پاکستان ہر طرح سے محفوظ ملک ہے !

ہفتہ 2 اکتوبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا مگر پھر بھی ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں بھارتی حکمرانوں سے اچھے تعلقات بنانے کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں ہر ممکن کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جبکہ بھارتی میڈیا سر عام پاکستان کے خلاف زہر اگلنے ،پاکستان مخالف پالیسیاں بنانے ، سازشیں کرنے اور دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔

ہم تو ایسے بھلکڑ ہیں کہ راہداریاں کھولتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ افغانستان میں اپنے قونصل خانوں میں پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی و جنوبی وزیرستان میں بھی دہشت گردی بڑھانے کا ذمہ دار بھی بھارت ہی ہے بظاہریہی لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہے مگردر پردہ اس نے روز اول سے ہم پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔

(جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر جس کی ایک کڑی ہے اور اب بین الاقوامی طور پر پاکستان کو غیر محفوظ ثابت کرنے کی مذموم کوشش بھی بے نقاب ہوچکی ہے کہ اس کا ذہنی فتور کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے ۔

یعنی نندن کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھارت کو جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑاتھا اس کے بعد اس نے انداز جنگ بدل لیا ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو جو دھمکی دی گئی اس کے تانے بانے بھارت سے مل گئے ہیں جن کے ثبوت وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس میں پیش کر کے مہر ثبت کر دی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ جو کبوتر جانے پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے وہ بھارتی میڈیا لب سیے کیوں بیٹھا ہے ۔


یہ بھی اچھا ہوا کہ سچ جلد سامنے آگیا ورنہ حکومتی وزراء، ترجمان اور ہمارے بعض میڈیائی باوے بے تکے بیانات داغے چلے جا رہے تھے اور عوام کو گمراہ کر رہے تھے ۔کسی نے کرکٹ ٹیموں کے دورہ منسوخی کو امریکی انتقامی کاروائیوں کا شاخسانہ قرار دیا،کسی نے کہا کہ جب امریکہ کو (Absolutely Not)کہیں گے توقیمت تو چکانا پڑے گی اور کوئی یوں گویا ہوا کہ اب آئندہ ایسی مزید کاروائیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

افسوسناک یہ ہے کہ عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافے پر پریشان تھے لیکن نان ایشو کو ایشو بنا کر اتنی تشویش پیدا کی گئی کہ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پورا ملک ماتم کدہ ہے۔ہماری عوامی اکثریت چونکہ کرکٹ سے جنونی لگاؤ رکھتی ہے اسلئے بعض حکومت نواز صحافیوں اور بعض دیگراں نے کرکٹ ٹیم دورہ منسوخی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جبکہ برطانوی اخبار ”دی ٹائمز“ لکھ رہا تھاکہ بورس جانسن ‘انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان دورہ منسوخ کرنے کے فیصلے پر ناراض ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے برطانیہ کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے ۔

برطانوی میڈیا نے مزید لکھا کہ طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے بھرپور مدد فراہم کی جبکہ افغان جنگ میں ان کا ساتھ دینے والے افغانیوں کو بھی وہاں سے نکالا ۔اب اسے مغرب کا دوہرا معیار کہیں جو عالمی طاقتوں نے ہمیشہ سے مسلم امہ کے ساتھ روا رکھا ہے یا مصلحت پسندی کہا جائے جو بھی ہے کم ازکم ہمارے بے سروپا بیانات سے لاکھ درجے بہتر ہے ۔

ہمارا تو یہ حال ہے کہ گڈ گورننس کا فقدان کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے پھر بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہم کار کردگی سے جیتیں گے یقیناگورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں صحافیوں ،دانشوروں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد میں جوگولڈ میڈل بانٹیں گئے ہیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گے۔
بہرحال پاکستان کو اندرونی ہی نہیں بیرونی محاذ پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کو مفادات کے بے رحمانہ کھیل سے فرصت ہی نہیں ملتی جبکہ سیاست دور اندیشی کا دوسرا نام ہے ۔

ہم ہر معاملے میں غیر سنجیدہ کیوں ہیں ؟کیوں نہیں سوچتے کہ کر کٹ سے پاکستان کی معیشت ،تعلیم ،صحت اور خوشحالی کیسے بہتر ہوسکتی ہے جبکہ الٹا سیکیورٹی اور کھلاڑیوں پر بے دریغ خرچ سے قومی خزانے کا ضیاع ہوتا ہے پھر عرصہ ہوا جیت کامنہ دیکھے! اور بھی تو کھیل ہیں جن میں خود کو ثابت کیا جا سکتا ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ اس ہتک آمیز سلوک کا جواب یہی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم آئندہ ماہ عرب امارات میں ہونے والے ٹی 20 کرکٹ عالمی کپ کو جیت کر دنیا پر ثابت کر دے کہ ہم کسی سے کم نہیں جوکہ کرکٹ کی موجودہ صورتحال میں ناممکن ہے۔

لہذا بہتر یہی ہے کہ خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں تاکہ دشمن قوتوں کے برے ارادوں کو بے نقاب کر کے کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کیا جا سکے ۔
پاکستان نے ایک طویل جنگ کے بعد دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا پایا ہے مگر بھارت جو کہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے اسے پاکستان کا امن و سلامتی ایک آنکھ نہیں بھا رہی اس لیے گھٹیا چالیں چل رہا ہے ۔

۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ مغربی دنیا اس خطے میں خاص دلچسپیاں رکھتی تھی جو کہ سقوط افغانستان کے بعد تشنہ آرزوئیں بن گئی ہیں تو انتقاماً کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلیے اب خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہترین پالیسی سازی ،معاملہ فہمی اور بہت زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔باقی جہاں تک بات امن و سلامتی کی ہے تو اس معاملے میں پاکستان خوش نصیب ہے کہ دنیا کی بہترین افواج پاکستان کی محافظ ہیں اورآرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے پاکستا ن میں متعین یونان کے سفیر سے ملاقات کے دوران اس حقیقت کا اعادہ بھی کیا ہے کہ پاکستان عالمی شراکت داروں کے ساتھ خطے میں پر عزم ہے اور ہر طرح کے کھیلوں ،سیاحت اور کاروبار کے لیے محفوظ ملک ہے ۔

پاکستانی سپہ سالار کی طرف سے دیا گیا یہ بیان ان دشمن ملک قوتوں کے لیے واضح پیغام ہے جو پاکستان کو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں جانچتے اور غیر محفوظ ہونے کی بے سروپا باتیں پھیلاتے ہیں تاکہ اس کے مفادات کو نقصان پہنچے ۔خاص طور پر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے پاکستان میں دورہ منسوخی کرنے کے حوالے سے یہ بیان اور بھی اہم ہے باقی بین الاقوامی اور مقامی طور پر بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں ایسے میں دور رس حکمت عملیاں ہی استحکام کی ضمانت ہوسکتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :