انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے پاکستان

منگل 10 نومبر 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

رات کا پچھلا پہر تھا طبیعت میں اچانک کچھ گرانی سی محسوس ہوئی۔ کام زیادہ تھا،شاید دیر تک کمپیوٹر پر بیٹھنے سے اعصابی تکان نے گھیر لیا تھا کمپیوٹر بند کیا اور سونے کی غرض سے بستر پر لیٹ گیا مگر بقول شاعر" وحشی کو سکوں سے کیا مطلب" کروٹ پہ کروٹ بدلتا رہا نہ نیندآرہی تھی اور نہ ہی بے کلی جا رہی تھی اس انجانی کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل لگ رہا تھااٹھ کے بیٹھ گیا ایسے ہی جی بہلانے کو موبائل اٹھا لیا یوٹیوب کھولی اور مختلف تھمب نیلز کو اوپر نیچے کرنے لگا۔

اچانک بلقیس خانم کی ویڈیوجو دراصل آڈیو تھی پر نظر پڑی،" انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند"میں نے سوچا چلو سن لیتے ہیں شاید کہ طبیعت بہل جائے ۔ گویااپنا غم غلط کرنے کے لیے آنکھیں موندھ لیں اور شاعر کے جذبات و احساسات میں کھو گیا۔

(جاری ہے)


انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․
تن کے گھاوٴ تو بھر گئے داتا
من کا گھاوٴ نہیں بھر پاتا
جی کا حال سمجھ نہیں آتا
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․
پیاس بجھے کب اک درشن میں
تن سلگے بس ایک لگن میں
من بولے رکھ لوں نینن میں
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․․․
جس پہ نہ بیتی وہ کب جانے
جگ والے آئے سمجھانے
پاگل من کوئی بات نہ مانے
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․
 انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
 کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․
اسدمحمد خاں کا خوبصورت کلام اور بلقیس خانم کی گائیکی نے اکسیر کا کام کیا اور طبیعت کرشماتی طور پر بہلاوے میں آہی گئی ۔

نیند کا غلبہ ہوا تو چادر تان کر سو گیا۔ دن گیارہ بجے آنکھ کھلی تو بہتر محسوس کر رہا تھا۔ نہا دھو کر ناشتہ کر کے سکول آفس میں جا بیٹھا۔ طبع نازک پہ گراں گذری شبِ گزشتہ کا خیال آیا تو بلقیس خانم کی مترنم آواز پھرسماعتوں سے ٹکرانے لگی ۔
" انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند"
اس پریاد آیاکہ پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل کی طرف سے اپنے ہمسائیوں اور خاص طور فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پس منظرمیں اس منفرد کلام کی پیروڈی راقم نے مرقوم کرنے کی سعادت حاصل کی تھی جسے حوصلہ افزائی کی امید لیے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں
 "انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے جان"
 انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے جان
 کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․
 لوگ ہزاروں مر گئے داتا
 اس کاپیٹ نہیں بھر پاتا
 یو این او بھی کچھ نہیں کہتا
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․
 نہ کر ظلم ارے دیوانے
جگ والے آئے سمجھانے
کھول دئیے توپ کے دھانے
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․
 عورت، بوڑھے ، بچے سارے
چن چن کرہیں اس نے مارے
چھین لیے جیون کے سہارے
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․
یہ تو ہے اسلام کا دشمن
ارے پگلے ترے نام کا دشمن
پاک ، عرب اور شام کا دشمن
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے جان
کیسی انوکھی بات رے․․․․․․․․․
سکول ٹائم کے بعد اپنے کمرے میں آکر کمپیوٹر سٹارٹ کیا۔

چند موقر جریدوں کی شہہ سرخیوں پر سرسری نظر ڈالی مشہور و معروف میڈیا چینلز کے بلیٹن سماعت فرمائے تو پتہ چلا آج سبھی کامرکزِ نظر گوجرانوالا میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہے۔ تاثر یہ ملا کہ عمران خان کی ظالمانہ (پی ڈی ایم کے مطابق) حکومت آج گئی کے گئی۔ عزت مآب ذی وقار امیرالمومنین قائدِاعظم ثانی دلوں کی دھڑکن دلوں کے جانی سہہ مرتبت وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوا زشریف کا لندن سے براہِ راست خطاب جلسے کی روحِ رواں قرار پایا ہے۔

کچھ لوگ امید سے تھے کہ آج لاکھوں کروڑوں کامجمع میاں صاحب کی زیر قیادت ملک بھر میں اک عظیم الشان انقلاب برپا کر دے گا۔ کسی کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اتنا بڑا مجمع آخر بیس سے بچیس ہزار کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں کیسے سمائے گا! لیکن حامد میر صاحب جیسے دانشورکے ہوتے بھلا ایسے مسائل کی کیا اوقات! جھٹ سے جلسے کے منتظم اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے اک راہِ باکمال نکال ہی لی۔

یوں گویا ہوئے ، " ناظرین جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اسٹیڈیم عوام سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے لیکن لوگوں کی اس سے کئی گنا زیادہ تعداد باہر موجود ہے۔ اس لیے اسٹیڈیم میں موجود افراد وقفے وقفے سے اٹھتے جائیں گے اور ان کی جگہ باہر سے آنے والے سیٹوں پربراجمان ہوتے جائیں گے اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یوں عوام کے اس جمِ غفیر کو باری باری اسٹیڈیم میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہو جائے گا۔

مگر یہاں وہ مولانا سے ہاتھ کر گئے کیونکہ جب ان کی باری آئی تو مجمع اٹھ کر چلتا بنا مگر ان کی جگہ لینے کو ئی نہ آیا۔
سمجھ نہیں آرہی تھی میرصاحب کی اس من گھڑت منطق پہ رویا جائے یا ہنسا جائے۔ بہر حال یہ سوچ کر دونوں کاموں سے اجتناب کیا کہ آخر سنجیدگی بھی کوئی شے ہوتی ہے ۔
 میاں صاحب کی تقریر میں وہی کچھ تھا جس کی توقع کی جارہی تھی لیکن جلسے میں موجود کچھ رہنما حیرانی و پریشانی کی صورت بنے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں،" اے ساہنوں مروائے گا" میاں صاحب کا منہ آتش فشاں بنا ہوا تھا جس کے ذریعے وہ پاکستان اور پاکستان کی حفاظت کے ضامن اداروں کو جلا کر بھسم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انڈین میڈیا بگلیں بجا رہا تھا۔ تماشہ ختم ہوا تماشائی گھروں کو لوٹ گئے غیر ضروری طولانی نے جلسے کے متوالوں، جیالوں اوراپنے بیگانوں سب کو بوریت کے احساس سے بوجھل کر دیا تھا۔ نیم شب ہوچلی تھی میں بھی جلدی سے آکر بستر پرڈھیر ہو گیا۔ لیٹے لیٹے جلسے کے مقاصد ، منظر اور پس منظر پر غور و فکر کرنے لگا۔ کئی دہائیوں سے پاکستان اور خصوصاً پنجاب پر مسلط شریفوں کے سپوت نواز شریف آخر کیا چاہتے ہیں؟ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ڈھیر ساری دولت اور ایک بہت بڑی امارت کھڑی کر لینے کے باوجود موصوف کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی بچگانہ خواہشات کے پیچھے کون کون سی قوتیں کار فرما ہیں؟ طاغوتی طاقتیں کون سا گھناوٴنا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں؟ جعلسازی، منی لانڈرنگ اور وائیٹ کالر کرائم میں ملوث خاندانِ شریفاں کے آخر ارادے کیا ہیں؟ ایسے کتنے ہی سوالات دماغ میں بھنبھنا رہے تھے۔

اپنے خیالات کو بار بار جھٹکنے کی کوشش بھی سعی لا حاصل ثابت ہوئی۔ سوالوں کی بھر مار نے طبیعت کو پچھلی رات کی طرح پھر سے بے کلی کا شکار کر دیاتھا۔ پہلو بدل بدل کر بھی دیکھ لیا نیند کوسوں دور بھاگ چکی تھی۔ آخر کار کل والے آزمودہ نسخے کو آج ایک بار پھرسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ بلقیس خانم کی خوبصورت آواز اور دھیمی دھیمی دلفریب موسیقی نے اپنے خوش گوار اثرات چھوڑنے شروع کیے تو گرانی بتدریج کم ہونے لگی ۔

آنکھیں بند تھیں سماعتوں سے ٹکراتی آواز نے ماحول کو پرکیف بنا دیا تھا
 " انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند"․․․․․․․
اپنی ہی لکھی پیروڈی کے الفاظ بڑبڑانے لگا
" انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے جان"
 پھر زباں سے بے ساختہ جوا لفاظ میرے منہ سے ادا ہوئے جن پر میں خود بھی حیران و ششدر تھا ایسا لگا کسی نے یہ جملہ میری زبان پر دھر دیا ہو
" انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے پاکستان"
 تھوڑی دیر خوشگوار حیرانی کی سی کیفیت کے بعد عقدہ کھلا کہ مجھے اپنے ذہن میں موجود تمام سوالات کا جواب مل گیاہے۔

گانا ختم ہوا۔دلِ مضطرب نے قرار پکڑا۔ منہ ہی منہ پھر بڑبڑاتا رہا
" انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے پاکستان"
کیسی انوکھی بات رے․․․․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :