غم گسار

جمعرات 24 اکتوبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

گذشتہ سال یہی دن تھے۔انتہای خوب صورت موسم نہ سردی نہ گرمی۔کھلا موسم تھا۔جو میری طبعیت میرے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔میں رنگ بھرے موسم  سے بھر پور لطف اندوذ ہو رہا تھا۔رنگ میں بھنگ اس وقت ڈلی۔جب مجھے اپنی تشریف کے پرائویٹ حصے میں درد شروع ہوا۔اور اگلے دو دن درد نے انتہای شدت اختیار کر لی۔مقامی ڈاکٹر  سے دوای لی۔مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کے۔

چار دن بعد میری شدت تکلیف کا احساس کرتے ہوے ڈاکٹر صاحب نے مذید علاج سے ھاتھ کھڑے کر دیے۔انتہای رازدانہ لہجے میں کہا۔یہ سرجن کا کیس ہے۔تمہیں ایک بہت قابل سرجن کا وقت لے دیتا ہوں۔ان کو چیک کرواو۔ڈاکٹر کی مایوس کن کارکردگی سے زیادہ ان کے مایوس کن لہجے کا دکھ زیادہ ہوا۔
اگلے دن وقت مقررہ پر اپنی فیملی کے ہمراہ  سرجن کے پاس پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

سرجن تو جیسے میرے انتظار میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔میں نےاپنے ڈاکٹر صاحب کا ریفرنس دیا۔سرجن صاحب میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بولے میری ان سے بات ہو گی آپ کی سرجری ہو گی۔اور اس کا کوی حل نہیں۔میں حیران ہوتے ہوے بولا ڈاکٹر صاحب آپ نے چیک کیے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا۔مجھے چیک تو کر لیں۔میرے گھمبیر لہجے کو محسوس کرتے ہوے مجھے آپریشن تھیٹر لے  گے۔

جہاں پر میری مطلقہ جگہ کو انتہای بےدردی سے چیک کیا جس سے میرے شدت درد میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا۔اپنے ھاتھ جھارتے ہوے بولے اب ٹھیک ہے یا مذید چیک کروں۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب بہت ہے۔ڈاکٹر صاحب بولے جو میرا پہلے opinion  تھا اب وہی ہے اپریشن ہو گا۔میں آپ کے ساتھ آے لواحقین سے بات کرتا ہوں۔قریب کوی بیس منٹ بعد ڈاکٹر صاحب  فاتح ہند کی طرح اپریشن تھیٹر آے ۔

اور بولے آپ کے گھر والوں کو آپ کی صورتحال بتا دی ہے انھوں نے آپریشن کی اجازت دے دی۔مجھے اپنے گھر والوں کے فیصلے پر شدید غصہ آیا۔پہلے مجھ سے تو اجازت لے لیں۔گھر والوں سے میری ملاقات ہوی جس پر میں نے اپریشن کے خلاف شدید احتجاج کیا۔پر میرا احتجاج  حاکم وقت کے آگے بے موثر ثابت ہوا۔
اپریشن کے لیے ھسپتال میں داخل کر لیا۔ شہر کے بہترین نجی ہسپتالوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔

آرام دہ خوبصورت کمرہ جہاں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔کمرے کا معیار کسی بھی طرح کسی فائیو سٹار ھوٹل کے کمرے سے کم نہ تھا۔اتنا اچھا کمرہ تو اپنے ہنی مون کے وقت بھی نہیں لیا۔ھسپتال کی دوسری پر میرے خیال میں پہلی وںاں کا خوبصورت نرسنگ سٹاف تھا ہر تھوری دیر بعد میرے  مختلف ٹیسٹ لینے خوبصورت نرس آتی ان کے ھاتھوں میں جادو تھا زرا سی بھی تکلیف نہیں ہونے دیتی(ان کے ھاتھوں کا نہیں حسن کا تھا) vip پروٹوکول نےکچھ ہی دیر میں میرا کمرے میں دل لگ گیا۔

اور شکر ادا کیا کے تھوری دیر پہلے کیا جانے والا احتجاج منظور نہیں ہو گیا۔مجھے پرانے زمانے کی فلمیں یاد آنے لگی۔کہ ہیروہین کی بےوفای یا اس کے انتقال کی صورت میں  ہیرو ڈیپریشن یا خطرناک بیماری کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہو جاتا جہاں پہلی نہیں  دوسری نظر میں ہی ہسپتال کی نرس یا لیڈی ڈاکٹر کے عشق میں گرفتار ہو جاتا اور نئے محبوب کے ملتے ہی محلق بیماری سے بھی چھٹکارہ  پا جاتا۔

ہاے اپنی ایسی قسمت کہاں۔یہاں صرف بیماری نہیں بیوی بھی تھی۔
شام ہوتے ہی نئ بحث چھڑ گی۔مریض کے پاس رات کون ٹھرے گا۔ہسپتال کا ماحول دیکھتے ہوے سب جوانوں نے  اپنی خدمات  کی پیش کش کی۔ان سب میں جو دو معصوم لگے ان کا انتخاب کیا۔اللّٰہ جانتا ہے ساری رات کمرے سے باہر موبائل فون پر اپنے اپنے مشن پر لگے رہے۔فقط دو مرتبہ ان کی زیارت نصیب ہوی۔


آگلے دن اپریشن تھا۔میرا حلقہ احباب خاصہ وسیع ہے۔اپرشن والے دن صبح  سے کمرے میں ہجوم تھا۔اپریشن تھیٹر شفٹ کر دیا۔جہاں ڈاکٹر اور ان کی متعلقہ ٹیم موجود تھی۔سب نے منہ ڈھانپے ہوے تھے  وہ ڈاکٹر کم ڈاکو زیادہ لگ رہے تھے ۔نیچلےدھڑ کو سن کر دیا۔اپریشن کامیاب ہوا ڈاکٹر  نے بتایا اور درد ناسور بھی دیکھایا۔دو ڈھائ گھنٹے بعد کمرے میں شفٹ کر دیا۔

عیادت کرنے والوں میں ابو کے رشتے کے چچا جو شیخوپورہ سے تشریف لاے ۔انھوں نے آتے ہی شکوہ کیا مجھے تمھارے گھر والوں نے اپریشن کے وقت سے لاعلم رکھا نہیں تو میں دو تین پہلے ہی پہنچ جاتا۔میں نے انھیں بتایا میں خود کل ادھر آیا ہوں۔پھر میری بیماری کی ساری تفصیل سنی اس کی روشنی میں چچا بولے مجھے ساری عمر دکھ رہے گا تمھارا اپریشن تھا پر تم نے کسی قسم کا مشورہ کرنا گوارہ نہ کیا۔

اگر مجھے یہ درد والی جگہ دیکھا دیتے تو اپریشن نہیں ہوتا۔یہ میرے بائیں ھاتھ کا کھیل ہے صرف دس روپے خرچ آنا تھا درد ہمیشہ کے لیے صیح ہو جانا تھا۔مجھے ان کی فرمائش سن کر غصہ آیا میرا درد سے برا حال تھا میں انھیں چیک کروانے شیخوپورہ جاتا۔ مختلف اوقات پر ان سے کی جانے والی زیادتیوں کی لمبی فہرست تھی۔جو دو گھنٹے لگا کر ساری میرے گوش گذار کی۔

ان کے حق میں اپنا فیصلہ دینے کے بعد بہت مشکل سے ان سے جان چھرای۔اسی طرح جو عیادت کے لیے آتا شروع سے لے کر آخر تک ساری داستان درد سنتا۔اس کے بعد اپنے طبعی مشوروں سے نوازتا اور  اپریشن سے متعلق اپنے تجربات مجھ تک ٹرانسفر کرتا کچھ تو انتہای دلخراش اور دل سوز ہوتے۔ایک نے تو حد کر دی وہ مصر تھے مجھے مقام آپریشن  دکھائیں میں ان کی یہ ڈیمانڈ کسی صورت پوری  نہ کرنے کے حق میں تھا۔

بڑی مشکل سے سمجھایا آپ گھر تشریف لایں انشااللہّٰ سکون اطمینان کے ساتھ چیک کیجے گا۔قاری صاحب تشریف لے آے اور آتے ساتھ آنھوں نے آواز بلند اعلان کیا۔مدرسے کے بچوں سے چار قران پاک  حصول صحت کے  لیے پڑھواے ہیں ۔اور پتہ نہیں کتنے لاکھ مرتبہ آیت کریمہ اور کلمہ کا ورد کیا ہے۔ پھر میرے مرض کی صورتحال جاننے کے بعد حساب لگایا کسی نے بہت سخت وار کیا ہے اس کے توڑ کے لیے مختلف وظائف بتاے جن کا دورانیہ کم و پیش دس بارہ گھنٹے پر محیط تھا۔

میرے ایک دو دوستوں نے پچھلے پانچ دن کی روداد سن کر اس کو جسمانی واردت قرار دیا اس حوالے سے انھوں نے  اشارہً پرانے واقعات یاد کرواے ۔رات گے یہ سلسلہ چلتا رہا۔اب تو یہ نوبت آ گئ تھوری دیر کوی نہ پوچھتا تو میں خود ہی بتانا شروع کر دیتا۔
کل تک جو کمرہ رومنٹک ذدہ تھا آج وہ کمرہ عدالت کا کٹھرا یا تھانے کی حوالات لگ رہا تھا۔سوال جواب ایسے تھے جیسے میں نے اپریشن نہیں کروایا کوی جرم عظیم کیا ہے۔

میرے بیشتر ناصح محترم کا یہی شکوہ سامنے آیا ان سے مشورہ نہیں لیا اور انھیں لاعلم رکھا ۔اسی طرح زیادہ تر نے اپریشن کو سنگین  غلطی قرار دیا ۔میرے شدت درد کا احساس کسی نے نہیں کیا۔اپریشن  کے بعد درد سے نجات ملی سکون ملا اس کا اظہار  اس کا احساس کسی نے نہیں کیا۔کل تک خوبصورت نرسنگ سٹاف کے سحر میں جکڑا ہوا تھا ۔میرے غم گساروں نے اتنا زیادہ غم ذدہ اور رنجیدہ کیا کہ اس کے ثمرات پہنچنے ہی  نہیں دیے۔

شاید غالب نے یہ شعر آج کے موقع کے لیے ہی کہا تھا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا  کوئی غم گسار ہوتا

 رات کو ڈاکٹر صاحب آے ۔جن سے ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کی درخواست کی وہ باضد تھے کل صبح ڈریسنگ تبدیل کروا کر جانا۔بہت مشکل سے کل دوبارہ آنے کے وعدے پر چھٹی کی اجازت ملی۔
گھر آ کر شکر کیا۔اپنا کمرہ ھسپتال جیسا نہیں پر جو سکون جو در و دیوار کی انسیت اپنایت حساس ملکیت اپنے کمرے میں تھا وہاں نہیں۔یہاں سب مخلص غم گسار تھے اسی لیے ٹھیک کہتے ہیں گھر جیسا بھی ہو اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :