سیاسی شدت پسندی یا مثالیت

منگل 6 اکتوبر 2020

Saif Ullah Bhatti

سیف اللہ بھٹی

دوستی ایک نایاب رشتہ ہے _ جو رنگ، نسل،مذہب اور ہر طرح کے امتیازات سے بالاتر ہے_ ایک بزرگ کا قول ہے کہ "میں بہت کم دوست بناتا ہوں کیوں کہ دوستوں کے بہت حقوق ہیں" _ خون کے رشتے تو اللّہ تعالیٰ کی طرف سے بنائے جاتے جس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ، جبکہ دوستی ہم خود کسی سے بھی ذہنی ہم آہنگی کی بنا پر یا کبھی کبھار اتفاق سے بھی کر لیتے ہیں_ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں مذہب اور سیاست ہمارے لیے بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں_ اسی طرح مذہبی سکالر اور سیاسی شخصیات کچھ لوگوں کے لیے مثالی شخصیت بن جاتے ہیں_ اس طرح ان شخصیات کے پیروکار ان پر کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتے_ میرے ساتھ کمپنی میں میرے ایک دوست ذیشان صاحب اور دوسرے دوست اور ماموں زاد بھائی حافظ عمران ہیں جو کہ آپس میں بہت اچھے دوست ہیں_ لیکن ساتھ ہی ایک دوسرے کے سیاسی مخالف بھی ہیں_ ان کی آئے روز میٹھی میٹھی سیاسی بحث معمول کی بات ہے، اور ساتھ ساتھ گرما گرم الفاظ کے نشتروں کا بھی تبادلہ ہوتا رہتا ہے_ ایک اپوزیشن کے حق میں ہے تو دوسرا حکمران جماعت کا حامی_ دونوں اپنے اپنے علم اور معلومات کی بدولت ایک دوسرے کے خلاف دلائل دیتے رہتے ہیں_ کچھ دن پہلے بھی ان دونوں کی حسبِ روایت بحث ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں کی بات چیت غیر معینہ مدت کے لیے دونوں اطراف سے بالکل ختم ہو گئی_ دونوں ماشاءاللہ پڑھے لکھے باشعور شہری ہیں_ ایک دوست تو سرکاری ملازمتوں میں اپلائی کر کر کے عمر کی مقررہ حد پار کرچکا ہے، دوسرا دوست بھی اسی منزل کا راہی ہے_ لیکن نہ اوور ایج والا کسی سرکاری ملازمت میں منتخب ہوسکا نہ ہی دوسرا ابھی کسی میرٹ پہ پورا اتر سکا_ یہاں مجھے مرحوم طارق عزیز کا ٹوئیٹ یاد آگیا انہوں نے کہا تھا کہ "ہم جن سیاستدانوں کے گھر نہیں جاسکتے ان کی وجہ سے ہم اپنے تعلقات دوستوں سے خراب کرلیتے ہیں" _ یہ محض ان دو دوستوں کی روئداد نہیں بلکہ یہ تو کہانی گھر گھر کی ہے_ 2018 کے الیکشن میں فیصل آباد کے ایک حلقے میں ایک آزاد امیدوار کھڑا ہوا تو اس کے دو بیٹوں کے درمیان اختلاف  پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں اس امیدوار نے خود کشی کر لی_ اس طرح سیاسی شدت پسندی نے انہیں باپ کے سائے سے محروم کر دیا _ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر دیکھ لیں لوگ ایسے لڑرہے ہوتے ہیں جیسے پاکستان انڈیا کی بات ہو_ آخر ہم جا کس طرف رہے ہیں؟ جمہوریت کیا ہے؟ دوسرے کی بات کو اہمیت دینا اگرچہ ہم اس کی رائے کو پسند نہیں کرتے_ منٹو نے لکھا تھا کہ " اللّہ تعالیٰ نے ابلیس کو اختلاف رائے کے باوجود بھی جانے دیا" _ لیکن ہم کیا کررہے ہیں_ ہم اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے کو بالکل برداشت نہیں کرتے، اور خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں_ یہاں میں ملکی سیاستدانوں کی مثال دینا لازمی سمجھوں گا_ حکمران جماعت جس جماعت کے سربراہ کو کل تک پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتی تھی آج کرسی اور اقتدار کی خاطر اپنے ساتھ ملا کر پنجاب میں حکومت بنائی، جس کو منشی رکھنے کو تیار نہ تھی الیکشن کے بعد اسے اہم وزارت سے نواز دیا گیا_ دوسری طرف بڑی سیاسی پارٹی نے جس کو کرپشن کی وجہ سے سڑکوں پر گھسیٹنا تھا آج ان کے ساتھ مل کر اداروں پہ تنقید کررہے ہیں_ حکومتی پارٹی ملک میں بہتری لانے کی بجائے سابقہ وزیر اعظم کو وطن واپس لانے کے بارے میں صرف بیان بازی کررہی ہے، اگرچہ بھجوانے والے بھی خود ہیں_ اور اپوزیشن عوام کی بجائے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے بیٹھے ہیں _ یہ ساری مثالیں صرف اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ جو وطن عزیز میں کھلواڑ ہورہا ہے اور عدم برداشت کا یہ طرزِ عمل اب نچلے طبقے تک منتقل ہوچکا ہے_ ہماری عوام نہایت سیدھی سادھی بھولی بھالی ہے_ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر شام کو ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکے گا تو کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح گھر میں راشن دینے نہیں آئے گا_ ریاستِ مدینہ کے دعویدار یہ نہیں سوچیں گے کہ حافظ عمران اگر سرکاری ملازمت کے لیے اپلائی کرکر کے عمر کی حد پا کر چکا ہے تو اس کے لیے کوئی اور راستہ نکالا جائے، حکومتی نمائندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ذیشان اگر MA کی ڈگری حاصل کرکے بھی پرائیویٹ نوکری کررہا ہے تو اس کے لیے کوئی وظیفہ مقرر کردیا جائے_  اگرچہ MA پاس ہمارے ملک میں 3 یا 4 فیصد ہی ہیں_ جن کی خاطر آج ہم دست وگریباں ہیں وہ تو کل کو کسی اور کو اپنے مفادات کے لیے ساتھ ملا لیں گے یا خود مل جائیں گے_ لیکن ایک متوسط طبقے کا عام انسان وہیں کھڑا ان کا منہ تکتا رہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :