ہمیں کب عقل آئے گی؟

جمعرات 16 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

بچپن سے سنتا آ رہا تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں ست نہیں مانتے مگر آج تلک اس کے مفہوم سے آشنا نہ ہوا تھا مگر صد ہا شکر اس کورونا اور اس لاک ڈاؤن کے جس نے اس کے اصل مفہوم سے آشنا کروایا
ایک طرف جہاں کورونا کو باعث آئے دن ہزاروں لاشیں گر رہی ہیں تو دوسری جانب ہم ہیں کہ میمز بنانے،ہنسی و مزاح کرنے،گلی کوچوں کے چکر کاٹنے اور ان سب سے بڑھ کر تقدیر کو للکارنے میں لگے ہیں
ایک طرف حکومتی اقدامات دیکھے جائیں تو ہماری خاطر ہمیں محفوظ رکھنے کیلیئے حفاظتی تدابیر و کاوشات کرنے میں لگی ہے تو دوسری جانب ہم ہیں کہ گھر میں چند دن ٹک کر بیٹھنے کو جیل سمجھتے ہوئے خود کو موت کے منہ میں خود دھکیل رہے ہیں
یقین جانوں قسمت بار بار انسان کا ساتھ نہیں دیتی
آج اخبار پڑھتے ہوئے ایک سرخی آنکھ کے نیچے سے گزری حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن میں تیس اپریل تک کی توسیع کر دی یعنی کہ ملکی معیشت ملکی حالات کو ابھی چند ہفتے اور تباہ برباد ہونا پڑے گا ہمارا کیا جاتا تھا اگر ہم شروع کے دنوں میں ہی چند دن گھر بیٹھ کر نکال لیتے نہ یہ اتنی سختیاں ہوتیں نہ ہمیں یوں پابند ہونا پڑتا اب بھگتو
بزرگ کہہ گئے ہیں
''انسان کو عقل ہمیشہ تب آتی ہے جب پانی سر سے گزر جائے''
کیا سر پر حکومت کو اس لاک ڈاؤن سے بھی سخت قدم لینے پر مجبور کر کے چھوڑو گے تم لوگ؟کیا تم نہیں چاہتے ملکی معیشت پروان چڑھے کیا تم نہیں چاہتے یہ بلا ہمارے سر سے ٹلے اور ہم اپنے معمول کے کاموں میں جت جائیں کیا گھر بیٹھے بیٹھے بور نہیں ہو گئے تم لوگ؟یہ جو آئے دن تاخیر ہوتی جا رہی ہے نا یہ ہمارے ہی کرموں کا نتیجہ ہے
پتہ ہے ہم نے کورونا کو خود پیسے دے کر خریدا ہے اب آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کیا بول رہا ہوں میں ہاں جی میں سچ بول رہا ہوں یہ بھتہ خود پولیس والوں کا کیا جاتا کہ جو باہر سے انفیکٹڈ عوام ائیر پورٹ پر اتری تھی انھیں وہی سے ہسپتال شفٹ کر دیا جاتا ؟ ہمارے ہاں تو یہ کورونا نہ تھا کدھر سے آیا باہر سے عوام آئی حکومت کی ہدایات تھیں کہ انھیں سیدھا ہسپتال شفٹ کر دیا جائے مگر ان بھتہ خوروں نے یہاں لوگوں کی جانوں کا سودا کر دیا چند ہزار پیسوں کیلیئے میں تو سودا ہی کہوں گا
جنہوں نے چند ہزار نوٹ لے کر انھیں پتلی گلی سے نکلنے کا کہہ دیا اور وہ آنکھ بچا کر نکل آئے اور اپنے پیاروں میں ان بسے اور انھیں بھی متاثر کیا یوں دیکھتے دیکھتے یہ ان دیکھی وبا ہمارے سر چڑھ جر بولنے لگ گئی
پھر بات آئی اسے کنڑول کرنے کی کیونکہ جب کوئی نئی بیماری کا نزول ہوتا ہے تب شروع کے چند دن چند ہفتے چند مہینے یا چند سال کہہ لیں اسکی دوائی بنانے میں لگ ہی جاتی ہے پھر ایسے میں ایسی بیماریوں سے نپٹنے کیلیئے ہدایات جاری کی جاتی ہیں قابل ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے کہ آیا کہ کیا کیا جائے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے
ادھر بھی ایسی ہی صورتحال ٹھہری ویکسین بنانے کیلئے ابھی چند ماہ درکار ٹھہرے ایسے میں حکومت نے ڈاکٹرز کی وساطت سے چند احتیاطی تدابیر جاری کی گئی جس کو اپنا کر سبھی خود کو ایک محفوظ ہاتھوں میں رکھ سکتے تھے بشرطیکہ عمل کر کے
مگر ہماری فطرت ٹھہری ہر کام میں ڈنڈی مارنا ہم نے یہاں بھی ڈنڈی مارنے سے گریز نہیں کیا اور خود کی جان خودی جوکھے میں ڈال لی حکومت کا کہنا تھا میل ملاپ سے اجتنابیت برتنی ہے ہم نے کہنا شروع کر دیا
''جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں''
حکومت نے کہا گھروں سے باہر نہیں نکلنا ہم نے کہنا شروع کر دیا
''ہم تو نکلیں گے دیکھتے ہیں کون روکتا ہے
حکومت نے کہا منہ پر ماسک لگاؤ ہاتھوں میں گلوز ڈالو ہم نے کہنا شروع کر دیا ہمارا دم گھٹتا ہے اور جب حکومت چاہتے نا چاہتے ہوئے لاٹھی چارج ہر اتری اب کہتے پھرتے ہیں مظلوموں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے
پر خیر کسی سے کیا گلہ ہم تو وہ بدنصیب انسان ٹھہرے جو اپنے رب کا کہا نہیں مانتے دن میں پانچ وقت کی آواز لگاتا ہے ہمیں کہ لوٹ آؤ میری طرف ہم نے نعوذبااللہ کبھی اسکی نہیں سنی جو ہمارا خالق و رازق ہے جسکے قبضے میں ہماری جان ہے یہ تو پھر حکومت ہے
جانتے ہو ایک پالتو یا کوئی جنگل کا جانور جب حد سے ذیادہ سرکشی پہ اتر آئے نا تو اسے مار دیا جاتا ہے کہ کہیں یہ اوروں کو نقصان نہ پہنچائے ہم بھی آجکل سرکشی کی اسی حد تک پہنچ چکے ہیں جہاں سبھی کو ایک دوسرے سے خوف آنے لگا ہے ہمارا مالک ہمیں دیکھ رہا ہے کہ شاید ہم سدھر جائیں پنجابی میں کہتے ہیں نا
'' بندہ بن جا نئی تے میں دوجا رچھ کڈھنا تے فر توں بہہ جانا''
بس خدا دیکھ رہا ہے شاید کسی پل بھی یہ سدھر جائیں وگرنہ پل بھر کو سوچو وہ تو مالک مختار ہے اس سے بدتر بھی کر سکتا ہے۔

۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :