ہلکا سا تڑکا

بدھ 13 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ہم بعض دفعہ کئی کام معمول سے ہٹ کر اپنی مرضی کے خلاف کر دیتے ہیں۔ اور ایسے کام جن کو کرنے کا سوچ کر ہمارا دل اچاٹ ہو جائے۔ مگر اس انسان کو خداتعالی نے بنایا ہی کچھ اس طرز کا ہے۔ یہ وقت آنے پر ہر رنگ روپ میں ڈھل جاتا ہے۔ میرے خیال سے تو گرگٹ نے رنگ بدلنا بھی انسان سے ہی سیکھا ہے۔ جیسا کہ وہ کہاوت مشہور ہے۔ وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنایا جا سکتا ہے۔

اس انسان نے تو خیر باپ چھوڑ کر خوراک ہی بنا ڈالا۔
اب آپ حکومت کو ہی لے لیں۔ پہلے نوٹس جاری کیا جاتا ہے،کہ جی امتحانات کینسل کر دیئے گئے ہیں۔ لیکن جب بعد میں ٹویٹس کے ریپلائیز میں ٹویٹس آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کچھ ہمارے ہونہار اسٹوڈنٹس کا کھاتہ تو اس قدر پڑھائی میں گول ہے کہ زیرو بھی لیے بیٹھے ہیں انکا کیا کیا جائے۔

(جاری ہے)

پھر ہماری حکومت لیتی ہے یو ٹرن جسے پنجابی میں کہتے ہیں ''پچھلی پیری پجھنا“ پھر باری آتی ہے پہلی سمری کو کینسل کر کے نئی سمری جاری کرنے کا نوٹس۔

نئی سمری کے انتظار میں کڑھ کڑھ کر مر رہے تھے کہ نجانے کیا ہو گا۔ لیکن ''کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا''
جی ہم نے تحقیق کی اسی فیصد طلبہ و طلبات کو اس سٹیپ سے فرق نہیں پڑتا اس لیے امتحانات منسوخ ہی سمجھو۔ اور جنکی سپلیز آئی ہوئی ہیں وہ میرے بھائی اور بہن جمعے تک اپنی جان نئے نوٹس کے لیے سولی پر لٹکائے رکھیں۔ پل پل میں یہ سوچ کر گھٹ گھٹ کر مرتے رہیں نجانے ہمارا کیا ہو گا۔

ارے بھئی ڈرو نہیں ہونا کیا ہے۔ جب تک کورونا مرشد کے ڈیرے ہیں امتحان تو کیا یہاں کوئی اسکول بھی نہیں کھلے گا۔ یا پھر ایک اور سجیشن میں دیئے دیتا ہوں۔ حکومت ان نالائقوں کے امتحانات گھر بیٹھے آن لائین کیوں نہیں لے لیتی۔ چلو مان لیا حکومت تم پر اعتبار کر کے تم پر یقین رکھ کر یہ سٹیپ بھی اٹھا لیتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے۔ کیا تمہارے میں اتنا دم ہے کہ تم اس سٹیپ کو اس اعتمادی و بھروسے کو اسکے صحیح حق سے ادا کر سکو؟ بھئی تم لوگ تو کلاس ٹیسٹ میں آنکھیں ترچھیاں کر کے ادھر ادھر دیکھ رہے ہوتے ہو۔

یہ تو پھر سالانہ ہو گا۔
چلو دیکھتے ہیں کیا تم لوگوں کی دعائیں بر لاتی ہیں یا نہیں۔ کیونکہ یہ تو صرف ٹریلر تھا۔ فلم تو ابھی باقی ہے۔ اتنا حیرانگی والی بات بھی نہیں ہے اب تم سب باخوبی جانتے ہو میں کس کی بات کر رہا ہوں۔ کورونا کی بات کر رہا ہوں۔ جیسا کہ ڈبلیو۔ایچ۔او نے اپنی پچھلی دنوں میں جاری کردہ سٹیٹمنٹ میں بتلایا کہ کورونا کی ویکسین 2021کے آخر تک بھی شاید بن پائے یا نہ بن پائے۔

کیونکہ ویکسین بنانے کے تین مراحل میں سے ابھی تک ہمارے ہونہار ڈاکٹرز پہلا مرحلہ بفضل خدا اپنے انجام کو پہنچا پائے ہیں۔ ابھی دو اور سب سے اہم مراحل باقی ہیں۔ جن میں ویکسینشن کو لوگوں میں انجیکٹ کرنے اور پھر اسکا ری ایکشن دیکھے جائیں گے۔ جس میں بہت سارا وقت اور ڈھیر سارا پیسہ بھی چاہیے۔
وقت تو خیر ہمیں کورونا نے ڈھیر سارا دے دیا لیکن پیسہ لے کر چلا گیا۔

اسلیئے کم سے کم ڈیڑھ دو سال تو وقت لگنا نا ویکسین تیار کرنے میں۔ جیسا کہ پچھلے دنوں میرا ایک دوست مجھ سے ملنے آیا۔ مجھے کہتا ساقی تمہیں ایک جوک سناؤں۔ میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت بوریت محسوس کر رہا تھا۔ میں نے کہہ دیا چل سنا۔
وہ کہتا کہ کتنی عجیب بات ہے۔ جو کورونا سینیٹائیزرز کے استعمال سے مر سکتا،صابن کے استعمال سے مر سکتا۔

احتیاط کرنے سے مر سکتا۔ اسکی ویکسین ابھی تک ان سے تیار نہیں ہو پائی۔بات تھوڑی سیریس لگ رہی ہے۔ لیکن جب اس نے مجھے سنائی تھی اور جس انداز میں سنائی تھی یقین کریں واقع جوک ہی لگا تھا۔ اور ہنسی بھی آئی تھی۔ ویسے جوک تھا یا طنز تھا لیکن چھورے کی بات میں دم تھا۔ بھئی جو گڑ دتیاں مر رہا ہے۔ اسے زہر کیوں دے رہے ہو۔ چلو کم سے کم جب تک ویکسین تیار نہیں ہوتی سینیٹائیزرز ہی بنا لو۔

جو کورونا کے آتے ہی ایسے ناپید ہو گئے جیسے دنیا کے نقشے سے ڈائنوسار۔
کیوں نا اب تھوڑا اپنا بھی رونا رو لیا جائے۔ کہتے ہیں حرام کی مرغی کھائی جائے۔ تو وہ پیٹ میں جا کر ڈکار بہت مارتی ہے۔ مگر یہاں تو یونی والے بیچارے اسٹوڈنٹس کے لاکھوں کھا کر بیٹھے مجال ہے جو انھیں ذرا سی کھانسی بھی ہوئی ہو۔ اگر ہو گی بھی تو ہمیں کونسا سنائی پڑے گی آجکل جسے کھانسی ہو جائے اس کے نزدیک تو کیا دور دور تک کوئی نہیں پھٹکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :