راہ یا کراہ

بدھ 21 اکتوبر 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

یہ کہنا غلط نہ ہوگا یہ دنیا اک شکارگاہ ہے اور اس میں صرف دوہی قسم کی مخلوق بستی ہے ایک شکاری (Predator) اور دوسری شکار(Prey) یعنی '' ہر بڑی مچھلی ہر چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے'' کے مصداق۔ اسی لیے کرہ ارض پر اپنی بقا کے لیے ناقابلِ شکست ہونا لازمی ہے جس کے لیے بے پناہ قوت کا حصول ہی واحد راہِ نجات سمجھا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ شکاری ہر دفعہ کامیاب ہو بعض اوقات شکار اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور شکاری کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔

جہاں قدرت نے شکاری کو بے پناہ قوت کے ساتھ اپنے شکار پر قابو پانے کی صلاحیت بخشی ہوتی ہے وہاں شکار کو بھی اپنی جان بچانے کے مختلف گُر اور جہتوں سے نوازا ہوتا ہے یعنی دونوں کے لیے نصف نصف مواقع موجود ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

انجام کار ہمیشہ شکار یا شکاری کے آخری لمحے پر کیے گئے فیصلے پر ہی ہوتا ہے۔ شکار خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہوجب اپنی خدادا صلاحیتوں کو بروقت استعمال کر کے کوئی درست فیصلہ لیتا ہے تو وہ اپنے سے کئی گنا طاقتور شکاری کے پنجہ استبداد سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

اس لمحے شکاری کی شکست خوردہ حالت دیدنی ہوتی ہے۔ وہ بری طرح تلملاتا ہے انگاروں پہ لوٹتا ہے اپنی بے پناہ قوت کے گھمنڈ سے سرشاریہ سوچ سوچ کر مرتا رہتا ہے کہ آخر یہ کیسے ہوا؟
خرگوش ایک خوبصورت اور معصوم سا جانور ہے۔اس کی تیز رفتاری جہاں اس کے لیے وجہ شہرت ہے وہاں اس کی لاپرواہی اور غیر مستقل مزاجی ہمیشہ اس کی زندگی کو خطرے سے لاحق رکھتی ہے جبھی تو یہ ایک سست رفتار مگر مستقل مزاج کچھوے سے دوڑ میں ہار جایا کرتا ہے اور اسی وجہ سے شکاریوں کے لیے ایک آسان ہدف بھی بن جاتا ہے۔

خرگوش کے شکار کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ آگے آگے خرگوش پیچھے شکاری کتوں کا ایک غول (Hound) اور ان کے پیچھے ان کے مالکان یعنی اصل شکاریوں کا ایک جتھہ شور وغل مچاتا ہوا اپنے پالتوؤں کو ''شاہواہ شاہواہ (شاباش شاباش)'' کے آوازے لگا کر ہلہ شیری دیتا ہوا پھر ان میں آس پاس بستیوں کے افراد، نوجوان اور بچے بھی اس تماشے کو دیکھنے کے لیے بطور تماشائی شامل ہو کر محظوظ ہوتے ہیں۔

اس کھیل کے چار فریق ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا سٹیک ہولڈر خرگوش ہوتا ہے جس کی جان پہ بنی ہوتی ہے اور پھر اندھا دھند بھاگنااس کی مجبوری بن جاتا ہے کیوں وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو کچھ ہی دیر میں وہ اپنے پیچھے آنے والے شکاری کتوں اور ان کے مالکان کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگا۔ دوسرے نمبر پر وہ شکاری جن کی شان و شوکت، رعب ودبدبہ، ہیبت و وقاراورخواہشِ ناخدائی داؤ پر لگی ہوتی ہے اور جنہیں ناکامی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔

تیسرا پالتو کتوں کا وہ غول جنہیں کامیابی کی صورت میں خرگوش کواپنے مالکوں کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ہاتھ آئے شکار میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو محض آٹے میں نمک کے برابر مگر ان کا مقصد حیات صرف اپنے مالکوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ علاقے میں ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ اس انتھک جدوجہد کے بدلے مالکوں کی جانب سے کوئی خصوصی اور اضافی ہڈی نصیب ہوجائے۔

اور یہ کہ علاقے کے مکین ان سے خوفزدہ ہوکراپنے لیے کسی قسم کے شکار کرنے پر منع کرنے کی جرأت نہ کرسکیں وہ جدھر چاہیں آئیں جہاں چاہیں جائیں وہ من مانی کرنے میں آزاد ہوں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ گلے میں پڑا پٹا اگرچہ ذلت کا استعارہ ہے مگر اس قبیلے کو اپنے مالکوں کی جانب سے ان کے گلے میں ڈالے گئے پٹوں پر بڑا تکبر اورمان ہوتا ہے۔

ان کے نزدیک اپنے مالکوں کے تلوے چاٹنا ان کے آگے دم ہلانا وجہ کامیابی و کامرانی اور باعثِ صد افتخار ہوتا ہے۔ سب سے آخری فریق گردونواح کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے علاقے کو شکار گاہ بنا کر باہر سے آئے شکاری ان کے خرگوش کا شکار کرکے چلتے بنتے ہیں۔ ان کی اکثریت کو اس عمل سے کوئی سروکار نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اس گھناؤنے کھیل سے ہونے والے نقصان کا ادراک رکھتے ہیں۔

افراد کا ایک چھوٹا سا ٹولہ اسے محض ایک تفریح طبع کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس گیم میں جانے انجانے میں یا غیرشعوری طور پر شامل ہوجاتا ہے۔ ان میں اکثریت کو شکاریوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی البتہ شکاری کتوں کی کامیابی اور خرگوش کو جکڑ بند دیکھنے کی تمنا ان کے سینوں میں کہیں نہ کہیں انگڑائی لے رہی ہوتی ہے۔ وہ صرف اس لیے اس قافلے میں شریک ہو جاتے ہیں اور ساتھ بھاگ بھاگ کر اپنا سانس تک پھولا لیتے ہیں کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
البتہ لوگوں کی ایک قلیل تعداد کی ساری کی ساری ہمدردی خرگوش کے ساتھ ہوتی ہے۔

وہ دل ہی دل میں خرگوش کے بچ جانے کی نہ صرف دعائیں کر رہے ہوتے ہیں بلکہ شکاریوں سے نظر بچا کر اشاروں کنائیوں میں اپنی حرکات وسکنات سے خرگوش کومخصوس اندازمیں اپنے مفید مشوروں سے بھی نواز رہے ہوتے ہیں مگر خرگوش جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اس کادھیان اس طرف کیسے جا سکتا ہے! یہ تماشہ گھنٹوں جاری رہتا ہے پھر وہ فیصلہ کن لمحہ آجاتا ہے جہاں پر اس کھیل نے ختم ہونا ہوتا ہے۔

شکاری کی یہ کوشش ہوتی ہے وہ شکار کو اپنے پسندیدہ میدان یا رستے پر رکھے تاکہ اس کی کامیابی یقینی ہو جائے۔ جب تک خرگوش ان کے طے کردہ میدان یا رستے پر رہتا ہے انہیں اپنی کامیابی میں کوئی ابہام نہیں ہوتا کیوں کہ خرگوش جتنا بھی تیز بھاگے انہیں یقین ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر آخر وہ قابومیں آہی جائے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ آخرکار خرگوش تھک کر اپنی تگ و دو سے دستبردار ہوجائے گا اور ان کے پالتو اسے جا دبوچیں گے۔

منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ مالکان کی خرگوش اور اپنے شکاری کتوں پر پوری نظر ہوتی ہے وہ ہر وقت کامیابی کے بڑھتے گھٹتے امکانات کوبغور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خرگوش اور کتوں میں کم ہوتا فاصلہ انہیں یکدم پرجوش اور بڑھتا ہوا فاصلہ ان کے چہروں پر اچانک مایوسی کے آثار پیدا کر دیتا ہے۔ یہ کھیل جتنا طویل ہوتا جاتا ہے اتنا ہی صبر آزما اور اعصاب شکن بھی۔

بعض دفعہ صبح سویرے شروع ہونے والا کھیل شام تک جا پہنچتا ہے۔آہستہ آہستہ سائے بڑھنے لگتے ہیں روشنی کم ہونے لگتی ہے شکاریوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہوتا ہے انہیں ہر حال میں اندھیرا ہونے سے قبل کام کواپنے انجام تک پہنچانا ہوتاہے۔ ادھر خرگوش بھی دل ہی دل میں خوش کہ اب اندھیرا ہوا اور اس کی جان بچی۔ ادھر شکاری بھی اپنے آلہ کاروں کی پیٹھ ٹھونک کر ان کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ کر دیتے ہیں۔

ادھر خرگوش کی سپیڈ بھی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے مگروہ بھی دشمن کے حملے کی شدت دیکھ کربھانپ لیتا ہے کہ اب اس کا بچنا ناممکن ہے۔ یہی وہ فیصلہ کن گھڑی ہوتی ہے جس میں خرگوش کو اپنی تیزرفتاری سے ہٹ کوئی ایسا اقدام کرنا ہوتا ہے جو اس کے لیے ناجی ثابت ہو۔ اور پھر وہ ہوتا ہے جس کی کسی کو بھی امید نہیں ہوتی۔ خرگوش اچانک دائیں جانب نظر دوڑاتا ہے اور جست لگاکر دیکھتے ہی دیکھتے گھنی فصلوں کے درمیان چھوٹی سی پگڈندی کی طرف مڑ جاتا ہے اور آناً فاناً نظروں سے اوجھل جاتا ہے۔

منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے! شکاری کتے اچانک رک جاتے ہیں۔ ان کی زبانیں باہر نکلی ہوتی ہیں اور بری طرح ہانپ رہے ہوتے ہیں گردنیں لٹکی ہوتی ہیں شکست کی شرمندگی کے وجہ سے اپنے مالکوں سے نظریں نہیں ملا پارہے ہوتے۔ شکاری بھی سراپائے بیچارگی بنے کھڑے ہوتے ہیں تماشائیوں پر '' دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا'' کے جیسی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ البتہ چند چہروں سے ناقابلِ بیان سکون اور اطمینان چھلک رہا ہوتاہے۔

اتنے میں شکاریوں کے سردار کی مایوسی اور غصے سے ملی جلی آواز ابھرتی ہے'' سیّڑ کُراہیا ٹر گیا اے'' (خرگوش غلط رستے پر چل نکلاہے)۔ اس کی یہ بات سن کر باقی شکاری اور اکثر تماشائی بھی اس کی ہاں میں ہاں میں ملانے کے لیے اپنا سر ہلارہے ہوتے ہیں۔ مگراِس انجامِ خیر پر خرگوش سے محبت کرنے والے اور اس کے بچ جانے کی دعائیں کرنے والے چند لوگوں کے پرسکون چہرے بتارہے ہیں کہ دشمن کے سبھی ہتھکنڈے آخر کار ناکام ہوچکے ہیں وہ یہ سوچ کر معنی خیز اندازمیں مسکرارہے ہوتے ہیں۔


قارئین اکرام! نہ جانے کیوں مجھے خرگوش کے شکار کے یہ مناظر اور وطنِ عزیز کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر آج تک کی صورتِ حال میں مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے شکاری اور اس کے پالتواپنے پسندیدہ اور طے کردہ میدان یا رستے پرچلاتے ہوئے مملکت خداداد کو ایک خرگوش سمجھ کر اپنے نرغے میں لیے ہوئے تھے۔ حسبِ معمول اکثریت اس سے لاتعلق اپنے روزوشب کے معاملات میں مگن تھی۔

ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ نہ کسی کو مہنگائی پر اعتراض تھا نہ ہی ڈالر کی قیمت بڑھنے پر تشویش۔ نہ کسی کو دوست دشمن کی پہچان کی فکرتھی نہ کسی کو شکاریوں کے بچھائے گئے جال پرخدشات۔ نہ کسی کو اندھادھند قرضے لیے جانے کے نقصان کے ادراک کی ضرورت محسوس ہوئی اورنہ کسی نے اس کے بے دریغ اور غیر منافع بخش پروجیکٹس پر خرچ کرنے پرکوئی سوال اٹھایا۔

نہ کوئی گرتے ہوئے تعلیمی معیار پرافسردہ ہوا اور نہ ہی کسی کوہماری گرتی ہوئی اخلاقی قدروں پر افسوس۔ نہ کسی کو ستر کی دہائی تک کے علم وادب کے گہوارے سے کراچی کو بارود کے ڈھیر بننے تک کے حالات پر کوئی اندیشہ لاحق ہوا اور نہ ہی کسی نے تاریخی اہمیت کے حامل خوبصورت شہر لاہور کوکنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے کی سمجھ آئی۔ نہ کسی نے نظام عدل کی سست روی اور پولیس کے امتیازانہ سلوک پر انگلی اٹھائی نہ کسی کوہمارے پارلیمانی نظام میں سقم نظر آئے۔

نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوا تمام رائیٹسٹ اور لیفٹسٹ ایک مشترکہ مفاد پر اکٹھے ہوگئے تمام سرخے سبزے گھل مل گئے حکومت و اپوزیشن کا تصور ناپید ہوا فرینڈلی اپوزیشن کی نئی اصطلاح متعارف کروائی گئی گویا وطن عزیز یعنی اس کی عوام کے خلاف سب نے ایکا کرلیا۔ کوئی اعتراض کرتا بھی تو کیسے! کیوں کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل اپنے اندرونی آلہ کاروں کے ذریعے پاکستان کو اس راستے پرڈالنے میں کامیاب ہو چکے تھے جس پر اسے آسانی سے ٹریپ کیا جا سکے۔

انتظامات مکمل تھے منصوبے میں بظاہر کوئی جھول نظر نہیں آتا تھا۔ وطن عزیز کو فیک اور کاغذی معشیت کے گورکھ دھندے میں ڈال کر گرے لسٹ میں ڈلوایا گیا منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کا مقصد مملکت خداداد کو بلیک لسٹ کروا کے دیوالیہ قرار دیا جانا تھا۔ البتہ دیس کے خیر خواہ اس دوران سخت تشویش میں مبتلا تھے انہیں وطن عزیز کے اصل حقائق سے آگاہی تھی۔

اور پھر وہ ہوا جس کی شکاریوں کو قطاً امید نہ تھی۔ فیصلہ کرلیا گیا اور پاکستان نے ایک جست میں راہ بدل لی اور شکاری اور اس کے حواری منہ تکتے رہ گئے۔ وہ دن ہے اور آج کادن ہر سوایک شور برپا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ شکاریوں کے چہرے سے مایوسی اور حیرت ٹپک رہی ہے۔ وہ تلملا رہے ہیں انگاروں پر لوٹ رہے ہیں اور حیرت زدہ ہیں کہ یہ کیسے ہوگیا! ان کے پالتوؤں کی زبانیں باہر نکل آئی ہیں وہ بری طرح ہانپ رہے ہیں اور سارا دن پاک دھرتی اوراس کے محافظوں پر ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ شکاریوں کا سردار کہہ رہا ہو '' پاکستان کراہیا ٹر گیا اے(پاکستان غلط رستے پر چل نکلا ہے)۔ مگر انہیں یہ کون سمجھائے جس کو وہ '' کُراہ'' کہہ رہے ہیں یہی تو اصل میں '' راہ'' ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :