مجرم کون ہے ؟

پیر 2 اگست 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے دیے تو دیے دل بھی بھجے جا رہے،‘ہم کہاں سے چلے تھے کہاں آگئے ہیں ۔اس دور ترقی سے تو دور ماضی کہیں بہتر تھا جہاں زندگی بہت پر آسائش تو نہ تھی مگر سکون تو تھا ،اقداروروایات کی پاسداری تھی ،ایک عجب سرشاری تھی کہ دل مطمئن تھے اور سبھی سکون کی نیند سوتے تھے لیکن اب حکمران بھی عوام کو یہی واعظ کرتے ہیں کہ سکون صرف قبر میں ہے جبکہ اس وہم و گمان کی تردید بھی صدیوں پہلے مرحوم ذوق کر گئے تھے اور سچ یہی ہے کہ ۔

۔”اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے ۔۔مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے “۔ ہم تو اس دورمیں آگئے جہاں قبر بھی پیسوں سے ملتی ہے اور مردوں کو بھی جانور نہیں ذمہ دار انسان نوچتے ہیں اور درندہ صفت انسان کھلے عام گھومتے ہیں ۔

(جاری ہے)

عجیب پر آسائش دور ہے جس نے ہم سے احساس زیاں ہی چھین لیا ہے کہ ہر دو دن بعد ایک نیا دردناک سانحہ رونما ہوجاتا ہے جس کاماتم ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سانحہ ہو جاتا ہے اور ہم فراموش کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ مشینی دور نے ہمیں بھی مشین بنا دیا ہے تبھی تو کسی شاعر نے چوٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ” لوگ سانحہ در سانحہ جی لیتے ہیں ۔

۔ہم سے اک ترا بچھڑنا ہی سنبھالا نہ گیا ۔۔“یقینا نفسا نفسی کا وہ عالم ہے کہ فراموشی ہی مجبوری ہے تبھی تو نہ سانحات رکتے ہیں اور نہ ہی دردو غم کے بادل چھٹتے ہیں البتہ ایسی آگ لگی ہے جس کی لپیٹ میں پورا ملک آچکا ہے کہ جان و مال کے لالے پڑ گئے ہیں کہیں اندھی گولی آپ کو ہمیشہ کی نیند سلا سکتی ہے اور کہیں کوئی درندہ صفت وحشی آپ کی عزت و ناموس کو خاک میں ملا کر اندوہناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے کہ کہیں سانحے ملیں گے کہیں حادثہ ملے گا ۔

۔ترے شہر کی فضا سے مجھے اور کیا ملے گا ؟میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں بعض درندہ صفت مردوں کی حیوانیت کا شکار ہونے والی بچیوں کے درد و غم کو بیان کر سکوں ، ان چیخوں کو اپنے لفظوں میں سمو سکوں اور ان سسکیوں کو ایوانوں کے شہزادوں کو سنا سکوں جو انصاف نہ ملنے اور مجرموں کو آزادانہ گھومتا دیکھ کر فضاؤں میں گونجتی رہتی ہیں ۔مجھے وہ زنجیر عد ل نظر ہی نہیں آتی جو کسی عورت کا جنسی استحصال ہونے پر کھینچی جائے اور فریادیاد بادشاہ تک پہنچ جائے کیونکہ قاضی شہر کو تو ثبوت چاہیے اور ثبوت پیسوں سے بنا اور مٹا دیے جاتے ہیں ۔

مغربی تہذیب کے دلدادہ امیر زادوں کے لیے گواہان کو خریدنا اور وکیلوں کی ٹیمیں کھڑی کرنا کوئی بڑی بات نہیں تبھی تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی اپنی پریت کیلئے وکیل نہیں جج کرتے ہیں مگر کہنے سے کیا ہوتا ہے کیونکہ مقدمات کا فیصلہ تو ثبوتوں اور گواہان کے بیانات پر جرح سے ہوتا ہے اور وہی نہیں ملتے تو سزائیں کیسے ملیں ؟ایسے میں درندہ صفت وحشی عبرت کیسے پکڑ سکتے ہیں؟ صرف ایک زینب کے قاتل کو پھانسی پر چڑھانے سے انصاف کا بول بالا کیسے ہوسکتا ہے ؟ ہم جنسی استحصال کی سزا مقرر کرنے اور اسے یقینی بنانے کے لیے مزید کس قسم کے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں ؟کیا ماتم کرنے سے اور نوحے لکھنے سے سانحے ٹل جائیں گے ؟ سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے ۔

۔حبس جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے !
دکھ تو یہ ہے کہ ایسے دردناک سانحات پر معاشی رویے بھی افسوسناک ہیں کہ جسے دیکھو وہ مقتول کی غلطی ثابت کرنے کے ایسے جواز ڈھونڈتا ہے کہ مقتول بھی کہہ اٹھتا ہے ”ہم ایک نہیں سو بار مارے گئے ۔۔ہمیں جنون چڑھا تھا کسی پہ مرنے کا“ سچ تو یہی ہے کہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے ،یار دل تسلیوں سے کہاں مانتا ہے ۔

پہلے عثمان مرزا کیس نے پورے ملک کو دہلا دیا اور اب نور مقدم کے ہولناک قتل نے ہر کسی کو رلا دیا مگر وائے افسوس ۔۔ اکثریت نے بچیوں کو اور ان کے والدین کو قصوروار ٹھہرا دیا اور کہا جارہا ہے کہ ان سارے سانحات کے ذمہ دار ان والدین ہیں جو اپنے بچوں کو بے راہ روی سے نہیں روکتے اور جن کی پرورش آج بچوں کو اس نہج پر لے آئی ہے جہاں صرف تباہی ہے اگر وہ اپنے گھر میں دین کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں،اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں ، بچیوں کو ان کی اقدار و روایات سکھائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ جنس مخالف سے خفیہ اور آزادانہ تعلقات کی اجازت اسلام نہیں دیتا تو ایسے سانحات کبھی نہ ہوں کیونکہ اس وقت جتنی بھی خرابیاں اور اندوہناک قتل و غارت گری کے قصے سامنے آرہے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں جنس مخالف سے تعلقات کیوجہ ہی سامنے آرہی ہے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ آج ہمارے سبھی ڈراموں اور فلموں کا موضوع خفیہ تعلقات بنانے کیلئے عشق و محبت ہے اورجب آپ سر عام میڈیا پر حیا سوز ، غیر اخلاقی اورغیر شرعی ڈرامے اورفلمیں دکھا رہے ہیں جن میں ہیروئین ہیرو سے ملاقات کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرتی ہے ،کہیں پارکوں میں ،کہیں ریستوران میں ،کہیں گیسٹ ہاؤس میں اور کہیں کمبائین سٹڈی کے نام پر رنگ رلیاں مناتے دونوں کو دکھایا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسی ملاقاتوں کا انجام جسمانی تعلقات کی صورت بھی دکھادیا جاتاہے پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو سمجھا پائیں گے کہ مرد و عورت کے تعلقات کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں حالانکہ آپ جو دکھا رہے ہیں وہ سرا سر مغربی تہذیب ہے بلکہ اب تو شراب و شباب کی محفلوں کو ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے یہ بھی ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور اس پر پردے کے بیانات دیکر یوٹرن لینا واضح ظاہر کرتا ہے کہ میڈیا کی راہیں درست کرنے میں ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار ناکام ہوچکے ہیں اس لیے مان لیں کہ آپ نے ہماری نوجوان نسل کو تباہی و بربادی کے اس دہانے پر پہنچا دیا ہے جس کا انجام سوائے رزالت اور عبرتناک انجام کے کچھ بھی نہیں ہونے والااور یہی وہ زوال تھا جس سے مفکر پاکستان نے خبردار کر دیا تھا کہ” تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی ۔

۔جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا“انھی سب چیزوں نے آج ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مجرم کون ہے ؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :