
بار بارنادانیاں مت دہرائیں !
پیر 12 اکتوبر 2020

رقیہ غزل
(جاری ہے)
ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا : چور کے بارے کیا حکم ہے ؟بہلول نے کہا: عالی جاہ!” اگر چور پیشہ ور ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے اور اگر چور ی مجبور ہو کر کی گئی ہو تو حاکم وقت کی گردن اڑا دینی چاہیے“ یہی تو ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں وہی لوگ برسر اقتدار آتے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے تو فکر آخرت کیسی۔۔؟بڑا شور سنتے تھے کہ تجربہ کار ٹیم آئے گی اورسٹیٹس کو ٹوٹ جائے گا مگر سچ یہ ہے کہ یک بعد دیگرے ماضی کے حکمرانوں کی کار گزاریوں کے ہی ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں کہ پہلے جگری یار جہانگیر ترین اور اب منہ بولے بیٹے زلفی بخاری کو بھی بھگادیا گیاہے یعنی ہر وہ کام کیا گیاجو کہا جاتا تھاکہ مجھے چن لیں میں ایسا نہیں ہونے دونگا اوراب تبدیلی سرکار کا دل کرتا ہے جو سوال کرے اسے دیوار میں چنوا دے کیونکہ تبدیلی سرکارکے قائدین تبدیلی کے نام پر ایسے پھندے تیار کر کے لائے تھے جو کہ صرف اور صرف اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ناپ کے تھے لیکن وہ باری باری پھندوں سے نکل رہے ہیں پھر بھی ہر عہدے دار کے خطاب میں وہی گھسے پٹے الزامات ، پرانے سیاپے، کرپٹ مافیاز کی راز افشانیاں اور خود کو حاجی ثابت کرنے کی کوششیں ہی ہوتی ہیں حالانکہ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو زرعی ملک ہونے کے باوجود روس سے گندم خرید رہا ہے جبکہ ہم نے تو سوویت یونین تک اپنا ٹریڈ بڑھانا تھا مگرخود روٹی کے لیے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو ”محبت کے چالیس اصول “ پڑھنے چاہیے افسوس ہوتا ہے کہ ہم کنگال در کنگا ل ہو رہے ہیں اور ہمیں بھنگ کاشت کرنے ،ارتغرل دیکھنے اور محبت کے چالیس اصول پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔
ہم قرآن پاک کیوں نہ پڑھیں تا کہ ہمیں پتہ چلے کہ قوموں پر قحط کیوں نازل ہوا تھا؟ احادیث مبارکہ اور سنت رسول پاک کا مطالعہ کیوں نہ کریں کہ پتہ چلے کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے ؟ ہم خلافت راشدہ کیوں نہ پڑھیں پتہ چلے کہ ریاستی خوشحالی کے لیے انصاف کی بلا تفریق فراہمی کتنی ضروری ہے ؟ ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیوں نہ کریں کہ ہمیں پتہ چلے کہ بادشاہوں کی کونسی غفلت سے دشمن غالب آگیا تھا ؟خان صاحب کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ وقت گہرے سمندر میں گرا وہ موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے اور وقت ہاتھ سے جا رہا ہے اپوزیشن سیاسی منظر نامے پر چھارہی ہے کیونکہ ریاست مخالف بیانئے تو پرانے ہیں اور عین اس وقت کہ روٹی کا قحط ہی نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں” قحط الرجال“ بھی ثابت ہو رہا ہے تو کمال عیاری سے دو سالوں سے رکے بد بو دارسیاسی جوہڑ میں ایسا بیانیہ پھینک کر کھلبلی مچا دی گئی ہے جو جلد بدل بھی جائے گا کیونکہ سیاسی بیانیہ ہے یہی وہ سیاسی تار عنکبوت ہے جو بظاہرالجھاتا ہے مگرسلجھا کر سامنے لاتا ہے اور” آفتاب آمد دلیل آفتاب “ افواج پاکستان کی شفافیت کو سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں مزیداگر چمگادڑ کو سورج کی روشنی میں نظر نہیں آتا تو اس میں سورج کی ٹکیہ کی کیا خطا ہے باقی رہی بات” حکومت مخالف تحریک“ کی تو فلک شگاف نعروں اور واشگاف دعووں کا بت مسمار ہوچکا،سنا ہے کہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے والی ہے کہ مفادات کی چھتری تلے ایک ہونے والوں کے مفادات ٹکرا چکے ہیں بلاشبہ حکومت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں البتہ جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے ضرور ہے لہذامافیاز کا نام دیکر کچھ نہ کرناقوم سے صریحاً مذاق ہے پھر بھی نیا پاکستان بنانے کی خواہش باقی ہے تو یاد رکھیں کہ نئی بنیادیں صرف وہی لوگ بھر سکتے ہیں جو اس راز کو تلاش کریں کہ پرانی بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں تھیں اس لیے بار بار نادانیاں مت دہرائیں ورنہ تاریخ خود کو دہرا دے گی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.