غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

جمعرات 20 اگست 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ چند گاوٴں اور ان کی مضافاتی بستیوں کے باسیوں پر مشتمل یہ قافلہ قسمت پور جارہا تھاجس کا فاصلہ مقامِ روانگی سے تقریباً تیس کوس تو ضرور ہوگااور یہ فاصلہ انھوں نے اپنی بیل گاڑیوں ، گدھا گاڑیوں اور اونٹ گاڑیوں کے ذریعے ہی طے کرناتھا کیوں کہ ان دنوں صرف یہی ذرائع آمدورفت میسر تھے۔قسمت پور کیونکہ قریب ترین منڈی تھی اس لیے ہرسال یہ سیدھے سادہے دیہاتی اپنی سال بھر کی کمائی اناج،گیہوں، گڑ، شکر، دستکاری کے شاہکار، مٹی کے برتن وغیرہ اپنے اپنے گڈوں میں لاد کر ایک کارواں کی شکل میں اکٹھے ہوکر سرِشام روانہ ہوجاتے تا کہ وہ علی الصبح منڈی پہنچ کر جتنی جلدی ممکن ہو اپنا مال فروخت کرسکیں اور اس کے عوض ملنے والی رقم سے اپنی دوسری ضروریات کی چیزیں خرید کر اگلی رات ہونے سے قبل ہی اپنے گاوٴں اور بستیوں میں لوٹ جائیں جہاں ان کے گھر کے باقی ماندہ افراد بڑی بے چینی سے ان کے منتظر ہوا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

اس بار بھی حسبِ معمول کارواں روانہ ہوا تو ان کے معمر افراد نے انھیں خیر و عافیت سے گھر واپس لوٹ آنے کی ڈھیروں دعاوٴں کے ساتھ رخصت کیا ۔ ستر کے قریب گڈوں پر مشتمل یہ طویل قافلہ جب روانہ ہوا تو مسافروں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ بیلوں اونٹوں کے گلے میں پڑی گھنٹیاں فضا میں موسیقی بکھیرنے لگیں۔ بچوں کی کلکاریاں ، ناریوں کے مد بھرے گیت اور مردوں کی بولیوں سے جلترنگ بجنے لگے ۔

پھر رات نے آہستہ آہستہ تاریکی اوڑھ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے چار سو اندھیرا چھا گیا۔بچے بھی ہلا گلا کرکے تھک کر سوگئے۔ اب ناریوں کے سریلے نغمے بھی دھیمے پڑنے لگے۔ نیند نے انھیں بھی اپنی آغوش میں لے لیا ۔ البتہ جرسِ کارواں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی گاڑی بانوں کے ہنکاروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو اپنے بیلوں کو ہانک رہے تھے جلد سے جلد منزل پر پہنچنے کے لیے ان کی رفتار کو مہمیز کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا۔ ستاروں بھری رات چاند کے بغیر اجڑی مانگ والی بیوہ کی طرح ہولناک ہو تی جا رہی تھی۔ قمری مہینے کا آخری ہفتہ چل رہا تھا اس لیے ممکن نہیں تھاکہ چاند نکل کر اندھیری رات میں کچھ ضیا پاشی کر ے تاکہ اہل کارواں کے لیے اندھیرے کے خوف سے نجات کا کچھ توسامان پیدا ہو ۔ آخر ہنکارے بھی تھک کر اور نیند سے چور پیچھے آکر کمر سیدھی کرنے کو لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر بعد ان کے خرانٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔

سب سے آگے شرما جی کی بیل گاڑی تھی جس کواعلیٰ نسل کے دو خوبصورت اور موٹے تازے بیلوں کی جوڑی کھینچ رہی تھی۔ بیلوں کے پیچھے گڈے میں نچلی طرف ایک طاق میں لائنٹین رکھی ہوئی تھی جس کی مدھم روشنی بیلوں کو راستے پر رکھنے کے لیے کافی تھی۔اس بیل گاڑی کی حیثیت ایسے ہی تھی جیسے کسی ریل گاڑی میں انجن کی ہوتی ہے۔ اور باقی قافلہ اسی کی لکیر کا فقیر بنے منزل کی طرف رواں دواں تھا۔

شرما جی اور ان کا کارخاص منوہر آپس میں باتیں کرنے لگے اور تھوڑی دیر بعد ان کاہنکارہ بھی گڈ میں آ بیٹھا۔ شرما جی نے پوچھا تھک گئے ہو کیا؟ اس نے کہا جی تھوڑی سی کمر سیدھی کرنے آیا ہوں پھر چلا جاوٴنگا۔ اس نے اتنا کہااور لیٹ گیا تھوڑی ہی دیر میں اس کے خرانٹے سنائی دینے لگے۔ شرما جی نے محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیئے ۔

شرما جی اہل علاقہ کی ہر دلعزیز شخصیت تھی ان کی موجودگی لوگوں کو عدم تحفظ کا احساس نہیں ہونے دیتی تھی۔ شرما جی نے دوگھڑ سواروں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی جو قافلے کے پیچھے آخری گڈ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے تاکہ پیچھے سے آکر کوئی چور ڈاکو لوٹ نہ لے ظاہر ہے سنسان علاقے اور اندھیری رات میں کسی بھی قافلے کے لٹ جانے کا یاکسی جنگلی جانور کے حملے کا امکان تو ہوتاہے۔

یوں توہر گڈ میں لوگوں کے پاس لاٹھیاں ، ڈنڈے موجود تھے تاکہ کسی حملہ آور سے بوقت ِ ضرورت نبٹا جا سکے مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ سویا مرا ایک برابر۔البتہ اگلی طرف سے لٹ جانے کا کبھی کسی کوشائبہ تک بھی نہیں ہوا تھا کیوں کہ اہل کارواں کو پتہ تھاکہ شرما جی کے پاس ایک عدد بندوق بھی ہے اور ان کانشانہ کبھی نہیں چوکتا ۔ شرما جی نے منوہر کو حکم دیا کہ کھڑے ہوکر قافلے کا جائزہ لے۔

منوہر اٹھ کرکھڑا ہوگیااور قافلے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور یہ کہہ کر اطمینان سے بیٹھ گیاکہ حجور سب ٹھیک ہے ۔ بھگوان نے چاہا تو ہم سورج نکلنے سے پہلے اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ شرما جی اور منوہر پھرباتوں میں مشغول ہو گئے وہ منڈی پہنچ کر خریدوفروخت کے بعد جلد سے جلد واپسی کی منصوبہ بندی کرنے لگے اس دوران منوہر کچھ دیر بعد اٹھتا اور بیلوں کی طرف منہ کرکے ' ہونہہ ہونہہ' کرتا اور بیٹھ جاتاتاکہ بیلوں کو احساس رہے ان کا ہنکارہ جاگ رہا ہے۔

رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ منوہر نے دیکھا کہ شرما جی جو ٹیک لگائے بیٹھے تھے اونگھنے لگے ہیں۔ اس صورت حال میں منوہر کے لیے جاگنا اور بھی ضروری ہوگیا تھا کیونکہ اس کی تھوڑی سی غفلت قافلے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی اس احساس ذمہ داری نے اس کی نیند اڑادی تھی۔اس لیے وہ وقفے وقفے سے اٹھ کر بیلوں کو ہانکتا اور بیٹھ جاتا۔ شرما جی کوبرابر نیند کے لٹکے آ رہے تھے۔

قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھامگر اہلِ کارواں اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ تین گھوڑ سوار دائیں جانب کچھ فاصلہ رکھ کر کارواں کے ساتھ ساتھ محو سفر ہیں۔ وہ چورتھے انھیں لوگوں کے مال واسباب سے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو مویشی چور تھے۔ انھوں نے دن کی روشنی ہی میں سارے کارواں کا جائزہ لے لیا تھا۔ چوری کے لیے انھوں نے شرما جی کے ایک بیل کا انتخاب کیا تھا۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنے میں بہت خطرہ ہے پھر بھی شرما جی کے بیل کے علاوہ کوئی جانور ان کی آنکھوں میں جچا ہی نہیں جب چوری کرنی ہے تو کسی دبلے پتلے مریل سے جانورکی کیوں!کیوں نہ شرماجی کا اعلیٰ نسل کا موٹا اور فربہ بیل چرایا جائے! اور اس کے لیے انھوں نے ترکیب بھی سوچ لی تھی۔اپنے منصوبے کو پایہِ تکمیل تک پہچانے لیے انھوں نے رات کا پچھلا پہر چنا تھاکیونکہ اس وقت تک زیادہ تر لوگ سو چکے ہوتے ہیں۔

ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ میں جاوٴنگا پنجالی سے بیل کھول کر اس کی جگہ میں خود جُت جاوٴنگا تاکہ قافلہ چلتا رہے اور قافلے والوں کو بیل چوری ہونے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ تم بیل لے کردور نکل جانا اور فلاں جگہ پر رک کرمیرا انتظار کرنا میں موقع پاکر نکل آوٴنگا اور تمھارے ساتھ شامل ہو جاوٴنگا۔ پھر ایسے ہی ہوا اس نے بھاگتے بھاگتے بیل کھولا اس کی رسی اپنے ساتھیوں کو تھمائی جو اسے لے کر جنگل میں غائب ہوگئے اور خود پنجالی میں جت گیااور دوسرے بیل کے ساتھ رفتار ملا کر بھاگنے لگا۔

قافلے والوں کے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کابیل چوری ہوچکا ہے۔اس بار منوہربیلوں کو ہانکنے کے لیے اٹھا توبیل کی جگہ ایک آدمی کو جتے ہوئے دیکھ کرہکا بکا رہ گیااسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ جلدی سے بیٹھ گیا اور شرماجی کو جھنجھوڑا ۔ اس سے پہلے کہ شرماجی ایسا کرنے کی وجہ سے کچھ کہہ پاتے اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیا اور ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے سارا ماجرا کہہ سنایا۔

شرما جی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ اٹھے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کرمنوہر کوخاموش رہنے کا اشارہ کیاہاتھ میں بندوق تھامی اور چور پر تان لی۔ وہ غور سے چور کی حرکات دیکھنے لگے تو دیکھتے ہی چلے گئے منوہر کو سمجھ نہیں آرہی تھی شرماجی گولی کیوں نہیں چلا رہے! اس وقت تو اس کی حیرانی کی انتہا ہوگئی جب انھوں نے اپنی بندوق نیچے کی اور اسے نیچے بیٹھ جانے کو کہااورخود بیٹھتے ہوئے آواز کو بلند کرکے کہا" فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اگر غیرت مند ہوا تو منزل تک پہنچاکر ہی دم لے گا" شرماجی کی آواز جب چور کے کانوں سے ٹکرائی تو شرم سے پانی پانی ہوگیا اس کی غیرت کوللکارا گیا تھااور پھر اس کی غیرت جاگ اٹھی ۔

اس نے اپنے منہ سے کچھ ایسی آوازیں نکالیں جن کو اس کے ساتھی ہی سمجھتے تھے۔ وہ انھیں بیل واپس لانے کے لیے کہہ رہا تھا۔ کچھ دیر میں اس کے ساتھی بیل لے آئے اس نے بیل کو اس کی جگہ جوتا اور خود وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں غائب ہو گیا۔ پَوپوٹھ رہی تھی۔ قافلے والے نیند سے جاگنے لگے۔ شرماجی اور منوہر نے اٹھ کر دیکھا تو بیل اپنی جگہ موجود تھا دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔

قافلہ کچھ دیر بعد قسمت پور منڈی پہنچ کر رک گیا۔ اہلِ کارواں اپنی منزل مقصود پر پہنچ چکے تھے
قارئین اکرام! جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے اس دن ہم اپنا 73 واں یوم ِ آزادی منارہے ہونگے یا منا چکے ہونگے۔ ہم سات دیہائیوں سے وطنِ عزیز میں طاقت و اقتدار کے کھیل کو دیکھتے آرہے ہیں ۔ صدارتی نظام بھی دیکھا اور مارشل لاء اور جمہوریت کی آنکھ مچولی بھی ۔

سب اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ڈھیروں دولت جمع کرنے میں لگے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھرب پتی ہوگئے اک نہیں بدلی تو عوام کی قسمت نہیں بدلی۔کیونکہ نظام کوئی بھی ہو عوام حکمرانوں کی ترجیح کبھی نہیں رہے ۔ البتہ وہ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی روشن خیالی کے نام پر کبھی صوبائیت تو کبھی لسانیت کبھی فرقہ واریت تو کبھی برادری ازم کے نام پرہمارے جذبات سے کھیلتے رہے ۔

دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک سے غداری کے بھی مرتکب ہوئے۔ نظام عدل ان کے اشاروں پر ناچتا رہا۔ غیرت تو بڑی دور کی بات ہے ان کو اپنے کیے پر شرمندگی تک محسوس نہیں ہوتی۔ یوں سارا ملک مافیا کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔اس دوران ہمارے بعد آزادہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

ایک بارپھر نظام بدلنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ہزار نظام بدلیے پر اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔ آج ہمیں رک کر سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر خود سے سوال کرنا ہوگا کہ آخر ہمیں چاہیے کیاہے؟ ہمیں نہ صدارتی نظام چاہیے نہ پارلیمانی جمہوریت نہ مارشل لاء ہمیں تو ایک ایسا مردِ غیرت مند چاہیے جو غیرتِ ملّی کا حامل ہو چاہے کوئی جرنیل ہو یا بیوروکریٹ، کوئی سیاستدان ہو یا مذہبی سکالر کوئی جج ہو یا قانون دان ،دانشور ہو یا کوئی صحافی، پروفیسر ہو یا کوئی استاد، کوئی امیر ہو یا غریب چاہے عمران خاں ہو یا کوئی چور! اگر مل گیا تو دیکھنا وہ ہمیں منزل پر پہنچا کر ہی دم لے گا۔بس شرما جی جیسی دوراندیشی کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :