑا چیلنج اور کڑا امتحان ہے کیونکہ بااثر افراد نے کبھی یہ کام چلنے نہیں دیے۔ یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ ملک کی 22کروڑ کی آبادی میں سے محض 20لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31لاکھ میں سے 90فیصد افراد ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایف بی آر کے اپنے اندر پائی جانے والی بدعنوانی ہے جہاں روزانہ بیسیوں اہلکار لوگوں کو ورغلا کر انہیں ٹیکس ادا کرنے سے روکتے ہیں اور یہی پیسہ ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔ یہ صورتحال ایک متوازی اور غیر قانونی نظام کو چلانے کا باعث بن رہی ہے جس کی نظیر دنیا بھر میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ معیشت کو سنبھالا دینے اور ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے، غیر ملکی قرضے اتارنے کا دارو مدار ایف بی آر پر ہے سو اگر حکومت ایف بی آر میں نئے ریفارمز لے آئے تو یہ اس حکومت کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی.
ہمیں اس حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کریں.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
راجہ فرقان احمد کے کالمز
-
ففتھ جنریشن وار اور ہمارا کردار
بدھ 22 ستمبر 2021
-
خواتین پر تشدد کے واقعات
پیر 20 ستمبر 2021
-
ففتھ جنریشن وار
منگل 22 جون 2021
-
احتساب یا انتقام
جمعرات 28 جنوری 2021
-
مشرق وسطی اور بگڑتے ہوئے حالات
پیر 4 جنوری 2021
-
تاریخ سے سبق کب سیکھیں گے
ہفتہ 12 دسمبر 2020
-
ہم نہیں بدلے گئے
جمعرات 19 نومبر 2020
-
حق حقدار تک۔۔۔
منگل 10 نومبر 2020
راجہ فرقان احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.