زمانہ آیا ہے بے حجابی کا!

جمعہ 22 جنوری 2021

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

پاکستان اور پاکستانی عوام کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس کے حکمران طبقے کی طرف سے چاہے وہ ملٹری ڈکٹیٹر ز ہوں یا نام نہاد جمہوری سیاستدان حقائق ان سے چھپائے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دئیے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے اور جمہوری سیٹ اپ کے لیے اپنی اپنی پارٹیوں کے جھنڈوں تلے بھنگڑے ڈالتے دکھائی دیتے ہیں اس امیدپہ کہ شاید ان کی قسمت بدل جائے ۔

مشرف دور میں الیکٹرونک میڈیا کی آمد کے ساتھ یہ امید بندھی کہ ہمارے صحافی اور دانشور وں کو زیادہ مواقع میسر آئیں گے کہ وہ اپنی عوام کے سامنے حقائق رکھ سکیں گے ان کی درست سمت میں رہنمائی کر پائیں گے اس لیے کہ وہ معاشرے کی آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں مگر ہوا کیا! ہوا یہ کہ اسّی کی دہائی میں غیرجماعتی الیکشن کے نتیجے میں سیاستدانوں کی سامنے آنے والی نئی کھیپ سے ایک ایسا سسٹم ترتیب پایا جس نے ہماری معاشرتی اقدار بدل کے رکھ دیں۔

(جاری ہے)

ہر قسم کے نظریات بالائے طاق رکھ کر لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا گیا۔ ہر قسم کی کامیابی کا معیار رشوت ستانی اور سفارش قرار پایا۔ جس کے پاس یہ دونوں نہیں اس کے لیے تو یہ سسٹم وبالِ جان بن گیا گویا یہ نظام دس سے پندرہ فیصد لوگوں کے حقوق ہی کا ضامن بنا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امیر،امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلاگیا۔ حکمران طبقے نے چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو خوب مال بنایا بڑی بڑی امارات قائم کر لیں پاکستانی عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اس سارے سسٹم کو خرید لیا جس نے دراصل عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا تھااور اب یہ ان کے گھر کی لونڈی بن چکا تھا۔

صحافی، دانشور اور لکھاری حضرات بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اس طرح عوام کی لوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پر ان کی وہ آنکھ پھوڑ ڈالی گئی جس نے انہیں اصل حقائق دکھانے تھے اور اہل وطن اپنے ہی دیس میں بے یار و مددگار ہو گئے۔ بلکہ الٹا انہیں گمراہ کیے جانے لگا۔ یوں سارے ملک پر ایک مافیا قابض ہو گیا جو نہ صرف عوام کی زبوں حالی کی وجہ بنا بلکہ اقوام عالم میں وطن عزیز کی بے توقیری کا باعث بھی۔

ملک دشمن عناصر نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔اسلام اور پاکستان کو بدنام کیا جانے لگا دہشت گردی کو فروغ دے کر اس ملک کے باسیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی اور ہمارے حکمران جو کہ اب ان کے آلہ کار تھے خاموش تماشائی بنے رہے۔ آئندہ کس کی حکومت ہوگی کون بنے گا مملکتِ خدادا کا کھیون ہار؟ یہ سب ملک سے باہر لندن، نیویارک، دوبئی ، سعودی عرب یہاں تک کہ نئی دہلی میں طے کیا جانے لگا۔


2008 ء سے 2018 ء تک کے دس سالہ دور کو ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہنا غلط نہ ہوگا۔ ہمارے حکمران اپنے بیرونی آقاوٴں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔ بات اگر کرپشن تک محدود رہتی پھر بھی خیر تھی ان ناعاقبت اندیشوں نے ملکی سلامتی کو بھی داوٴ پر لگا دیا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کو ملیامیٹ کرنے پر تل گئے ۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی معشیت کو کھوکھلا کیاجانے لگا۔

انڈین ڈراموں اور پاکستانی سنیما میں ہندوستانی فلموں کی نمائش سے ہماری تہذیب و ثقافت مٹانے اور بھارتی کلچر کو فروغ دینے کی کوششیں کی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہمارے حکمرانوں سے ہندوستانیوں کو موسٹ فیورٹ قوم قرار دلوایا۔ تجارت کے نام پر مقامی پروڈیوسرز کی حوصلہ شکنی کر کے بھارتی تاجروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ بڑے بھائی کے نام پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہمارے سر پہ علاقے کا چودھری بنا کر بٹھانے کی جسارت تک کر ڈالی۔

ملک کی سلامتی کے ضامن اداروں کو کمزور اور آئی ایس آئی کو غیر موثر کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا گیا میموگیٹ اور ڈان لیکس اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ افغانستان کو ہمارا باس بنانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ گویا اس ملک و قوم کی تباہی کا کونسا سامان تھا جو نہیں کیا گیا! بھلا ہو ان لوگوں کا جنھوں نے بروقت خطرے کو بھانپ لیا اور پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہو گئے۔

پاکستان کی قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی اور ہم دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام کرنے میں کامیاب رہے۔
آج عمران خان کی حکومت کا تیسرا سال چل رہا ہے۔ دشمن کے سبھی مہرے پٹ چکے لیکن جنگ اب ابھی جاری ہے۔ بیرونی محاذوں کو ہم محفوظ بنا چکے لیکن اندرونی محافظ پر بکاوٴ میڈیا کی بدولت دشمن کو آج بھی فوقیت حاصل ہے۔ قرائن بتارہے ہیں کہ ہم یہ جنگ بھی آخر جیت ہی جائیں گے دشمن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔

عمران خان بڑی خوبصورتی سے یہ چو مکھی لڑائی لڑ نے میں مصروف ہیں اور ہمارے ادارے بھی پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ مافیا بھی اس سیٹ اپ کو غیر مستحکم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے سیاسی سطح پہ پی ڈی ایم کی شکل میں وجود میں آنے والے نام نہاد سیاسی اتحاد اور اس کے بیانیے نے دشمن کے سبھی کارندوں کو عوام کے سامنے ننگا لا کھڑا کیا ہے۔ ہمارے سسٹم میں اب بھی ایسی لیئر موجود ہے جو ان عناصر کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں عمران خان کا بیانیہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

نواز شریف کا ملک سے باہر چلے جانا، فضل الرحمٰن کا اسلام آباد میں ڈنڈا بردار دھرنا اور سرعام ملک اور ملکی اداروں کے خلاف میڈیا اور جلسہ ہائے عوام میں ہرزہ سرائی پر قانونی اقدام سے گریز یہ سب عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ وزیر اعظم آج بھی اپنے نظریے اور ویژن پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں ان کی کابینہ کی فوجِ ظفر موج میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اسی مافیا کو سپورٹ کرتے ہیں اور عمران خان کو مفاہمت کے نام پر ہمہ وقت گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

ان وجوہات کی بنا پر ملکی نظام سست روی کا شکار ہے منفی پروپیگنڈہ اور فیک نیوز کی بھر مار نے عوام کو بے دلی اور گومگوں کی سی کیفت سے دو چار کیا ہوا ہے۔ اب ملک کے ذمہ داران کو احساسِ ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے سامنے آکر ملک دشمنوں کی ہر ناپاک جسارت کو ناکام بنانا ہوگا اور اپنے درمیان موجود ان ظالموں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی ۔


عوام بھی اس غیر معمولی حالات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں باریک بینی سے صورتِ حال کا جائزہ لیں دوست دشمن کی پہچان رکھیں۔ ہر پلیٹ فارم پر وطن عزیز اور اس کی سلامتی کے اداروں کا دفاع اپنا فرضِ اوّلین سمجھیں گمراہ کن اور بکاوٴ میڈیا کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے اپنی چشم کو کُشا کیجیے اس دورِ بے حجابی میں جی بھر کر دیدارِ یار کیجیے کیونکہ جمہوری تماشہ ہو یاڈکٹیٹرشپ عوام کو اصل حقائق سے دور ہی رکھا جاتا ہے جبکہ حقائق تک رسائی ان کا بنیادی حق ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :