دیکھ کبیرا رویا

پیر 6 جولائی 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

پرویز مشرف کی چند باتیں یاد آتی ہیں تو وطنِ عزیز کی قسمت پہ رونا آتاہے۔ انھوں نے ’سب سے پہلے پاکستان ‘ کا نعرہ لگا یااور’ ہمیں باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے ‘جیسی باتیں بتا کر پاکستانی قوم کو اشارے کنایوں میں کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی جسے مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی سمجھنے سے قاصر رہے خاص طور پر اندر سے خطرے والی بات۔

ان کی آخری تقریر کے الفاظ توآپ کو یادہوں گے ’ اب پاکستان کا خدا ہی حافظ!‘ ان کی آواز میں چھپا درد اہلِ نظر نے ضرور بھانپ لیا ہوگا۔ پتہ نہیں کتنے لوگوں نے ان کے خدشات کو سمجھا ہوگا؟ لیکن میرے سر پہ بھی اس وقت بطور سول سوسائٹی کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے جمہوریت کی بحالی اور آزاد عدلیہ کا بھوت سوار تھا۔ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘جیسے نعروں نے مسحورکیا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

لگتا تھا جمہوریت بحال ہوتے ہی تمام مسائل حل ہوجائیں گے عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ہی ہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ میرٹ پر لوگوں کو ان کا حق دیا جائے گا آئین و قانون کی بالا دستی ہوگی پولیس گردی ختم ہوجائے گی تھانہ سیاست کا خاتمہ ہوگا اور عوام کو سکھ کا سانس ملے گا۔ اس دور میں پرویزمشرف کے حامی ملک دشمن دکھائی دیتے تھے لیکن جب آنکھ کھلی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

دشمن نے وطنِ عزیز کو لخت لخت کرنے کے لیے پوری طرح اندرونی ایجنٹوں کے ذریعے اپنے پنجے گاڑ دیے تھے ۔ نائن الیون کے بعدبدخواہوں نے ۲۰۱۵ء تک پاکستان کے ٹوٹنے کی پیش گوئی اور نئے نقشہ جات تک جاری کردیے تھے۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت کے ساتھ اس کھیل کا آغاز ہوا ۔ دشمن کو اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کی جلدی بھی تھی۔ سب سے پہلے اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پرویز مشرف کو مواخذے کے دھمکی کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیااور پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جس کا کسی پاکستانی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا جناب آصف زرداری ایک جعلی وصیت کو بنیاد پر نہ صرف پاکستانی پیپلزپارٹی پر قابض ہوگئے بلکہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ ریاستی عہدے یعنی کرسیِ صدارت پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

جمہوری تماشہ شروع ہو چکا تھا۔ ماضی کے سب حریف غیر متوقع طور پر باہم شیروشکر نظر آئے یعنی اپنے غیر ملکی آقاوٴں کی طرف سے دیے گئے میثاق جمہوریت کے ایجنڈے پرعمل درآمد شروع کر دیا۔ نظریاتی سیاست کو دفن کردیا گیادائیں بازواور بائیں بازو کا تصور اختتام کو پہنچا اور سب سرخے سبزے ایک ہی طرح کی بولی بولنے لگے۔ نجم سیٹھی، عاصمہ جہانگیر، حامد میر، جاوید چودھری ، عرفان صدیقی، پرویز رشید، فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو، مولانا ساجدمیرسب کے سب ایک ہی راہ کے مسافر بن گئے بقولِ میر تقی میر#
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
بیرونی آقاوٴں نے ان کے ذمے پاکستانی معشیت کو تباہ و برباد کرکے دیوالیہ کرنا اور افغانستان اور انڈیاکو پاکستان پر اپرہینڈ دینا لگایاتھا ۔

لہذا ہم نے دیکھا کہ افغانستان کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی زرداری کی صدارتی حلف برداری کی تقریب کے مہمانِ خصوصی ٹھہرے۔ اور اسی طرح نواز شریف کے دور میں مودی سے پینگے بڑھانا جندال کے ساتھ مقتدر حلقوں سے بالا بالاذاتی دوست کی حیثیت سے ملاقات کرنااسی پلان کا حصہ تھا۔پی پی اورن لیگی دس سالہ دور میں تسلسل سے پیش آنے والے واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا استعفٰی، میموگیٹ سکینڈل، آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کا خاتمہ اور اسے پارلیمنٹ کے ماتحت کر نے کے لیے بل کا پیش ہونا، ۵۸ ٹوبی کا خاتمہ کرکے پارلیمنٹ کو مطلق العنان بنانا، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کی اکائیوں کو تقسیم کرنے کی سازش ، بلیک واٹر کوپاکستان میں فعال کرنے کے لیے امریکیوں کو بے دریغ ویزوں کا اجراء، سندھ میں ایم کیو ایم اور پی پی کا حیرت انگیز اتحاد، آئی ایم ایف سے قرض لے کر اسے غیر منافع بخش پروجیکٹس پر لگانا، اپنے رشتوں داروں اور دوستوں کو نوازنا، منی لانڈرنگ اور چائینہ کٹنگ کے ذریعے اپنے اثاثوں میں اضافہ کرکے پاکستانی خزانے پر ڈاکہ ڈالنا، کلبھوشن کے بارے میں نواز شریف کی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہونا، ان پاکستان میڈیا ہاوٴسز کو نوازنا جو ملک دشمن ایجنڈہ پر کام کر رہے تھے، اپنی شوگر ملز میں انڈین کو نوکریاں دے کر پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی کوشش کرنا، نوازشریف کا وزارت ِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنا، پانامہ آنے کے بعد منی ٹریل دینے کی بجائے جھوٹ پر جھوٹ بول کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرنا، ملک میں افراتفری مچانے کے لیے جلسے جلوس کرنا، مقتدر حلقوں کو راز کھولنے کی دھمکیاں دے کر بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا، ڈان لیکس سکینڈل ، مہنگے داموں قطر سے ایل این جی خریدنے کی ڈیل ، اسحاق ڈار کا ملک کے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھ کر خطرناک شرائط پرآئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش کرنا غرض پاکستان اور اس کے اداروں کو کمزورکرنے کی ہر وہ کوشش کی گئی جو ان کے غیر ملکی آقاوٴں نے ان کوبطور ذمہ داری سونپی تھی۔

اس عرصے میں ڈالر چھیاسٹھ روپے سے ایک سو چالیس روپے تک پہنچ چکا تھا۔ قوم کو آٹا، چینی ، پٹرول کے بدترین بحرانوں کا سامنا تھا۔ لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا تھا بس فرق اتنا تھا زرداری کے دور میں سندھ میں لوڈشیڈنگ کم تھی اور نواز شریف کی حکومت میں پنجاب میں کم۔ اس لیے سندھ میں زرداری زندہ باد اور پنجاب میں نواز شریف زندہ باد تھا۔

دشمن کے منصوبے میں بظاہر کوئی جھول نظر نہیں آرہا تھا۔ امریکا، انگلینڈ اور اسرائیل پاکستان کو گھیر چکے تھے مغربی محاظ پر امریکہ اپنے نیٹوکے اتحادیوں کے ساتھ موجود ہونے کے ساتھ افغانستان میں انڈیا کے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا تھا۔ انڈیا امریکا کی شہہ پر علاقے کا چودھری بننے کا خواب دیکھنے لگاتھا۔ پاکستانی طالبان ، بی ایل اے اور دوسری پاکستان مخالف علیحدگی پسندگروپوں کے ذریعے پاکستانی عوام کے خون سے ہولی کھیلیجا رہی تھی۔

شہر شہر نگرنگر عوام کے اجتماعات پر بم دھماکوں کانہ ختم ہونے والا ایک سلسہ شروع ہوگیا۔ مسجدیں، مزارات، امام بارگاہیں اوربڑے شہروں کی پررونق بازاروں کے ساتھ ساتھ دفاعی نوعیت کے مقامات پولیس، ایف سی اور فوج بھی ان کا نشانہ بننے لگے۔ملک بھر میں عورتوں ، بچوں اور مردوں کو پل بھر میں خون میں نہلا دیا جا تا۔ کراچی میں روزانہ سینکڑوں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے تھے ۔

سیاسی رہنما جھوٹ موٹ کا غصہ اور سیاسی بیان دے دلا کر رات کو پھر شیروشکر ہوجاتے۔ پوری ایمانداری سے مل بیٹھ کر کھا رہے تھے۔ کون کہتا ہے ہمارے حکمران ایماندار نہیں تھے ذرا امریکہ، اسرائیل اور انڈیا سے تو پوچھ کر دیکھیے وہ یقیناان کی ایمانداری کا دم بھرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ قارئین ۱کرام! یوں جسے ہم ملک کو چلتا ہوا سمجھ رہے تھے دراصل پہلے اسے روکا گیا اورپھر بیک گئیر لگا دیا گیا ملک چلنے لگا مگر الٹا! بھلا ہویار لوگوں کا کہ بروقت سازشوں کو بھانپ کر ملک کو سنبھال لیا۔

اب عمران خان وزیر اعظم ہیں اورملک نے دھیرے دھیرے چلنا شروع کیا ہے تو ہر طرف یہی شور ہے کہ ملک نہیں چل رہا! پہلے ہمیں کہا جاتا تھا ڈومور! اب ہم کہہ رہے ڈو مور! شور ہے ملک نہیں چل رہا! ضابطہ تھا تیل کی قیمت زیادہ ہونے پر مہنگائی بڑھتی ہے اور قیمت کم ہونے پرگھٹتی ہے لیکن اب قیمت کم ہونے کے باوجود مہنگائی نہیں گھٹتی بلکہ تیل کی سپلائی روک لی جاتی ہے یعنی مافیا رد عمل دکھا رہاہے۔

شور ہے کہ ملک نہیں چل رہا! تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈان امریکا کی بجائے میڈ ان پاکستان حکومت ہے جس پر انڈیا سمیت سب دشمن سیخ پا ہیں اور شور ہے کہ ملک نہیں چل رہا! کرونا کی وجہ سے غیر معمولی حالات ہیں مگر شور ہے ملک نہیں چل رہا! ڈونکی راجہ سے بات ارتغل غازی تک جا پہنچی ہے شور ہے ملک نہیں چل رہا ! مافیا اپنا آخری زور لگا رہا ہے لیکن ہاراس کا مقدر ٹھہرچکا ہے۔

دیس چل رہا ہے اور چلتا رہے گا چاہے اس بوسیدہ نظام سے وابستہ مفادپرستوں کو کتنا ہی ناگوار گذرے۔جب نہیں چل رہا تھا تو سمجھتے تھے چل رہا ہے اب چل رہا ہے تو سمجھ رہے ہیں نہیں چل رہا۔ اس میں ہمارا بھی کیا قصور ! ہر زمانے میں لوگوں کا وطیرہ یہی رہا ہے!اس صورت حال کی عکاسی مشہور شاعر کبیرداس نے یوں کی ہے!
رنگی کو نا رنگی کہے، جلے مال کو کھویا
چلتی کو گاڑی کہے، دیکھ کبیرا رویا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :