مہنگائی اور عوام کی پریشانیاں

بدھ 8 جنوری 2020

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

کمرتوڑ مہنگائی عوام کا مقدر بن گیا ہے ہر دن کھانے پینے کی اشیاء سمیت ضروریات زندگی کی اشیاء میں اضافہ نے لوگوں کی پریشانیاں اس قدر بڑھا دیں ہیں ان کی قوت خرید دم توڑنے لگی ہے اس کے ساتھ بیروزگای کو بھی فروغ مل رہا ہے اور یہ لوگ امیدوں کی آس لگائے اس انتظار میں ہیں کب ان کو مہنگائی سے نجات ملے گی جبکہ کمر توڑ مہنگائی کے عقرب نے عوام کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے اور ہر دن صارفین پر بھاری گزر رہا ہے اور عام طبقہ کے لوگ اکثر سوال کرتے ہیں مہنگائی کا بم صارفین پر کیوں دوسری طرف حکمرانوں کا کہنا ہے عوام پر قیمتیں بڑھانے سے کوئی اثر نہیں ہوتا پاکستان کے عوام ماضی سے لیکر آ ج تک حکمرانوں سے یہ ہی سنتے آ رہے ہیں اور مہنگائی کا رونا روتے اور صبر و شکر سے روکھی سوکھی کھا کر گزرواوقات کرتے آرہے ہیں مگر کسی بھی حکومت نے عوام کے رونے دوھنے کی جانب توجہ نہیں دی آبادی کی اکثر یت غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اس کے برعکس ہمیشہ حکمرانوں نے ٹھاٹ باٹھ کی زندگی گزارتے آ رہے ہیں ان کا پانی اشیائے خورد ونوش علاج بچوں کی تعلیم کا بھی درالمدار غیر ممالک سے ہے عوام اور ان کے بچے علاج تعلیم اور بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ٰور عام آدمی انتہائی مشکلات سے دوچار اور بیمارویوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر موت کے منہ میں جارہے ہیں ان کا دکھ درد بھی سنے والا کوئی بھی نہ ہے ان کی دکھوں بھری زندگی سے بے خبر حکمرانوں کو علم ہے ان بھی اللہ تعالے کی عدالت میں آخر جواب دینا ہے اس کے باوجود بھی لوٹ کھوسٹ سے توبہ نہیں کرتے اور مسلسل عوام کے حقوق کا استحصال معمول بنا ہوا ہے اور مخلوق کو مہنگائی کا تحفہ ملتا آ رہا ہے محلات میں رہنے والوں کا کیا پتہ عام آدمی کس قدر پریشان ہے میرے سامنے نوعمر بوٹا کی موت کے بعد اس کا چہرہ سامنے آ تا ہے اس کی پکار آج بھی کانوں میں گونجتی ہے میری بیماری کا علاج نہ ہو سکااور مجھ سے دنیا میں رہنے کا حق چھین لیا گیا جب وہ زندہ تھا جب بھی ملاقات ہوتی یہ ہی کہتا مجھے اب پرہیز کا درس نہ دیا کرو علاج نہ ہونے کے باعث آخر میں نے مر جانا ہے بوٹا کی پکار کو اخبارات میں بھی مشرف دور میں شائع کروایا کیا مگر کسی نے بھی پکار پر کان تک بھی نہ دھرااور موت کے منہ میں چلا گیا یہ ایک بوٹا کی کہانی نہیں لاکھوں ایسے واقعات ملک میں پیش آ چکے ہیں اور آج بھی معمول بنے ہوئے ہیں جبکہ حکومت وقت جو بھی ٹیکس لگاتی ہے اس کا برائے راست اثر صارفین کو ہی براست کرنا پڑتا ہے جو منصوعات تمام مراحل طے کرنے کے بعد خریددارکے پاس پہنچتی ہے کارخانے ملز سٹاکسٹ اور دوکاندارکے تمام ٹیکسیز ملازمین کی تنخواہوں ان کے گھریلو اخراجات سمیت دیگر کا بوجھ ان منصوعات پر ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے اسی پٹرولیم گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی امیر وغریب گداگر صارف پر ہی پڑتا آ رہا ہے اور صارفین ہی قربانی کا بکرا بنتے آ رہے ہیں کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقہ بُری طرح متاثر ہوتا آرہا ہے اس کے برعکس امیر طبقہ کو وقعی اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا سٹاکسٹ کی بھی چاندی ہو جاتی ہے اور ایلیٹ طبقہ کو تو دال گوشت کے بھاوٴ کا پتہ تک نہیں ہوتا ایسی صورت حال نے ہی عوام کو پریشان کر رکھا ہے ہم مدنیہ کی ریاست بنانے کے دعوے کر رہے ہیں وہ کیسے ممکن ہے جب کہ نیچے سے اوپر تک کرپشن کو ہی دیکھیں اگر واقع ہی مدنیہ کی ریاست بنا نا ہے تو حضرت عمر فاروق کی وسیع و عریض حکومت میں ان کی طرز زندگی انصاف کو دیکھیں نبی کریم ﷺ کا دور حکومت کو ہی دیکھیں اگر حکمرانوں نے اپنی زندگیاں ان کی پیروری میں بدلنے کا عہد کر لیا تو مدینہ کی ریاست کی طرز کی جانب ہمارا سفر جاری ہو سکتا ہے اس کیلئے مکمل وہی نظام حکومت کے نفاذبھی ضروری ہو گا جس میں انصاف چند دن میں مل سکے گا حکمران اور عام آ دمی انصاف کے عدالت کے کٹہرے میں ہوں گے اللہ تعالے سے یہی دعاہے اس ملک کو مدینہ کی ریاست کا نظام جلد میسر آ ئے بر حال عام لوگوں کو انصاف کی بروقت فراہمی ان کو تعلیمی طبی سہولیات کی فراہمی اور مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو روزگار کی فراہمی کی جانب توجہ وقت کی ضرورت ہے عوام کو تو روزگار اور بنیادی سہولیات چاہیں ان کو یہ سہولیات میسر آ جائیں چاہیے یہ کوئی بھی حکومت کام سر انجام دے وہی حکومت عوام کے دلوں پر راج کی حق دار ہے ان وعدوں کو حکومت وقت کو پورا کرنا ہوگا اسی میں ہی کامیابی ہو گی نہ کہ عوام کو مہنگائی میں جکڑنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے مہنگائی سے عوام کو نجات دلوانا ہی ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :