بل بتوڑی کی سالگرہ

بدھ 27 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

شب کے پچھلے پہر جب تاریکی چار سو اپنے پنکھ پھیلائے سو رہی تھی۔ ہمارے گھر کے اسٹور روم سے آہستہ آہستہ بلند ہوتی آہ و ہو نے میری نیند میں کچھ اس طرح سے خلل ڈالا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اسٹور روم سے بلند ہوتی آوازیں اب پہلے سے قدرے تیز اور کانوں کے پردے پھاڑنے کا روپ دھار رہی تھیں۔
 شب کے اس پہر جب سب گھر والے گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔

میرے قدم نا چاہتے ہوئے بھی اسٹور روم کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ میں نے اسٹور روم کے دروازے پر لٹکتے پردے کو جونہی اپنے داہنے ہاتھ کی مدد سے تھوڑا پرے کھسکا کر اندر کو جھانکا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر میرے جسم میں گویا کہ اک کرنٹ سا دوڑ گیا۔ پل بھر کو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں زمین پر نہیں بلکہ کوہ قاف کی زمین پر قدم رکھ چکا ہوں۔

(جاری ہے)

چاروں طرف گز بھر لمبے ناخنوں کے مالک خواتین و مرد اپنی خوفناک اور بدبو مارتی صورت کے ساتھ زمین سے دو دو ہاتھ ہوا میں اڑ کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر پھر رہے تھے۔

انکے دانت تھے کہ نوکیلے خنجر گویا کہ ابھی کسی کو گردن سے دبوچ کر اسکا خون چوس کر اسکا لاشہ زمین پر پھینکنے والے ہوں۔ آنکھیں تھیں یا شعلہ دان جو پل پل میں ہر پل چار سو اگ کے انگارے برسا رہی تھیں۔ پانی پینے کے لیے پانی کے گلاس کی طرف اشارہ کرتے تو پانی خود انکی طرف دوڑتا چلا آتا۔ محفل کے بیچ و بیچ ایک بلند و بالا ہیبت ناک تخت دیو اپنی اہلیہ کیے ساتھ جو اپنے رعب و دبدبے اور شخصیت سے اس ٹالے اک سردار معلوم ہوتا تھا،اپنے تخت پر بیٹھا اس محفل سے خود کو سرور بخش رہا تھا۔

اک ایسا تخت جس کے سائیڈ کے دونوں بازؤں پر شیروں کے مجسمے کچھ اس قدر مہارت سے کنندہ کیئے گئے تھے،کہ دیکھنے والے کو اصلی شیر معلوم ہوتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی جھپٹ کر سامنے پھرنے والے ہر ایک کو نگل جائیں گے۔
محفل کی رنگینیوں سے دل لبھاتے لبھاتے جونہی اس دیو کی نظر مجھ پر پڑی،مجھے دیکھ کر اسکی آنکھیں گویا کہ آگ کے انگارے اگلنے لگ گئیں۔

میری تو گویا ہوا ٹائیٹ ہو گئی۔ یہ منظر دیکھ کر میری پتلون تو مارے ڈر کے گیلی ہی پڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ میں ڈر کے مارے چیخ کر وہاں سے بھاگ جاتا۔ اگلے لمحے میں ان سب کے بیچ و بیچ کھڑا تھا۔ اور آس پاس کا ماحول کچھ یوں تھا کہ جد نگاہ تک صرف اور صرف یہ خون خار درندے جو کہ اپنی خاصیتوں سے جن معلوم ہوتے تھے۔ ان کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسٹور روم کا وہ پردہ جہاں سے میں یہ سب منظر تاک رہا تھا۔

نجانے کدھر غائب ہو گیا تھا۔ میں حیران تھا۔ یہ سوچ کر میں پاگل ہوئے جا رہا تھا کہ نہ تو میں ان کی بستی کا واسی ہوں نہ انکے جھنڈ کا کوئی فرد ابھی تک تو مجھے انجان سمجھ کر انھیں مجھے کھا جانا چاہیے تھا یا مار دینا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ڈر کے مارے ابھی میرے اوسان اپنی جگہ آن کے ٹکنے نہ پائے تھے کہ میں نے دور سے اپنی طرف آتی ایک اڑتی ہوئی بدصورت جننی کو دیکھا۔

جس نے اپنے ہاتھ میں ایک آئینہ تھام رکھا تھا۔ جو شاید وہ مجھے دکھانے لا رہی تھی۔ شاید میرے چہرے پر سے اڑتی ہوائیاں دیکھ کر وہ میرے دل کی بات میرے دل کے سوالات جان چکے تھے۔ 
پلک جھپکنے سے پہلے وہ جننی آئینہ لیئے میرے سامنے تھی۔ جونہی میں نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی خود کو دیکھ کر یقین جانیئے میں تو غش کھا کر گرنے والا تھا۔ یہ کیا میرا جسم سر سے پاؤں تک آس پاس کے گھومنے والے بدصورت لوگوں کی طرح کا بن چکا تھا۔

جیسے ہی میری نظر زمین پر پڑی زمین میرے پاؤں سے دو اڑھائی ہاتھ نیچے ہی لیٹی ہوئی تھی۔ یعنی اس سردار کی جادوگری اور ساحری کے اثر نے مجھے ان کے جیسا بنا دیا تھا۔
میں ابھی اسی شش و پنج میں مبتلا یہ سب دیکھ رہا تھا آیا کہ میں کوئی سپنا دیکھ رہا ہوں یا حقیقتا میں ایک جن کا روپ دھار چکا ہوں۔ اگلے ہی لمحے تخت والی سائیڈ سے بلند ہوتے ایک نگارے نے سب کی توجہ تخت کی جانب متوجہ کروائی۔

تخت کے داہنے ہاتھ کھڑے دربان نے اعلان کیا ہمارے آقا زکوٹا جن آپ تمام تر آنے والے مہمانوں سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اس شاندار محفل کو سجانے کی وجہ بیان بتانا چاہتے ہیں۔ سب کی سماعت و بینائی کا محور تخت اور زکوٹا جن تھا۔ جو کہ سب سے مخاطب ہونے کے لیے اپنے تخت سے اوپر کو اٹھ کر کھڑا ہوتا معلوم ہوا۔ سب سے پہلے زکوٹا جن نے تمام تر حاظرین محفل کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جو اس محفل کی شان بنے۔

محفل سجانے کی وجہ بتلانے کی بات پر آتے ہوئے زکوٹا کا کہنا تھا۔ آج ہماری سلطنت کی چڑیل ملکہ بل بتوڑی کی سالگرہ ہے۔ یہ سب اہتمام انہی کہ سالگرہ کی خوشی میں کیا گیا ہے۔ یہ سن کر زکوٹا دوبارہ سے اپنے تخت پر براجمان ہو گیا،اور چاروں طرف سے تالیوں کی آوازیں گونجنے لگ گئیں۔
 جونہی زکوٹا نے اپنی آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑایا تو آسمان کی حدوں کو چھوتا ہوا اک کیک نمودار ہوا۔

جس کو کاٹ کر بل بتوڑی کی سالگرہ کے جشن کو مذید چار چاند لگائے جانے تھے۔ پل بھر کے لیے تو یہ سب دیکھ کر مجھے بہت بھلا لگا۔ کیونکہ مجھے بچپن سے ہی کیک بہت پسند تھے۔ اور آنکھوں سامنے کیک دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ مگر من ہی من مجھے یہ سوچ سوچ کر خوف آ رہا تھا کیا میں ساری زندگی ایسے ہی ایک جن بن کر گزاروں گا۔ میرا دل گھر جانے کو چاہ رہا تھا۔

جسے شاید پہلے کی طرح زکوٹا جن نے میرے چہرے کی تاثرات سے بھانپ لیا تھا۔ کیک کا ہلکا سا ٹکڑا میرے چہرے پر مل کر زکوٹا نے آنکھیں بند کر کے من ہی من میں کچھ پڑھا۔ اگلے لمحے میں پھر سے اسٹور روم کے پردے کو پکڑ کر کھڑا تھا مگر سامنے کا منظر وہاں سے ہٹ چکا تھا۔
 میں واپس آ کر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ صبح صادق الارم کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھیں ملتا ملتا واش روم کی راہ پکڑ کر جونہی میں واش روم کے آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس زکوٹا کا میرے چہرے پر لگایا ہوا کیک ابھی تک میرے چہرے پر لگا ہوا تھا۔ میں یہ سوچ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا کیا رات والا سارا واقعہ سچ تھا یا بس میرا وہم تھا۔ اگر وہم تھا تو میرے چہرے پر لگا یہ کیک کہاں سے آیا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :