تاجدار ہند۔ بزم سے الم تک ۔ قسط نمبر 1

پیر 17 فروری 2020

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

کسے خبر تھی کہ ایک چھوٹی سی ریاست وادی فرغانہ سے اُٹھنے والا طوفان ایک جہان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، تیمور لنگ جس نے آدھی دنیا کے اوپر اپنا پھریرا لہرایا ، اسی تیمور کا نواسہء شہزادہ بابر جو کہ اپنی بقا ء کی جنگ لڑ تا ہواء کبھی محلاتی شازشوں سے بر سر پیکار اور کبھی اپنے سگے چچاؤں کی شورشوں سے کافی عرصہ نبرد آزما رہا۔

پھر زمانے کی آنکھ نے ایک عجیب منظر دیکھا، کہ سلطان ہند ابراہیم لودھی جو کہ اپنی کشیر افواج اور دیو ہیکل ہاتھیوں پر نازاں تھا، پانی پت کے میدان میں بابر کی سپاہ کے آگے شکست خوردہ اپنی جان بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا تھا۔ انقلاب زمانہ تھا کہ وہ شہزادہ جس کو سگے پناہ دینے کو تیار نہ تھے ، آج شہنشاہ ہند بابر کے لقب سے ملقب ہواء اور ایک شاہی خاندان کی داغ بیل ڈالی۔

(جاری ہے)

یہ شاہی خاندان جو تاریخ عالم میں مغلیہ خاندان سے مشہور ہواء ایک وقت میں اتنا بام عروج پر پہنچا کہ ایک طرف مغلیہ سلطنت کی سرحدیں ایران و افغانستان جبکہ دوسری طرف برما تک کا علاقہ ان کا زیر نگین تھا۔ یعنی پورا برصغیر ان کے تابع فرمان تھا۔ اور مغل حکمرانی کا سکہ کم و بیش ساڑھے آٹھ سو سال تک اس علاقہ میں رائج رہا۔
زرا ٹھریے میرا آج کا موضوع تزک بابری نہیں ، میرا پس منظر بتانے کا مقصد تھا تاکہ قاری کا زوق اور تسلسل برقرار رہے، میرا موضوع سخن تو آخری تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر ہے، جی وہی بہادر شاہ ظفر جو نہ صرف علم پرور تھا، بلکہ خود اتنا سُخن ور تھا کہ اساتذہ اس کے آگے زانوئے ادب تلمذ کرتے تھے۔

30 ستمبر 1837ء کو دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے ادھیڑ عمر شہزادے کے سر پر جب تاج شاہی رکھا گیا تو ہندوستان کے قرب و جوار سے اپنے نئے بادشاہ کو سلامی پیش کرنے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ لوگ دہلی آئے تھے، ایک جشن کا سماں تھا ، بہادر شاہ ظفر خلعت فاخرہ زیب تن کر کے ، تاج شاہی سر پر رکھ کر سریر آرائے سلطنت ہواء۔ جب بادشاہ ہند بہادر شاہ ظفر جہانگیری تلوار لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دہلی دادوتحسین کے نعروں سے گونج اُٹھا، نقارچیوں نے ایک غلغہ بلند کر دیا، گوئیے مدھر تانیں بکھیرنے لگے، رقاصائیں مستی میں رقص کناں ہوئیں، فوجی سالار تلواریں فضاء میں بلند کر کے سلامی پیش کر رہے تھے، سات دن رات تاج پوشی کا جشن برپا رہا، اور ان سات دنوں میں دہلی کے لوگوں شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا، شاہ وقت کی خوشنودی ہمیشہ سے رعایا کا مطمع نظر رہی ہے۔

بہادر شاہ کو خوشامدی ٹولے نے گھیر رکھا تھا ، بنیادی بات یہ تھی کہ شاہ ہند ملکی انتظام و انصرام کو براہ راست دیکھنے کی بجائے دوسروں پر انحصار کرتا تھا، بادشاہ کے اڑوس پڑوس خوشامدی ، نااہل اور بددیانت لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہونا شروع ہو گیا، یہ لوگ بادشاہ کی آنکھیں اور کان تھے، بادشاہ کے دو شہزادے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے، ایک شہزادہ داخلی جبکہ دوسرا خارجی امور میں اپنے آپ کو مختار کُل سمجھتا تھا، شہزادوں کی آپس میں نا چاقی اور چپقلش چلتی رہتی تھی، بادشاہ انکی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتا تھا، بلکہ اُن کے اُلٹے سیدھے کاموں پر ان کی گرفت نہیں کرتا تھا، مہنگائی کا جن قابو سے باہر تھا، کٹائی کے موسم میں غذائی اجناس منڈیوں سے غائب کر دی جاتی تھیں، جن کو تاجر منہ مانگے داموں پر لوگوں کو فروخت کرتے تھے، جس سے دن بدن رعایا زبوں حالی اور بد حالی کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔

ہر روز نت نئے ٹیکس لگائے جاتے تھے، شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروں کے دانے پر بھی ٹیکس عائد کر دیا تھا، حتی کہ صورتحال یہاں تک ہو گئی تھی کہ طوائفوں کی کمائی کا بھی ایک بڑا حصہ شہزادوں کے زاتی خزانے میں جمع ہو جاتا تھا۔ شاہی خاندان کے لوگ قتل و غارت بھی کرتے مگر کو ئی تادیب یا سزا کا نظام رائج نہ تھا ، فوج امراء اور سالار بھی دھونس اور دھمکی سے بادشاہ سے جو چاہتے منوا لیتے تھے، صوبیدار اور امیر آزاد ہو چکے تھے، خزانہ عامرہ کو لوٹ کا مال سمجھ لیا گیا تھا ، چیک اور بیلنس کا نظام مفقود تھا، عوام کے دلوں میں بادشاہ اور شاہی خاندان کے خلاف ایک لاوا پک رہا تھا، نفرت کی انتہا یہ تھی کہ لوگ کوتوال کے سامنے بھی شاہی خاندان کو بُرا بھلا کہنے سے گریز نہ کرتے تھے۔

انگریز جو کہ شہنشاہ ہند جہانگیر کے دور میں تاجر بن کر آئے تھے، کئی علاقوں میں آج تاجور بنے بیٹھے تھے ، انگریز بادشا ہ کے وفاداروں کو قتل کر کے بادشاہ کو یادداشت بھیجتے کہ یہ عزت مآب کا غدار تھا اس لئے اس کو سزا دی گئی ، بادشاہ ان کی باتوں پر بھی یقین کر لیتا، فوج شاہی بھی ناکارہ ہو چکی تھی کیوں کہ جنگوں سے دور ہونے کی وجہ سے کاہلی اور سُستی فوج کا وطیرہ بن چکی تھی، سب سے بڑی افسوس ناک بات یہ تھی کہ بہادر شاہ ظفر جو کہ فطری طور پر ایک سادہ نفس شخص تھا جس کو لوگوں کے چھل فریب کا اتنا اندازہ نہ تھا ، اُس کے سامنے جب سب اچھا کی رپورٹ رکھی جاتی تھی تو وہ سمجھتا تھا کہ راوی سب چین لکھتا ہے، مندرجہ بالا حالات کی وجہ سے جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو عوام اس سے کنارہ کش ہو گئے کیونکہ وہ بہت نالاں تھے۔

بادشاہ خود دو دلا ہو رہا تھا، ایک تو بہادر شاہ ظفر کو جنگوں کی قیادت کا تجربہ نہ تھا ، وہ چاہتا تھا انگریزوں سے لڑا بھی جائے اور میرا تخت و تاج بھی برقرار رہے، مجاہدین آزادی بہت پر خلوص تھے ، اُن کے جذبوں میں کھوٹ نہیں تھا، مگر قیادت کا بحران ہو تو نہ تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے، بعین ہی یہ صورتحال جنگ آزادی کے ساتھ ہوئی کہ نہ تو عوام اپنے حکمران سے مخلص تھے، عوام کہتے تھے ہمارے لئے مغل بادشاہ ہو یا کوئی الیگرینڈر ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ لوگ جو خزانے کو جونک بن کر چمٹے ہوئے تھے جب وقت پڑا تو ان کا دور دور تک پتا نہ تھا، وہ انگریزوں کو صاحب بہادر کہنے میں مگن تھے، اُن کی نظر میں مغل سلطنت اب قصہ پارینہ ء بن چکی تھی، وہ انگریز سرکار کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے اور اُن کے تلوے چاٹنے میں مگن تھے۔

نتیجہ یہ ہواء کہ شاہی خاندان کو دلی میں بے دردی سے سر عام فرنگی کے حکم پر زبح کر دیا گیا، تحریک آزادی کے سالاروں کو چُن چُن کر سولی پر لٹکا دیا گیا، خزانہ شاہی جو کہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھا بے دریغ لوٹ لیا گیا۔ جبکہ انگریز سرکار نے جن کو اپنا مخالف سمجھا ان کو انفرادی اور اجتماعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی لوٹ کر کنگال بنا دیا گیا اُن کی جاگیروں کو بحق سرکار غضب کر لیا گیا، اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ آخری تاجدار ہند بہا در شا ہ ظفر کو اپنے ہی وطن سے دیش نکالا دے دیا یعنی زبردستی گرفتار کر کر رنگون جلا وطن کر دیا۔( جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :