بار بارنادانیاں مت دہرائیں !

پیر 12 اکتوبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

اسکارٹ لینڈ میں ایک مصور رہتاتھا جو اپنے فن پاروں کی وجہ سے بہت مشہور تھا کیونکہ وہ اس قدر حقیقت سے قریب ترہوتے تھے کہ دیکھنے والوں کو چھونے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ یہ توایک ڈرائینگ ہے یونہی ماہ و سال کی محنت کے بعد اس پینٹرنے ایسی پینٹنگ بنائی جو ایک کھلا ہوا دروازہ تھا لیکن اس کے پار اس قدر دلفریب نظارے تھے کہ جو کوئی اسے دیکھتا تو بے ساختہ اس کے قدم بڑھ جاتے اور وہ اس دروازے سے گزرکر ان نظاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتا مگر جب یہ پینٹنگ نمائش کے لیے پیش کی گئی تو لوگوں نے داد تو خوب دی مگر جب وہ اس کے قریب جاتے تو پتہ چلتا کہ یہ پینٹنگ ہے تو وہ داد طنزیہ مسکراہٹ میں بدل جاتی کسی نے یہ بات پینٹر کو بتا دی تو وہ بہت اداس ہوا تو اس کی بیوی نے اسے کہا کہ یقینا اس کی پینٹنگ میں کوئی کمی رہ گئی ہے اور جتنا وقت اس غم میں گزار رہاہے کہ وہ اپنا بہترین فن نہیں دکھا سکا اسے اس کو دوبارہ بنانا اور کمی کو دور کرنا چاہیے یہ سن کر پینٹر نے دن رات کی عرق ریزی کے بعد ا ز سر نو پینٹنگ بنائی اب کی بار تصویری دروازہ اس قدر حقیقت سے قریب تر تھا کہ ہر کسی کو گمان ہوتا جیسے یہ پر فضا مقام کا دروازہ ہے جب تک وہ اسے چھو نہ لیتا یا داخل ہونے کی کوشش میں ٹکرا نہ جاتا ۔

(جاری ہے)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان جتنا وقت اپنی خامیوں کو سننے اور دوسروں کو لاجواب کرنے میں صرف کرتا ہے اگر وہی وقت اپنی خامیوں کو دور کرنے میں گزارے تو نسلوں کے لیے مثال بن جاتا ہے بے شک غلطی کو غلطی نہ سمجھنا بھی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے کیونکہ وہ گمراہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بد قسمتی سے آج کا انسان اپنی غلطیوں کا بہترین وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن چکا ہے لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ عام آدمی کی غلطی کا نتیجہ صرف اسی آدمی کو یا اس سے جڑے چند افراد کو جبکہ ایک ملکی سربراہ کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتاہے اس پر طرہ اگر وہ اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے ان پر واہ وائی کروانے کا مزاج رکھے تو تباہی یقینی ہے جو ملکی حالات ہیں ان پر حکومتی ترجمان شبلی فراز کا کہنا کہ ”سوائے مہنگائی کے سب اشارئیے مثبت ہیں “ لمحہ فکریہ ہے ! ایسا کونسا سنگین جرم ہے جو اس وقت نہیں ہو رہا بلکہ جرم کی تفصیل اور ویڈیو زچند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ جاتی ہیں پھر بھی کہنا کہ سب اچھا ہورہاہے جبکہ ماضی ہے ادھر گول اور ادھر حال ندارد
ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا : چور کے بارے کیا حکم ہے ؟بہلول نے کہا: عالی جاہ!” اگر چور پیشہ ور ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے اور اگر چور ی مجبور ہو کر کی گئی ہو تو حاکم وقت کی گردن اڑا دینی چاہیے“ یہی تو ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں وہی لوگ برسر اقتدار آتے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے تو فکر آخرت کیسی۔

۔؟بڑا شور سنتے تھے کہ تجربہ کار ٹیم آئے گی اورسٹیٹس کو ٹوٹ جائے گا مگر سچ یہ ہے کہ یک بعد دیگرے ماضی کے حکمرانوں کی کار گزاریوں کے ہی ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں کہ پہلے جگری یار جہانگیر ترین اور اب منہ بولے بیٹے زلفی بخاری کو بھی بھگادیا گیاہے یعنی ہر وہ کام کیا گیاجو کہا جاتا تھاکہ مجھے چن لیں میں ایسا نہیں ہونے دونگا اوراب تبدیلی سرکار کا دل کرتا ہے جو سوال کرے اسے دیوار میں چنوا دے کیونکہ تبدیلی سرکارکے قائدین تبدیلی کے نام پر ایسے پھندے تیار کر کے لائے تھے جو کہ صرف اور صرف اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ناپ کے تھے لیکن وہ باری باری پھندوں سے نکل رہے ہیں پھر بھی ہر عہدے دار کے خطاب میں وہی گھسے پٹے الزامات ، پرانے سیاپے، کرپٹ مافیاز کی راز افشانیاں اور خود کو حاجی ثابت کرنے کی کوششیں ہی ہوتی ہیں حالانکہ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو زرعی ملک ہونے کے باوجود روس سے گندم خرید رہا ہے جبکہ ہم نے تو سوویت یونین تک اپنا ٹریڈ بڑھانا تھا مگرخود روٹی کے لیے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو ”محبت کے چالیس اصول “ پڑھنے چاہیے افسوس ہوتا ہے کہ ہم کنگال در کنگا ل ہو رہے ہیں اور ہمیں بھنگ کاشت کرنے ،ارتغرل دیکھنے اور محبت کے چالیس اصول پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔


 ہم قرآن پاک کیوں نہ پڑھیں تا کہ ہمیں پتہ چلے کہ قوموں پر قحط کیوں نازل ہوا تھا؟ احادیث مبارکہ اور سنت رسول پاک کا مطالعہ کیوں نہ کریں کہ پتہ چلے کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے ؟ ہم خلافت راشدہ کیوں نہ پڑھیں پتہ چلے کہ ریاستی خوشحالی کے لیے انصاف کی بلا تفریق فراہمی کتنی ضروری ہے ؟ ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیوں نہ کریں کہ ہمیں پتہ چلے کہ بادشاہوں کی کونسی غفلت سے دشمن غالب آگیا تھا ؟خان صاحب کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ وقت گہرے سمندر میں گرا وہ موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے اور وقت ہاتھ سے جا رہا ہے اپوزیشن سیاسی منظر نامے پر چھارہی ہے کیونکہ ریاست مخالف بیانئے تو پرانے ہیں اور عین اس وقت کہ روٹی کا قحط ہی نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں” قحط الرجال“ بھی ثابت ہو رہا ہے تو کمال عیاری سے دو سالوں سے رکے بد بو دارسیاسی جوہڑ میں ایسا بیانیہ پھینک کر کھلبلی مچا دی گئی ہے جو جلد بدل بھی جائے گا کیونکہ سیاسی بیانیہ ہے یہی وہ سیاسی تار عنکبوت ہے جو بظاہرالجھاتا ہے مگرسلجھا کر سامنے لاتا ہے اور” آفتاب آمد دلیل آفتاب “ افواج پاکستان کی شفافیت کو سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں مزیداگر چمگادڑ کو سورج کی روشنی میں نظر نہیں آتا تو اس میں سورج کی ٹکیہ کی کیا خطا ہے باقی رہی بات” حکومت مخالف تحریک“ کی تو فلک شگاف نعروں اور واشگاف دعووں کا بت مسمار ہوچکا،سنا ہے کہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے والی ہے کہ مفادات کی چھتری تلے ایک ہونے والوں کے مفادات ٹکرا چکے ہیں بلاشبہ حکومت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں البتہ جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے ضرور ہے لہذامافیاز کا نام دیکر کچھ نہ کرناقوم سے صریحاً مذاق ہے پھر بھی نیا پاکستان بنانے کی خواہش باقی ہے تو یاد رکھیں کہ نئی بنیادیں صرف وہی لوگ بھر سکتے ہیں جو اس راز کو تلاش کریں کہ پرانی بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں تھیں اس لیے بار بار نادانیاں مت دہرائیں ورنہ تاریخ خود کو دہرا دے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :