سیاست میں سوداگر

منگل 21 اپریل 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

پاکستان میں سیاستدانوں کے فکری رویوں اور کردار پر بحث ایک گنجلک مسئلہ ہے۔ سیاست میں کرپشن کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اگر چہ آج کی سرمایہ دارانہ یا گلوبلائزیشن پر مبنی سیاست میں کرپشن اور بد عنوانی کا معاملہ دنیا کی سیاست میں بالادست ہے لیکن دنیا کی جمہوری سیاست قانون کی حکمرانی کے دائرہ کار میں رہ کر کرپشن کی سیاست کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

مگر ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ یہاں کرپشن کا عنصر تو بہت نمایاں ہے لیکن اس کرپشن کو روکنے اور احتساب پر مبنی نظام کو مٴوثر اور شفاف بنانے کے لئے ہمارے ادارے بے بسی کا شکار ہیں۔ ہماری سیاسی قیادتیں حکومت میں آ کر اپنے سیاسی مخالفین پر اور حذبِ اختلاف کے لوگ حکمران طبقات پر کرپشن اور بد عنوانی کے بڑے بڑے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سب نے اقتدار میں آ کر لوٹ مار کرنے والوں کے احتساب کا نعرہ لگایا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب نے ایک دوسرے کی کرپشن اور بد عنوانی پر سیاسی سمجھوتے کر کے قومی سیاست و معیشت کو بہت نقصان پہنچایا۔

خاص طور پر اقرباء پروری اور اپنی جماعت کے مافیاز کو کھلی چھٹی دئے رکھی کہ جہاں سے انہیں موقع ملے وہاں سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف قومی مفادات کو نقصان پہنچائیں بلکہ غریبوں کا استحصال کر کے انہیں مزید مشکلات میں مبتلا کر دیں۔ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر سے خود احتسابی کے نظام کے تحت ایسے افراد کے خلاف کبھی کوئی کاروائی کی ہو۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ سیاسی و جمہوری حکومتوں نے عملاً کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمہ میں کچھ نہیں کیا۔ سیاست میں ہوتے ہوئے انہی کو کیوں بینکوں سے قرضے ملتے ہیں؟ انہی کو کیوں شوگر ملوں اور دوسرے بڑے کاروباروں کے لئے پرمٹ ملتے ہیں؟ انہی کی ملیں اور فیکٹریاں کیوں بڑھتی رہتی ہیں؟ انہی کے قرضے کیوں معاف ہوتے ہیں؟ ان قرضے معاف کروانے والوں میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی قیادت یا ان کے رفقائے کار ہی کیوں ہوتے ہیں؟ بینکوں سے لئے جانے والے قرضے اگر ناگزیر وجوہات کی بناء پر واپس نہ کئے جا سکیں تو دنیا بھر میں اس پر معافی کے قانون موجود ہیں۔

اگر کوئی بزنس مین کاروبار میں نقصان کی وجہ سے خود کو دیوالیہ ثابت کر دے تو کوئی قانون چارہ جوئی نہیں کر سکتا، لیکن یہ صورت تب ہوتی ہے جب وہ بالکل کاروباری طور پر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اوران کے پاس کچھ نہیں بچتا ہے۔ مگر پاکستان میں یہ صورتحال زرہ مختلف ہے یہاں قرضہ معاف کروانے والے در در کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر لیتے ہیں۔

نہ ان کی جائیدادیں نیلام ہوتی ہیں اور نہ ان کو معاشرتی اور قانونی کاروائی کا کوئی خدشہ ہوتا ہے۔ وہ مزے سے لوٹتے اور اسمبلیوں میں لوٹ آتے ہیں۔ ان کا کاروبار تو جوں کا توں ترقی کر رہا ہوتا ہے۔ قرضہ لینے سے پہلے 2 اور قرضہ معاف کروانے کے بعد 4 فیکٹریاں مزید بن جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثر ملک سے باہر نہ صرف جائیدادیں خریدتے ہیں بلکہ کاروبار بھی کرتے ہیں اور پھر واپس آ کر اپنے ہم وطنوں کو اچھی اور صاف زندگی کا درس دے کر اپنی قربانیوں کا رونا بھی روتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرضے کے حصول کے قوانین اس قدر عمدہ ہیں کہ کوئی جرائم صفت شخص ان کو مسخر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔لیکن پاکستانی سیاست کے یہ پاور ہاوٴس جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں خود سے منزلیں آسان کر لیتے ہیں ان کے لئے سخت سے سخت شرائط بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ان ملک بھر میں پھیلے سیاستدانوں کی جائیدادوں کے پھیلاوٴ کا کیا کہنا بساطِ عالم بازیچہٴ اطفال بن گئی۔

یہ سب جانتے ہیں لیکن کوئی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ خود ہی قانون بنا کر ناجائز کو جائز کر لیا جاتا ہے جب قانون حرکت میں آتا ہے تو تب قانونی مو شگافیوں کے سامنے قانون بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ سیاست میں بزنس مینوں کے آ جانے سے یہ بھی ایک انڈسٹری بن گئی ہے، سیاست میں کارخانے بنائے جا رہے ہیں۔ چینی سے لے کر آٹے تک اور کپڑے سے لے کر سوئی تک کی ساری انڈسٹری یا تو اہلِ سیاست نے سیاست کی کوکھ سے ہی جنوائی ہے اور یا صنعتکاروں نے سیاست میں خود کو یا بھائی بیٹے کو ڈال کر ترقی کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔

جب تک سیاست کو سوداگروں سے نجات نہیں ملے گی اس کے بازار یونہی سجتے رہیں گے۔
جمہوری نظام میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہر جماعت عوام کی طرف سے دی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ جب سیاسی قیادت خود ناجائز منافع اور ذاتی دولت کمانے کی سیاست کرے گی تو وہ اپنے اندر کیسے شفافیت پر مبنی نظام لاگو کرے گی۔پاکستان کی سیاست میں وہ طبقہ جو وقفے وقفے سے حکمرانی کے نظام کا حصہ بنتا ہے وہ فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں کے سیاسی اور مالی مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ان ہی پالیسیوں کے باعث ملک میں سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کی بد ترین شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ غربت اور ناہمواریوں کی وجہ ملک کے وسائل میں کمی ہے، لیکن یہ مسئلے صرف غریب اور نادار لوگوں کے لئے ہی کیوں ہیں؟ اس ملک کی زمین، اس کے اثاثے، اس کے عوام کے پیسے، اس کا سب کچھ لوٹ کا مال سمجھا جا رہا ہے۔ آج ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔

غربت، افلاس اور ننگ اکثریتی آبادی کا مقدر بن چکی ہے، لوگ کو علاج معالجہ کی سہولیات بھی حاصل نہیں، بڑے شہروں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پاکستان قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سب کے ذمہ دار معافی اور رحم کے مستحق نہیں ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے گندم اور چینی کے بحران کی تحقیقات کے لئے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تحریکِ انصاف میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما اور وزیرِ اعظم عمران خان کے دیرینہ و قریبی ساتھی جہانگیر ترین اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرِ فہرست ہیں، جب کہ دیگر افراد میں وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی خسرو بختیار، حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی اور ان شخصیات کے رشتے دار شامل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے بعض وابستگان اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعلق رکھنے والے اومنی گروپ کی ملوں کو بھی فائدہ پہنچا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی گزشتہ بائیس سالوں کی سیاسی و سماجی جد و جہد پر نظر دوڑائیں تو وہ کرپشن اور بے ایمانی کے خلاف سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے گندم، چینی بحران کے بعد اعلان کیا تھا جو بھی لوگ ان بحرانوں کے ذمہ دار ہوں گے مرتبے اور جماعتی وابستگی کی پرواہ کئے بغیر ان کے خلاف سخت اقدام کیا جائے گا۔

جن پر الزام ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی قانون نہیں توڑا، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ناجائز منافع خوری در اصل چوری ہے اور امید ہے 25 اپریل کو مکمل رپورٹ آنے پر وزیرِ اعظم عمران خان اپنی سیاست کے بنیادی اصول کے مطابق اپنے ساتھیوں سمیت مصنوعی بحران کے تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدام کے اس عزم کو کسی لیت و لعل کے بغیر عملی جامہ پہنا کر ملک میں بلا امتیاز احتساب کی روایت قائم کریں گے جس کے بغیر کرپشن سے نجات کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :