انسان خسارے میں ہے

جمعرات 25 جون 2020

Sahib Shiraz

صاحب شیراز

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ”خوب جان لوکہ دلوں کا سکوں اللہ کی یاد میں ہے “ اس تنبیہ کے بعدانسان کا دنیاوی سکون اور آخرت کی کامیابی کو پیمانہ زر سے مانپنا بدبختی کی علامت ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام لوگوں کی حیثیت کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔ مفلسی وہ بدنما داغ ہے جو ہزاروں حقارت بھری نظروں کے حصار میں سہمی سہمی سی رہتی ہے۔

عزت کا معیارمال ودولت ٹھہرچکا نہ کہ علم و فراست۔ کرپشن ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے ۔ رشوت ستانی ، ذخیرہ اندوزی ، منافع خوری اور دھوکہ دہی معمول بن گیا ہے۔ جسے دیکھو ہر جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ مال و زر سمیٹنے میں مصروف عمل ہے اور اسی میں اپنی دینی و دنیاوی عافیت بھی ڈھونڈتا نظر آتاہے۔

(جاری ہے)

دنیاوی مال و منال نعمت ہے یا زحمت! فضل ہے یا آزمائش ! باعث راحت ہے یا وجہ بد سکونی! عطا ہے یا سزا ! تو اس پر غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے ۔

آئیے کچھ دیرکے لیے اس ساری دنیاوی دوڑ دھوپ اور تگ و دو کو ترک کرکے ان نکات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے کرونا قدرت کی عطا کردہ نعمت سے کم نہیں جس کی وجہ سے معمولاتِ زندگی رکے ہوئے ہیں اور ہمیں فراغت کے لمحات میسر آئے ہیں!
قارئین اکرام ! اللہ کے حبیبِ اقدس ﷺ کا یہ فرمان کہ” اسلام غریبوں میں آیا اور غریبوں ہی میں پھلا پھولا“ ان لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے جو کثرتِ مال وزر کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔

اسلامی تاریخ میں اس اعرابی کا واقعہ آپ نے ضرور پڑھ یا سن رکھا ہوگا جو آقائے دوجہاں کے حضور اپنے لیے حصول ِ مال و دولت کی فراوانی کی دعا کا خواستگار ہوتا ہے۔ دعا کی گئی قبول بھی ہوئی مگر اس کا انجام بڑا عبرت ناک ہوا۔ اس شخص کی بدبختی نے اسے آ گھیرا ۔ وہ جو پہلے ہر روز صحبتِ نبی الرحمہ سے مستفیض ہوتا تھا اپنی آنکھوں کو دیدارِ مصطفٰی سے ٹھنڈا کیا کرتا تھا فتنہِ مال کا ایسا شکار ہوا کہ روزانہ کی بجائے اب جمعے کے جمعے آنے لگا پھر مہینے بعد یہاں تک سال بعد اور آخر کاریہ سال کے بعد آنے کی توفیق بھی چھن گئی ۔

وہ اپنی ہزاروں بکریوں اور مال مویشی دیکھ دیکھ جینے لگا۔ مال کی محبت نے اس پر ایسا جادو کیا کہ اسے احساس تک نہ ہواکہ اس نے کھویا کیا ہے! پھر زکوٰة کا حکم ہوا تو آپ نے اس شخص کے پاس زکوٰة لینے کے لیے اپنے نمائندے بھیجے۔ بطورزکوٰة بننے والی بکریوں کی تعداد کا سن کر صدمے کا شکار ہوگیا چارولاچار، بادلِ نخواستہ سب سے کمزور اور معذور جانور پیش کیے جب آپ کی بارگاہ میں اس کی ادا کردہ زکوٰةکے جانورپیش کیے گئے تو آپ نے سخت ناراضی کا اظہار کیااور وہ جانور بطور زکوٰة قبول نہ فرمائے اس طرح دولت کی ہوس کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا۔

ہوس ِ زر کا انجام سمجھنے کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔
شیطان انسان کا ازلی اور کھلا دشمن ہے ۔ جب انسان جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر کافی سارامال و اسباب جمع کر نے میں کامیاب ہوجا تاہے تووہ اسے ایک قدم اور آگے بڑھنے کی رغبت دِلاتا ہے یعنی ابھی دولتِ دنیا کی نحوست کا ادراک بھی نہیں ہوا تھا کہ چودھر کا طوق خوشی خوشی اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

اسے شوقِ حکمرانی چرانے لگتا ہے۔ اس کی چال ڈھال بدل جاتی ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والے عام لوگ اسے حقیر لگنے لگتے ہیں ان پر حکم چلانا اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ اور لوگ بھی اس کی شخصیت سے مرعوب ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یوں دھن دولت اور اپنے رعب و دبدبہ کے نشے میں چور خوشامدیوں کی لچھے دارباتوں پرآکر خود کو لوگوں کا ان داتاگرداننے لگتا ہے اور پھر اس جال میں پھنس کرنہ صرف دنیا میں حقیقی عزت و وقار کھو بیٹھتا ہے بلکہ اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو برباد کر بیٹھتاہے اور آخرت کی بربادی سے بڑا خسارہ بھلا اور کیا ہوسکتاہے!
اب کچھ ایسی عظیم ہستیوں اور اللہ کی منتخب کردہ برگزیدہ شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جن کے ایمان میں شک کا شائبہ تک نہیں اور اس دنیا سے اپنے رب کے ہاں کامیاب و کامران لوٹے ہیں مگر اپنی دولت و اختیار کی بدولت کسی نہ کسی صورت خسارے سے نہ بچ پائے۔


ایک بار نبی کریم سے سوال کیا گیا یارسول اللہ! نبیوں میں سب سے پہلے جنت میں کون جائے گا؟ آپ نے فرمایا نبیوں میں سب سے پہلے میں محمدبن عبداللہ جنت میں داخل کیا جاوٴں گا۔ پھر سوال کیا گیاکہ نبیوں میں سب سے آخر میں جنت میں کون جائے گا ؟ تو ارشاد ہوا حضرت سلیمان بن داوٴد ! پوچھا گیا کیوں ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں بادشاہت اور اپنے خزانوں پر اختیار بخشا تھا اس کا حساب دیتے دیتے اتنی دیر ہوچکی ہوگی کہ تمام انبیاء  جنت میں داخل کیے جا چکے ہونگے اس لیے ان کی باری سب سے آخر میں آئے گی۔

کسی نبی کے لیے اتنا خسارہ ہی کافی ہے وہ اپنے اقتدار و اختیار کی بدولت نبیوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو!
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف عشرہ مبشرہ میں شامل وہ خوش قسمت صحابی ہیں جنھیں نبی مکرم نے اس دنیا میں ہی جنتی ہونے کی بشارت دی ۔ مگر واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اپنے کچھ صحابہ کو جنت کی بشارت دے چکے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اپنا نام نہ آنے پر افسردہ ہوئے اور دلگیر آواز میں پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں جنتی نہیں ہوں؟ آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یقینا تم بھی جنتی ہو مگر تم جنت میں داخل ہو گے کہنیوں کے بل اپنی کثرتِ مال کی وجہ سے۔

یاد رہے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف  ان چند اصحاب میں شامل ہیں جو کا فی مال و اسباب رکھتے تھے۔اللہ کے نبی انھیں کٹھن حساب کتاب کی نوید سناتے ہیں جس سے انھیں گذرنا پڑے گا۔ کیا کسی صحابی کیلیے یہ گھاٹے کاباعث نہیں!
ایک صحابی فرماتے ہیں جب حضرت عمر کا وصال ہوگیا تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضوردعا کی کہ خواب میں میری ملاقات حضرت عمر  سے ہوجائے تاکہ جان سکوں کہ اللہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک فرمایا ۔

وہ کہتے ہیں پندرہ سال بعد مجھے حضرت عمر خواب میں ملے کیا دیکھتا ہوں کہ آپ پسینے سے شرابورہیں میں نے پوچھا یا امیرالمومنین! مجھے آگاہ کیجیے اللہ نے آپ  کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا توآپ نے فرمایا اللہ نے میرے ساتھ رحم والا معاملہ کیا ہے اور مجھے بخش دیا ہے ابھی ابھی امورِخلافت کے حساب کتاب سے فارغ ہوا ہوں۔
معزز قارئین! مذکورہ بالا واقعات اور روایات سے ایک بات تو طے ہے جس کو بھی دنیاوی مال و اسباب پر جتنا زیادہ اختیار یا تصرف حاصل ہوگا قیامت کے دن اسے اتنے ہی کڑے حساب سے گذرنا ہوگااور وہ لوگ جنھوں نے اس دنیا میں کسمپرسی اور مفلسی و بیچارگی کی زندگی گذاری جوناحق ستائے گئے جن کے مال و اسباب پر ناحق ڈاکہ ڈالا گیا جو ظلم و تشدد کا شکار ہوئے وہ اپنے رب کے فضل سے ان تکالیف و مصائب کے عوض جو انھوں نے دنیا میں جھیلیں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا دوڑتے ہوئے جنت میں داخل ہونگے۔

وہ منظر دیکھنے لائق ہوگا! وہ لوگ جو ان کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے حسرت و یاس کی تصویر بنے انھیں بیچارگی سے تک رہے ہونگے بالکل اسی طرح جیسے یہ دنیا میں اُن کو دیکھا کرتے تھے ۔ یہی عین فطرت ہے اور یہی رب العالمین کا میزان بھی۔ ہر مکان پر لکھا ہوا ھذا من فضلِ ربی، فضلِ ربی نہیں ہوتا۔ کوئی اس مغالطے میں نہ رہے کسی ملاں کی ترغیب پر مسجد میں لاکھوں روپے چندہ دینے سے بار بار حج عمرہ کرنے سے حرام کی کمائی حلال ہوجائے گی۔

بلیک منی کو وائیٹ کرنے کا تصور یہاں ہے وہاں نہیں! اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کے سب گناہ ،معاف کر دئیے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب شہید کا قرض معاف نہیں ہوتاتو آپ کی یا میری رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، سفارش سے حاصل کی گئی ملازمت، منافع خوری، کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کرہتھیائی گئی زمین، سمگلنگ اور چوربازاری سے کمائی گئی دولت کا کفارہ ہماری نمازیں، روزے، زکوٰة اور حج عمرے کیسے ہوسکتے ہیں!
نماز روزے کی پابندی قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں
بڑے بڑے چندے دے کر خدا سے تجارت بھی کرتے ہیں
ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ، جھوٹ کا دھندہ کرکے شیراز#
لوگ کس طرح محسوس ایمان کی حلاوت بھی کرتے ہیں!
قارئین اکرام! اسلام دینِ فطرت ہے اورفطرت کے کسی قانون کو غیرفطری طریقے سے نہیں بدلا جاسکتا! ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ اللہ کریم کی عطا کردہ توفیق سے ہم سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جائے جو خلوصِ دل سے کیا گیا ہواور اللہ کے ہاں پسندیدہ ٹھہرے تو وہ اس پہ قادر ہے کہ ہماری بخشش فرما دے اور دنیا میں ہمارے مظالم کا شکار لوگوں کو تلافی کے طور پر جنت میں داخل کرکے ان کے درجات بلند کردے کیونکہ وہ حاکم مطلق ہے اور کسی کے گناہ کو نیکی اور نیکی کو گناہ لکھ دینے پرقادر ہے اورکوئی اس پر اعتراز نہیں کر سکتا۔

جھوٹ، چغلی، غیبت اور حسدوہ روحانی امراض ہیں جو ہمارے دلوں میں خلوصِ نیت پیدا ہونے ہی نہیں دیتے۔ شیطان انھیں ہتھیاروں کو استعمال کرکے انسان کے دل میں وسوسے پیدا کرتا اپنے نفس کی پوجا کی ترغیب دلاتا ہے اس طرح روحانی طور پرہم بیمار ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ ہماری اسی حالت کو قرآن دلوں کا مرض قرار دیتا ہے۔


قرآن میں ارشاد فرمایا گیا کہ مال اور اولاد فتنہ ہے۔ نبی پاک کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ ہے مال۔ آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو شاید ہم میں سے چند لوگ ہی ہونگے جو اس فتنے کا شکار نہیں ورنہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں نہ امیر نہ غریب نہ بڑا نہ چھوٹا نہ یہ نہ وہ اور نہ میں اور نہ آپ! اور یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے جسے ہم بازارِ دنیا سے دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں ۔


کرونا زدہ ماحول نے ہمیں موقع بخشا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو بدلیں۔ یہ بات تو طے ہے مال و اولاد کی محبت ہمیں گمراہی کی طرف تو لے جاسکتی راہِ راست کی طرف نہیں۔ جو یہ سمجھتا ہے کثرتِ زر کے بعد وہ ہدایت یافتہ ہوگیا ہے دھوکے میں ہے۔ اس لیے اللہ کریم سے رزقِ کریم کی دعا کرنا چاہیے رزق میں برکت کی دعا کرنا چاہیے نہ کہ کثرت کی۔
بعض دفعہ جب اللہ اپنے بندے کوجائز اور حلال ذرائع سے رزق کریم سے نوازتا ہے تواس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرے۔

اللہ مال کو جمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی مخلوق میں تقسیم کرنے کے لیے عطا کرتا ہے۔ کرونا زدہ ماحول میں سب کو پتہ ہے بہت سے لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں ان کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے دو وقت کے کھانے کا اہتمام مشکل ہورہا ہے۔ اپنی حلال کمائی سے جب ہم متاثرہ افراد کی مدد کریں گے تو یقین کریں اللہ کریم بھی خوش ہوگا اور لوگوں کی دعاوٴں سے آپ کی پریشانیوں ا ور مشکلات میں آسانیاں فرمائے گا۔ پھر یہ دھن دولت آپ کے لیے نعمت، فضل ، راحت اور عطا بن جائے گی ورنہ باعثِ زحمت، آزمائش اور بے سکونی اور سزا! اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے! آمین اور ہاں مصیبت کی اس گھڑی میں کم یا ختم ہوجانے کے خوف سے اپنا ہاتھ روک نہ لینا ورنہ بہت پچھتاوٴ گے!!!!!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :