آوٴ اپنے حصے کا کام کریں

اتوار 23 جنوری 2022

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

حق و باطل کی جنگ ازل سے شروع ہوئی ابد تک جاری رہے گی امتحان ہم بندوں کا ہوتا ہے کہ ہم فی زمانہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم ملکی معاملات کا ادراک کرتے ہوئے سنجیدگی سے اندرونی و بیرونی صورتِ حال کا جائزہ لیں اور دیر ہونے سے قبل ہی اپنی مطلوبہ منزل کا تعین کر لیں کیونکہ بہت جلد ہمیں قوموں کی امامت کافریضہ سونپا جانے والا ہے مگر اس سے پہلے فطری تقاضے پورے کرتے ہوئے صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنا بھی ضروری ہے کیوں کہ ان خصائلِ حسنات کے بغیر رہبری کرنا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہو گی کیونکہ یہی قانونِ قدرت ہے اور قدرت اپنا قانون بدلا نہیں کرتی۔


حالیہ جاری کی گئی نیشنل سیکورٹی پالیسی آف پاکستان 2022-2026 اور 17 جنوری کووزیرِ اعظم پاکستان محترم عمران خان کے چھپنے والے کالم سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ریاست کی سلامتی کے ضامن ادارے اور ذمہ دار ان سنجیدگی سے نہ صرف ملکی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ اب ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔

(جاری ہے)

عوام کی جان و مال کی تحفظ اور ملکی معیشت کے استحکام کوسیکورٹی پالیسی کا حصہ بنایا جانا یقیناً قابل تعریف ہے۔

اگرچہ یہ قلیل المعیاد منصوبہ بندی ہے مگر اس کے نتائج ان شاء اللہ دور رس ثابت ہونگے۔ سیکورٹی پلان کی تمام شقوں کو جن اصولوں کی روشنی میں رائج کیا جائے گا وزیراعظم کے کالم میں ان کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ وزیرِ اعظم نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر استوار کرنے کے لیے پانچ بنیادی اصول بیان کیے ہیں جن میں توحید، قانون کی حکمرانی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تحت عوام کی اخلاقی تربیت،اجتماعی ترقی اور علم کی جستجو شامل ہیں۔

حسبِ توقع اپوزیشن کا خصوصاً (ن) لیگ کا اس پر شدید ردِعمل بھی آیا ہے جس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مقصود نہیں ہے اسے کسی اور کالم کے لیے چھوڑے دیتے ہیں۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے خلاف بکاوٴ میڈیا کے ذریعے ایک منفی پروپیگنڈے کی مہم شروع ہو چکی تھی کیونکہ عالمی استعماری قوتیں اور مقامی مافیا جن کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بھانپ چکے تھے کہ اگر یہ بندہ اقتدار میں آیا تو ہمارے نظام کا دھڑن تختہ ہو جائے گاشیطانی نظام نے اپنے ازلی طریقہ واردات کے مطابق اپنی ساری غلاظت اور گندگی اس مردِ مجاہد پر پھینک کر دیکھ لی ہے مگر اس کی استقامت اور قوتِ ارادی بتا رہی ہے کہ وہ ندامت کی اس مشکل گھاٹی کو بھی کامیابی سے عبور کر لے گا جو تائید ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔

جب وہ ریاستِ مدینہ کا نام لیتا ہے یہودوہنودکے ایوان تو لرزتے ہی ہیں ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں موجود کرپٹ بونے سیاستدان اور ان کے گماشتے، دین کے جھوٹے دعویدار ملاں ، علی علی کرنے والے دنیا کے طالب نام نہاد ملنگ ،سسٹم کے نوازے ہوئے بیوروکریٹس اورلوگوں کی چراغی سے جمع کی گئی دولت سے اپنے لیے عیش و نشاط کے سامان پیدا کرنے والے پیرزادوں کو اپنے پاوٴں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔


جان بوجھ کر تعلیمی طور پر پسماندہ رکھی جانے والی قوم کے فکر و شعور کی سطح اس درجے پر ابھی نہیں پہنچی کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کر سکیں۔ تعداد میں کم سہی مگر صاحب علم اورصورتِ حال کا ادراک رکھنے والے لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو آگے بڑھیں اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اپنی عوام کی ہر پلیٹ فارم سے تربیت کرنے میں جت جائیں۔ انہیں اصل حالات سے آگاہ کریں ۔

عمران خان اس کرپٹ نظام کوننگا کر کے اپنے حصے کا کام کر چکے ہیں۔ثابت ہوگیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے لوگ عوام کے نمائندے نہیں بلکہ ملکی وسائل پر قابض مافیا کے گماشتے ہیں جس سے وہ اپنا حصہ بقدر جسّہ وصول کرتے ہیں اور یہی ان کی منزل مقصود ہے چاہے ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے۔ مہنگائی کا مسئلہ حقیقی ہے مگر وزیرِ اعظم سے مہنگائی کم کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے مہنگائی کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کو ہر صورت میں روکا جائے مہنگائی سے چھٹکارا صرف اور صرف اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کرکے ہی پایا جا سکتا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح قرض لے کر بڑا حصہ ہڑپ کرنے اورباقی سے عوام کو سبسڈی کا انجیکشن دے کر خوش کرنے کے فراڈ طریقے کو اپنانا اب ہم افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ استعماری قوتوں کی خواہشات کے مطابق قرض تلے دب کر وطنِ عزیز کا دیوالیہ ہونے اور ایٹمی اثاثوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا ۔

قرض کی واپسی کے لیے سنجیدہ اور بھرپور جدوجہد کی جائے اور عوام بھی اس جدوجہد میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنا کردار ادا کرے کیونکہ یہ ملک صرف عمران خان کا نہیں ان کا بھی ہے۔ حقوق مانگنے سے پہلے اپنے فرائض کو بھی مدِ نظر رکھیں۔ اب ہمیں اسلامی صدارتی نظام کے حق میں آواز بلند کرکے اس ابلیسی سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

وہ لوگ جنہیں اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے اپنے اپنے علاقوں میں مہنگائی سے متاثرہ طبقے کی دل کھول کر مدد کریں۔ قوموں پر مشکل حالات آتے رہتے ہیں جس سے اجتماعی سوچ و فکر سے نبٹا جا سکتا ہے۔ملک دشمن عناصراور کرپٹ ایلیٹ کے پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں۔ ناشکری اللہ کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان ایک معجزہ اور پاکستانیوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا تحفہ ہے اس کی تکریم کیجیے۔

وزیر اعظم کی زبان سے ریاستِ مدینہ کا نام سن کر چِڑنے والے اور ماتھے پر تیوریاں ڈالنے والے کسی طور بھی نہ وطن کے خیرخواہ ہیں اور نہ ہی اسلام کے۔ وزیرِ اعظم اپنے حصے کا کام کر چکے اب ہماری باری ہے ہم نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے کیونکہ حق و باطل کی جنگ ازل سے شروع ہوئی ابد تک جاری رہے گی امتحان ہم بندوں کا ہوتا ہے کہ فی زمانہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں! ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :