غلط فہمیوں کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے!

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

وقت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کا جنون بھی بڑھتا جا رہا ہے ،ہر طرف جلسوں اور ریلیوں کا شور سنائی دے رہا ہے جنھوں نے برسر اقتدار رہ کر کبھی ڈیلیور نہیں کیا وہ بھی قوم کو سہانے سپنے دکھا رہے ہیں اور جو کچھ کر ہی نہیں سکتے وہ ہوائی قلعے تعمیر کر رہے ہیں جبکہ حکومت ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے اور اس کے سربراہان حالیہ سیاسی ہلچل کو گیدڑ بھبھکیاں قرار دے رہے ہیں حالانکہ تمام حکومتی اُمراء و رؤسا اپوزیشن کے کپڑوں اور جوتوں پر تبصرہ کرنے اور کرسیاں گننے میں مصروف ہیں مولانا تو پہلے دن سے ہی ماہی بے آب کی طرح میدان عمل میں ہیں اورحکومت کے جانے کی تاریخیں بھی دیتے آ رہے ہیں مولانا نے ان ا نتخابی نتائج کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا جس میں وہ ناکام ہوں بایں وجہ انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ دیگر بڑی جماعتیں ان کا ساتھ دیں مگر پی پی پی ہمیشہ دونوں اطراف سے کھیلتی آ رہی ہے اس لیے ان کے بارے میں ہر کسی کے اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مئوقف کبھی واضح نہیں رہا اور ن لیگ کی سراپا منفی سیاست اور اداروں کے خلاف محاذ آرائی انھیں کسی قابل نہیں چھوڑتی البتہ دیگر جماعتوں کا ایجنڈا واضح ہے کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی یہی وجہ ہے کہ پہلے بھی سبھی بھاگ گئے تھے اب کے بیانیے کیوجہ سے بھی پی ڈی ایم اتحاد کا مستقبل مشکوک ہے البتہ یہ کہنا پڑے گا کہ موجودہ سیاسی ہلچل حکومتی نا دانیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے ورنہ اپوزیشن کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں تھا بلکہ ماضی کے عرصہ دراز کے جھوٹے دعوے اور وعدے ہی انھیں ناکام کرنے کیلئے کافی تھے مگر اب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اپنی اپنی وابستگیوں کے مطابق سیاسی موشگافیوں اور شعلہ بیانیوں کا جو بازار لگا رکھا ہے اس سے یہی تاثرمل رہا ہے کہ پی ڈی ایم عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے اور فیصلہ کن سیاسی جنگ شروع ہو چکی ہے جس کا انجام اچھا نظر نہیں آرہا کیونکہ تبدیلی سرکار کے پاس مخلص اور دیانت دار راہنماؤں کی کمی ہے جبکہ حالات مصالحت پسندی کے متقاضی ہیں اور حکومت حسب سابق بھول بھلیوں میں پڑی ہے مزید ہمارے نظام انصاف نے تبدیلی سرکار کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے
عمران خان جذباتی ہیں اور جذبات میں بہت کچھ بول جاتے ہیں جس کا انھیں خود احساس نہیں ہوتا اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے سیاسی مفادات کے نام پر بننے والے اکٹھ نے ریاستی باغیوں کا مقدمہ ایکبار پھر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ”اقتدار گراؤ“ مہم کا آغاز کر دیا ہے اس کے برعکس تبدیلی سرکار کی حکمت عملیاں اور ترجیحات سوالیہ نشان ہیں اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اندرون ملک عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان اور بدحال ہیں اور بیرون ملک اوورسیز پاکستانی کرونا کے بعد واپسی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں مگر کسی کو اپنی لوٹ مار اور عیش کے سوا کچھ نظر نہیں آتا خارجہ پالیسی اتنی کمزور ہے کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان نے مطالبات نہ مانے تو ردعمل کے طور پر پاکستان پر کئی طرح کی معاشی اور مالیاتی نوعیت کی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ ہم قرضوں میں بھی ریکارڈ توڑ چکے ہیں مجھے پھر ایک کہانی یاد آگئی میرے ملک کے حالات ہی ایسے ہیں ان کا نقشہ ماضی کے سبق آموز واقعات جیسا کھنچ جاتا ہے کہتے ہیں کہ ایک جنگل میں سر سبزپہاڑوں کا ایک سلسلہ تھا جس پر کبوتروں کا خاندان آباد تھے جو کہ نیچے وادی سے دانہ دچن لیتے اور سکون سے رہتے تھے بے فکری کیوجہ سے خوبصورتی میں بے مثل تھے ۔

(جاری ہے)

ایک دن وہاں سے ایک عقاب کا گزر ہوا اس نے جو اتنے موٹے تازے کبوتر دیکھے تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس ارادے سے ان کے گرد منڈلانے لگا کہ جھپٹا مارے اور لے اڑے مگر کبوتر بہت پھرتیلے تھے عقاب جب کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ بچ نکلتا عقاب نے بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا تو اسے ایک ترکیب سوجھی وہ کبوتروں کے پاس گیا اور کہا کہ میرے پیارے بھائیو اور بہنوں!تم مجھ سے کیوں ڈر رہے ہو جبکہ میں تمہاری طرح دو پیروں اور پروں والا پرندہ ہوں ہم سب آسمان پر اڑتے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ میں خود شکار کرتا ہوں جبکہ تم شکار ہو جاتے ہو کیونکہ تم قدرے چھوٹے ہو اور اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ہو یعنی کہ اگر میرا سارا خاندان اکٹھا ہو کر آجائے تو تم سب کابا آسانی شکار کر سکتا ہے مگر مجھے تم سے ہمدردی ہوگئی ہے اسلیئے میری خواہش ہے کہ تمھاری حفاظت کروں، تم پر صدیوں سے جو ظلم ہو رہا ہے میں اس کے خلاف ہوں ،تمھیں ایک خوشحال زندگی دینا چاہتا ہوں تاکہ آزادانہ گھوم پھر سکو آزاد فضاؤں میں سانس لے سکو اوردانے کی تلاش میں بھٹکنا نہ پڑے بلکہ میں خود تمھارے دانے کا انتظام کرونگا مگر یہ تبھی ممکن ہے جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو اور سب اختیار مجھے دے دو ۔

تم سوچ بھی نہیں سکتے پھر تم کس قدر سکون اور سہولت سے زندگی گزاروگے مگر کبوتروں نے رضامندی ظاہر نہ کی اسی طرح وہ مسلسل مائل کرتا رہا آخر کار کبوتر ایک دن مان گئے۔عقاب نے حلفاً کہا کہ وہ ان کی حفاظت دل و جان سے کرے گا اور الو ّ جو پاس درخت پر بیٹھا تھا اس نے بھی عقاب کی اچھائی کی بہت تعریف کی یوں کبوتروں نے آپسی مشورے کے بعد عقاب کو بادشاہ بنا لیا عقاب نیا ابتدائی طور پر ذمہ داری بخوبی نبھائی بلکہ جب جنگلی بلے کو ان کے ارد گرد گھومتے دیکھا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور مار بھگایا اب کبوتر بھی عقاب سے بہت خوش تھے مگر ایک دن عقاب نے دربار لگایا اور کہا :میرے بھائیو اور بہنو !تم جانتے ہو میں نے تمھاری حفاظت میں کبھی جان کی پرواہ نہیں کی اور تمھارے لیے مسلسل آزادی اور سکون کا ماحول فراہم کیا ہے لیکن میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں کہ میں کھائے پئیے بغیر اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا اور ویسے بھی یہ میرا شاہی حق بھی ہے کہ تم لوگ میری ضرورتوں کا خیال رکھو تم سب پر میرا ہی نہیں بلکہ میرے پورے خاندان کا حق ہے اگر وہ میرے ساتھ مل کر حملہ نہ کرتے تو میں اکیلا تمھارے دشمنوں سے نہیں لڑ سکتا تھا عقا ب نے یہ سب دیکھا تو ایک کبوتر کو دبوچا اور کھا گیا اور باقی سب چپ چاپ دیکھتے رہ گئے اب ہر روز ایسا ہوتا کہ عقاب اور اس کے خاندان والے آتے کبوتر پکڑتے اور لے جاتے ان سب کا چین وسکون ختم ہو گیا اور زندگی موت سے بد تر ہوگئی مگر وہ اپنے بیوقوفانہ فیصلے کیوجہ سے مجبور تھے یہی وجہ ہے کہ جب عقاب اور اس کا خاندان آتا تو وہ آنکھیں بند کر لیتے اور کہتے کہ یہی ہماری سزا ہے ۔

۔جی ۔۔قارئین کرام ! غلط فیصلوں کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے مگر ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے یہ غم کے بادل چھٹ جائیں گے اور طوطا چشمی کی سزا بھی ملتی ہے بہرحال منظر نامہ کہہ رہا ہے کہ بساط بچھ چکی ہے پرانے کھلاڑیوں نے پتے پھینک دئیے ہیں اور” اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ ،جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا“ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :