اسرائیلی جارحیت اور مسلم امہ کا کردار؟

منگل 18 مئی 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

یروشلم کا پرانا شہر چار حصوں میں تقسیم ہے اس شہر میں عیسائی‘یہودی‘آرمینیائی اور مسلمان آباد ہیں اسرائیل یروشلم کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اسرائیل بننے کے بعد سات لاکھ فلسطینی رفیوجی ہو گئے جن کی تعداد اب تقریبا ستر لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔جب اسرائیل کا قیام ہوا تو اس وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ قرار پایا گنبد صخریٰ‘مسجد اقصیٰ‘دیوار گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے ایک مربع کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں جنہیں بلدة القدیم یا Old Cityکہا جاتا ہے اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتا ہے مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی اکثریت ہے جب کہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد ہیں۔

(جاری ہے)

پہلی عرب اسرائیل جنگ 15مئی1948ء کو ہوئی جس میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کو اسرائیلی خوانخوار پنجے سے آزاد کروایالیکن مغربی بیت المقدس بد ستور اسرائیل کے قبضہ میں رہا۔جون 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں‘اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غرب اردن اور مصر سے صحرائے سینائی کا علاقہ چھین لیا جنوبی لبنان کے کچھ علاقوں پر بھی غاصب اسرائیل قابض ہو گیا اور اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی مشرقی و مغربی حصوں کوباہم ملا کر یروشلم کو اپنا دارالخلافہ قرار دے دیا جب یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھا تو امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کرتے ہوئے قرار داد کو غیر مئوثر کر دیااور صرف عربوں کی اشک شوئی کے لئے اتنا کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔

عالمی ادارہ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے 27اپریل2021ء کو213صفحات پر ایک مشتمل رپورٹ جاری کی گئیکہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف ریاستی جبرو استبداد‘ظلم و بربریت اور نسلی امتیاز کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں سات مئی2021ء کو اسرائیل کی صیہونی و دجالیدہشت گرد فوج نے مسجد اقصیٰ میں روزہ داروں اور نمازیوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت‘درندگی اور جبر و استبداد کا جو ثبوت دیا ہے اس سے اسرائیل کا دہشت گردانہ مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اب تک سو سے زیادہ فلسطینی مسلمان اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہو چکے ہیں اس بار اسرائیلی دہشتگردی کی ابتداء مشرقی بیت المقدس کا علاقہ ”شیخ الجراح‘سے ہوئی۔

اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو یہودی بستیوں میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش لئے ظلم و بربریت کی ننگی مثالیں کئی بار پیش کر چکا ہے جمہوریت کی علمبردارعالمی برادری اور اسرائیل کی عدالتوں میں بیٹھے انصاف کے منصب پر فائز ججز کے لئے نہایت شرم کا مقام ہے کہ جو اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں کیخلاف ہونے والی ننگی جارحیت کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔

مشرقی بیت المقدس پراسرائیلی غیر قانونی قبضہ کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے بیت المقدس پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ کیخلاف صرف بیانات ریکارڈ کا حصہ ضرور ہیں لیکن اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے تاحال اپنے اس کردار کا تعین نہیں کیا کہ وہ جارح اور ظالم اسرائیل کے اس دہشگردانہ اقدام کو روک سکے کہ وہاں فلسطینی مسلمانوں کو بے گھر کر کے یہودی بستیاں تعمیر کرنا غیر قانونی اور جرم ہے۔

مشرقی بیت المقدس کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے اس مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لئے قبلہ اول ہے یہ شہر فلسطین کا حصہ ہے اور اس مقام کو فلسطینی مسلمان مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست فلسطین کا دارالحکومت مانتے ہیں۔اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں کیخلاف جو ظلم و استبداد کی شب و روز دہشت زدہ مثالین رقم کر رہی ہے وہ صاف طور پر کھلی عالمی دہشت گردی ہے ایک غاصب ریاست اپنی صیہونی و دجالی فوجی قوت کے بل بوتے پر بار بار مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کر رہی ہے اور نہتے فلسطینی مسلمان مردو خواتین‘بوڑھے اور بچوں کو بے دریغ شہید اور زخمی کیا جا رہا ہے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر آگ اور بارود برسا رہا ہے فلسطین مسلمانوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سے سسک رہا ہے لیکن افسوس مسلمانوں کے قبلہ اول کے محافظ فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے سفاک مظالم کو روکنے کے لئے مسلم ممالک اور مسلم امہ کا کردار شرمناک حدوں کو چھو رہا ہے۔

57مسلم ممالک قبلہ اول کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات کی بساط بچھائے صرف اپنے مفادات کو عزیز تر جانتے ہوئے اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر قدغن لگانے سے قاصر ہیں ۔یہ امت مسلمہ کا وہی قبلہ اول ہے جس کی طرف نبی کریم ﷺ اور صحابہ نے تقریبا سولہ یااٹھارہ نمازیں ادا فرمائی مسجد اقصیٰ جس کی زیارت کے لئے آپﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے لیجایا گیا اور وہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرما کر نماز پڑھائی پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپﷺ کو آسمانوں کی طرف لیجایا گیا‘اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی اور اس سفر کے دوران جنت و جہنم کے مناظر دیکھائے گئے‘اور سات آسمانوں پر نبی کریم ﷺ کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات کروائی گئی یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا‘مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے اس سفر مبارک کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری کو سفر معراج کہا جاتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس مبارک شہر(بیت المقدس) کو فتح کر کے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا‘خلیفہ عبدالملک کے عہد میں مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخراء کی تعمیر کی گئی‘یہ وہ سرزمین مقدس ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ اسلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی‘حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ اسلام اور ان کے بعد تمام آنے والے انبیاء کرام(حضرت یعقوب‘حضرت سلیمان‘حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام )کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔

مسلم ممالک اور امت مسلمہ کے لئے یہ لمحات بڑے کربناک ہونے چاہےئے ہمیں اپنے ایمانی درجہ حرارت کو ماپنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لئے اور قبلہ اول کی بقاء کے لئے ہمارا کردار کیا ہے ۔اگر مسلم ممالک قبلہ اول کی حرمت و فضلیت کو مقدم رکھ کر ایک صفحہ پر متحد ہو جائیں تو مضبوطی اور طاقت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جانے میں بھی قباحت نہیں لیکن یاد رکھیں اگر اتحاد کے بغیر صلح کی میز پر بیٹھے تو دنیا اسے آپ کی کمزوری اور مجبوری سمجھے گی مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اس بات کا اندازہ لگا لینا چاہیے کہ اتحاد کے بغیر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو فلسطین سے اٹھنے والی چیخیں ایک دن آپ کے در تک بھی پہنچ جائیں گی‘امریکہ اور اس کے حلیف ممالک مسلم ممالک اور مسلم امہ کی طاقت کو پاش پاش کرنے کے لئے ایک صفحہ پر ہیں نتائج مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں عراق کی تباہی‘ایران پر پابندیاں اور ترکوں کے خلاف عالمی سازش صیہونی و دجالی قوتوں کے ایجنڈا کا ہی حصہ ہے۔

قرآن کریم نے پوری استظاعت کے ساتھ قوت کی فراہمی پر زور دیا ہے یہ قوت اس قدر ہو کہ مخالفین کے دل میں ڈر سما جائے ۔برسوں سے جاری فلسطین پر ظلم و ستم جاری سیریل کے خاتمے کی یہی ایک شکل ہے صرف صلاح الدین ایوبی کی آمد اور انتظار اور الہی بھیج دے کوئی محمود کی دعا اور کلنڈر پر چھاپ دینا کافی نہیں دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں دعاؤں کے ساتھ پر عزم ہو کر تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ورنہ ہم ظلم سہتے رہیں گے اور ہماری داستاں نہ ہو گی داستانوں میں۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :