کورونا اور بین المذاہب ہم آہنگی

ہفتہ 23 مئی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

انسان صفاتِ حمیدہ اور بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے جس کی وجہ سے تمام مخلوقات پر اسے ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ انسان کو جو چیز دیگر مخلوقات سے ممتاز اور معزز کرتی ہے وہ انسانیت ہے، بلاشبہ انسانیت ایک ایسی صفت و علامت ہے جو اسے عروج و کمال سے ایسے نوازتی ہے کہ فلک بھی ناز کرتا ہے، انسانیت رنگ و نسل، قبائل و خاندان، مذہب و ملت اور سرحدوں سے بالاتر ہو کر انسانی رشتوں کو جوڑنے اور ان کے درمیان پیار و محبت اور ہمدردی و خیر خواہی کو پروان چڑھانے کا نام ہے۔

اس لئے کورونا وباء میں مشکلات کا شکار لوگوں کی مدد کرتے وقت یہ نہ سوچیں کہ کون کس مذہب، فرقے یا مسلک سے تعلق رکھتا ہے صرف انسانیت ہی مطمع نظر ہونا چاہئے، قومی پرچم کے سبز و سفید رنگ اسی وطن کے استعارے ہیں۔ قومی یکجہتی، ہماری بقاء، ترقی اور فلاح کی جان ہے۔

(جاری ہے)

پاکستانی قوم ایک گلدستے کی مانند ہے اس گلدستے کی خوبصورتی اس ملک میں رہنے والے مختلف رنگ، نسل، مذاہب اور مسالک کے لوگوں سے ہے۔

در اصل انسانیت بنیادی طور پر اس تصور کا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کی غم خواری کے لئے دھڑکتا ہے اور اخوتِ انسانی کا محل تعمیر کر کے اس میں سارے انسان یکجا کرتا ہے۔ 
کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال نے پوری دنیا کا زاویہٴ نگاہ یکسر بدل دیا ہے۔ لیکن پوری دنیا میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے کہ عام لوگ بھی غریبوں کی امداد کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔

معاشرے حساس ہو گئے ہیں۔ صارفیت کی بجائے ضروری اشیاء کی محدود افادیت پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ کرونا وائرس نے ہر چیز کومنجمند کر کے رکھ دیا ہے۔اس لئے اس کرونا وائرس سے بچاوٴ اور تدارک کے لئے معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو اپنے گناہوں سے تائب ہو کر خدائی معجزے کے لئے گڑ گڑا کر دعا کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس کے بغیر اس آفت سے چھٹکارہ ممکن نہیں کیونکہ دنیا میں اس کے علاج کے لئے ابھی تک کوئی دوا تیار نہیں ہوئی۔

موجودہ حالات میں ہمیں سماجی دوری کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تمام عبادات کا اہتمام کرنا ہے، حکومتی اعلانات اور ریاستی حکام کی جانب سے جو احتیاطی تدابیر جاری کی گئیں ہیں اس کا خاص خیال کرتے ہوئے سختی سے عمل در آمد کرنا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے مطابق یہ ایک قومی بحران ہے اس کے لئے قومی ردِ عمل کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاوٴن کے حوالے سے پوری دنیا میں نرمی پیدا ہو رہی ہے۔

وزیرِ اعظم کے اشرافیہ کے لاک ڈاوٴن کے حوالے سے دئے گئے بیان کا غلط مطلب لیا گیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ جو اشرافیہ لاک ڈاوٴن کی بات کرتی ہے اس کے پاس وسائل ہیں لیکن دوسرے طبقے والے بھوکے مر جائیں گے۔
 ہمارے اندر باہمی محبت اور یگانگت کا جذبہ ہونا چاہئے آپس میں اختلافات بھی ہو جائیں تو بیٹھ کر معاملہ حل کر لیا کریں،تنازعات کو حل کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مختلف عقائد، نظریات اور خیالات سے متفق نہ ہونے کے باوجود جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرنا، دوسروں کے عقائد، رسومات اور رویوں کا احترام کرنا، چاہے آپ ان سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ دنیا بھر میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب وغیرہ کی بنیاد پر ہونے والے تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور متعصبانہ رویے معاشرے میں دہشت گردی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

مثبت اندازِ فکر اختیار کرتے ہوئے اختلافات کو نظر انداز کر کے دوسروں کے نقطہٴ نظر کو سراہا جانا چاہئے۔ اگر چہ اختلافات و تضادات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن اگر معاشرے کی اجتماعیت طاقتور ہو، تضادات کو بڑھانے کے بجائے اس میں مطابقت پیدا کرنے پر توجہ ہو، نظریاتی و عملی سطح پر افراد کی ذہن سازی ہو تو معاشرے کی فکری وحدت قائم رہتی ہے۔

بصورتِ دیگر فکری انتشار اور تقسیم در تقسیم کا عمل معاشرے پر حاوی ہوجاتا ہے۔
 پاکستان کو ابتداء سے ہی سنگین نوعیت کے اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا رہا ہے جیسے معاشی بحران، سیکورٹی خطرات، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی اختلافات، انتہا پسندی اورا س کے نتیجے میں جنم لینے والا انتشار اس کے باوجود پاکستانیوں کی مثبت سوچ، حب الوطنی اور ناکامیوں سے سیکھنے اور ڈٹے رہنے کا جذبہ ہمیشہ پاکستان کی بقاء اورسلامتی میں مددگار رہے ہیں۔

کسی تنازعے یا انتشار سے بچنے کے لئے، مختلف فرقوں، گروہوں، جماعتوں یا مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا مل جل کر زندگی گزارنا بین المذاہب ہم آہنگی کے زمرے میں آتا ہے۔ امن، محبت اور اتفاق ایک ترقی پسند معاشرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ چونکہ انسان کی زندگی کی بنیادی اور فطری اکائی گھر کا ماحول ہے جو اس کی ذہنی اور جسمانی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، جو معاشرے میں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بہت اہم رول ادا کر سکتا ہے ہمیں اپنے بچوں کو بتانا چاہئے کہا انہوں نے ایسے مسائل پر کیسا طرزِ عمل اپنانا ہے۔

ان کے دوست، احباب پر نظر رکھنی چاہئے۔ انہیں دوسروں کے نقطہٴ نظر کو سمجھنے اور اس کا ردِ عمل دینے کا طریقہ سکھایا جانا چاہئے۔ پاکستان کی نوجوان نسل ہمارا روشن مستقبل ہے، دہشت گردی کی جنگ میں نوجوان نسل کاکردار انتہائی اہم ہے، نوجوان نسل کو صحیح راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔ اس سے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی پیدا ہو گی ، نوجوانوں میں قوتِ برداشت بڑھے گی، احترام انسانیت کا جذبہ فروغ پائے گا۔

قائد کے ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان یکجہتی کا ماحول پروان چڑھے گا۔ ملک کے نوجوانوں سے یہی تقاضا ہے کہ انہیں جوش کے بجائے ہوش کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے۔ آج ان کی ہوش مندی ہی ملک کا مستقبل طے کرے گی اور جو ملک کا مستقبل طے ہو گا اور وہی ان کا مستقبل ہو گا کیونکہ مستقبل قریب میں ملک انہی کے ہاتھوں میں جانے والا ہے۔
انسانی رشتوں کا پاس و لحاظ دنیا کو خوشحال، مستحکم اور عدل و انصاف کا آئینہ دار بناتا ہے اورا نسانی رشتوں کی خلاف ورزی پورے معاشرے کو بد حال، معاشرے کو ظالم، انسانی دلوں کو پتھر اور امن و آشتی کو متزلزل کر کے رکھ دیتی ہے جہاں انسانیت کے چشمے سوکھ جاتے ہیں وہاں محبت و اخوت کے شجر مرجھا جاتے ہیں، اخلاق و مروت کے پھل کڑوے ہو جاتے ہیں، اور پر امن فضا مکدر ہو جاتی ہے۔

اپنی مذہبی اور ذات پات کی شناخت پر نازاں ہونے والے طرزِ فکر کے ساتھ ایک ملک کبھی بھی خوشحال نہیں ہو سکتا ہے جہاں ہم ذات پات، مسلک اور مذہب کو سب سے زیادہ ا ہمیت دیتے ہیں۔ موجودہ صورتحال ایک نئے سماجی بندو بست کی شکل لے رہی ہے۔ سماجی آداب بدل رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کا زاویہ تبدیل ہو رہا ہے۔ مدد کرنے میں مذہبی و لسانی تفریق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کورونا نے ہم سب کو بہت کچھ سکھایا ہے اپنے فرسودہ طرزِ فکر سے پاکستان کو دنیا میں ندامت کا مٴوجب نہ بننے دینے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم تمام نا معقولات پر توجہ کرنے کی بجائے اپنی قومی ترجیحات کو صرف اور صرف ایک ہدف پر مرکوز کریں کہ پاکستان کو خوشحال بنانا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :