جعلی ڈگری ہولڈراور جاری کرنے والے قومی مجرم ہیں !

جمعہ 18 دسمبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توآپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چلّا کر بولا :لوگو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ۔لوگوں نے پوچھا :تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو تم کو یہ خبر کس نے دی ؟چرواہا بولا !جب تک امیرالمومنین زندہ تھے تب تک میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف و خطر پھرتی تھیں کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا ایک بھیڑ کو اٹھا کر لے گیا تومیں نے جان لیا کہ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں رہے ۔

ریاست کے طاقتور طبقے کی جراٰتیں بتاتی ہیں کہ میر کارواں کتنا صادق و امین اور انصاف پسند ہے اس کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
آپ تاریخ پاکستان کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں اور موجودہ حالات کا عمیق نظری سے جائزہ لے لیں آپ کو انتشار و بدامنی کا شکارعرضِ پاکستان ، آمریت و جمہوریت کے بیچ ہچکولے کھاتے معصوم عوام اور کروفر کا لبادھا اوڑھے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے جابر حکمران ہی نظر آئیں گے جو گزشتہ چوہتر برسوں سے ذاتی مفادات کی جنگ میں برسرِ پیکار ہیں اور عوام الناس ان بے ضابطگیوں پر شکوہ کناں ہیں مگر اس چھینا جھپٹی اور نااہل قیادتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وطنِ عزیز کے حالات ایسی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں جہاں سیاسی ،معاشی ،اقتصادی اور تعلیمی ایسے تمام شعبے بحران کا شکار ہیں ،حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے کہ مافیاز اور دیگر انتہا پسند عناصر نے حکومت ِ وقت کو بے بس کر رکھا ہے وہ جیسا چاہیں من مانی کاروائیاں کررہے ہیں اور کوئی حکمت عملی کارگر ثابت بھی نہیں ہورہی کیونکہ سیاسی اشرافیہ نے چوہتر برسوں سے جمہوریت کا نام اپنے مفادات اور عیش و عشرت کی خاطر انتہائی بے دردی سے استعمال کیا ہے اور قانون کی حکمرانی اور بلا تفریق فراہمی کا دعوی کاغذوں تک رہا ہے با ئیں وجہ اشرافیہ ہر قسم کے قانون سے آزاد اور خود مختار ہوچکے ہیں اور اپنے وفاداروں کو بھی یونہی مادر پدر آزاد ی فراہم کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پورے کا پورا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے مگر زیادتیوں کو کوئی کتنا برداشت کر سکتا ہے اور اس پر جب یہ راز افشا ہو کہ ان زمینی خداؤں کی اکثریت نا اہل اور نوسر باز تو ہے ہی مگر قابلیت بھی سوالیہ نشان ہے کہ موصوف جعلی ڈگری ہولڈر ہیں تو تشویشی لہر کا اٹھنا بجا ہے
چند برسوں سے سیاستدانوں کی جعلی ڈگریاں توزیر بحث رہیں اور ان پر نمائشی ایکشنز بھی دیکھے گئے کہ وہ لوگ مزید ڈھٹائی کے ساتھ انھی عہدوں پر ذمہ داریاں نبھاتے نظر آئے جہاں بد دیانتی اور جھوٹ کا سہارا لیکر تعینات ہوئے تھے پھر پی آئی اے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کو تو ایوان میں ڈسکس کیا گیااور آئے روز ڈاکٹروں کی بھی جعلی ڈگریاں پکڑی جاتی ہیں مگر اب تو حد ہی ہو گئی ہے کہ قانون و انصاف کی جنگ لڑ نے اور عوام کوانصاف دلانے کے بعض داعی بھی اس جعلسازی میں ملوث پائے گئے ہیں یعنی وکلاء برادری میں بھی بعض کالی بھیڑیں موجود ہیں اور ڈگریوں کے تصدیقی عمل کے دوران ایسا ایک جعلی ڈگری ہولڈر وکیل بے نقاب ہوا جس پر عدلیہ نے برہم ہو کر کہا ہے کہ وی سی اور دیگر نے بد نیتی پر مبنی کام کرتے ہوئے جعلی ڈگریاں جاری کیں اور تصدیق کے عمل میں بھی بد نیتی اختیار کی لہذا تمام ممکنہ کامیاب امیدواروں کی ڈگریوں کی دوبارہ غیر جانبدارانہ تصدیق کی جائے اور بوگس ڈگریوں کو منسوخ کیا جائے ورنہ وی سی ،رجسٹرار اور تمام ملوث افراد جیل میں ہونگے کیونکہ محسوس ہوا ہے کہ ان لوگوں نے ڈگریاں بیچی ہیں ،لگتا ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ نہیں بعض جرائم پیشہ افراد بیٹھے ہوئے ہیں اور اکیلے کلرک نہیں کھاتے بلکہ مال اوپر تک جاتا ہے ۔

(جاری ہے)


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جعلسازی اوپر سے شروع ہوتی ہے تبھی تو ایکشن نہیں لیا جاتا اب آپ خود سوچیں کہ جن لوگوں نے عدالت میں غلط رپورٹ پیش کر دی وہ کیا کچھ کرتے ہونگے اور جعلی ڈگری کا ایشو تو ایسا ہے جس پر معافی ملنا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔جعلی ڈگر ی اتنی غلط کیوں ہے تو عرض ہے کہ ڈگری یہ بتاتی ہے کہ اس کا حامل شخص کوئی خاص ہنر جانتا ہے اور اس میں دوسروں سے زیادہ قابلیت ہے ایسے میں جعلی ڈگری ہولڈرپوری ریاست کا مجرم ہے کیونکہ وہ اہل کی جگہ لے لیتا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر محکمے سے ایسے جعلی ڈگری ہولڈرز سامنے آرہے ہیں جو کہ اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں پر بیٹھے ہیں اور یہ سچ سامنے آنے کے بعد بھی اپنے منصب پر ہی پائے جاتے ہیں ۔

تو آج سوال یہ ہے کہ جعلی ڈگری کا مستقبل کیا ہے ؟ جعلی ڈگریاں جاری کرنے والوں کے لیے سزا کیا ہے اگر سزا موجود ہے تو اس کا اطلاق کیوں نہیں ہے ؟ جو استاد جعلی ڈگریوں کو فراہم کرنے کے لیے سہولت کار بن رہے ہیں ان کے پاس اپنے عہدوں پر رہنے کا کیا اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے ؟ کیا معزز جج صاحبان کے سخت ریمارکس ہی صرف سزا ٹھہریں گے یا ایسے ظالموں کو واقعی سزا اور سہولت کاروں کو عہدوں سے برخاست کرتے ہوئے دوسروں کو سبق دیا جائے گا ؟ مقام افسوس تو یہ ہے کہ جس امت کے پیغمبر نے اپنی ساری زندگی صادق اور امین بن کر گزاری ،جن کے نظریات کو اپنا کر مغربی اقوام کہاں سے کہاں چلی گئیں ،جس وطن کی اساس صداقت اور کردار کی بلندی تھی وہاں آج حکومت ،سیاست ،تجارت ،وکالت ،صحافت ، ملازمت اور تعلیم سب کچھ من مرضی اور مال بناؤ کی پالیسی پر گامزن ہے احساس بھی دم توڑ چکا ہے ،کارواں منتشر ہو چکا ہے اور جس کا جہاں دل چاہتا ہے خیمہ لگا کر اپنی اجارہ داری قائم کر لیتا ہے قیام پاکستان کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے حکمرانوں کی دینی و دستوری ذمہ داری تھی کہ وہ نو آبادیاتی نظام کی ازسر نو تعمیر اسلامی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے مطابق کرتے مگر حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھا اور عالمی استعمار سے وفاداری نبھاتے ہوئے اپنے عہد حکومت کو وقت ٹپاؤ پالیسیوں ،تشہیری منصوبوں اور عیش و عشرت میں گزارا مزید ایسے لوگوں کو نوازا جو ان کی جعلسازیوں اور لوٹ کھسوٹ کا دفاع کر سکیں اسی مفاد پرستی اور عیش کوشی کا نتیجہ ہے کہ جس کا بس چلتاہے وہ سب چلا لیتا ہے لہذانمائشی اور فرمائشی قیادت کو چھوڑ کر اسلامی اصول اور اسلامی قیادت کو اپنائیں ، غربت کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں اور نوسر بازوں اور جعلسازوں کا کڑا احتساب کریں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :