بچے من کے سچے

جمعہ 5 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

جیسا کہ رنگ کسی بھی خاکے کی جان ہوتے ہیں۔ رنگوں کے بنا خاکہ بس چند کھینچی ہوئی لکیروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا،بالکل اسی طرح کسی بھی گھر کا آنگن بچوں کے بنا بھی مانوں کہ اک خاکہ ہی ہوتا ہے۔ گھر چاہے کتنا ہی مربع میٹر کیوں نا پھیلا ہوا ہو۔ اگر اس گھر میں ہنستے کھیلتے دوڑتے بچے موجود نہ ہوں تو اس گھر میں اداسی و ویرانی کے چار دو ڈیرے ہوتے ہیں۔

گھر بیشک چھوٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اس میں رونے چیخنے کھیلنے کودنے والے بچے موجود ہوں تو اس گھر کی رونق میں مذید چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اولاد پانا کس کے دل کی حسرت نہیں ہوتی۔ ہر شادی شدہ جوڑے کی یہ دل کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا آنگن بچوں سے بھرا نظر آئے۔ کون عورت چاہے گی کہ اسکی کوک اس عظیم نعمت سے خالی رہے۔

(جاری ہے)

مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

خدا کے فیصلوں کے آگے ہم بے بس ہوتے ہیں۔ وہ جسے چاہے اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازے جسے چاہے اس سے محروم رکھے۔ مگر ہمیں ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
طفل کے بنا گھر سنسان لگتا ہے
پل میں پل بھر کا مہمان لگتا ہے

عیدالفطر کی نماز پڑھ کر جوں ہی میں نے گھر کی دہلیز کے اندر پاؤں رکھا۔ گھر کے چھوٹے بچے عیدی لینے کے لیے اپنی چھوٹی چھوٹی ہتھیلیاں پھیلائے میرے سامنے آن کھڑے ہوئے۔

اگلے لمحے جوں ہی سب بچوں کو اپنے اپنے حصوں کی عیدی ملی سب بچے بڑے ہی جوش و خروش سے بھاگتے ہوئے گھر کی بالکونی کی طرف بھاگ گئے۔ سب بچوں کو یوں ہنستا مسکراتا کھیلتا کودتا اور عید کی خوشیوں سے خود کو لبریز کرتے  دیکھ کر مجھے اپنا بچپنا یاد آ گیا، گھر کے آنگن میں کھیلتے کودتے ان بچوں کو دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کی عید کے وہ لمحات بہت شدت سے یاد آنے لگ گئے جب عید کے دن صبح صادق اٹھتے ہی نقلی گن لینے کی غرض سے اپنے محلے کی دکان کا رخ کیا کرتا تھا۔

بچپن کی وہ عید جب سارا دن گھر سے باہر اپنے چھوٹے چھوٹے ننھے دوستوں کے ساتھ بیتایا کرتا تھا۔ مگر اب سب کچھ ہی بدل گیا۔ وقت کی کروٹ نے سب الٹ کے رکھ دیا۔ میں کب کیسے اتنا بڑا ہو گیا کہ چاہ کر بھی وہ عید نہیں منا سکتا۔ مگر خدا جس حال میں رکھے الحمداللہ کیا حسین دور ہوتا ہے جب نہ تو کسی چیز کی فکر ہوتی ہے نہ ہی کسی چیز کی ٹینشن ہوتی ہے بس خود کی لائف اپنے طریقے سے جینے کی آزادی ہوتی ہے۔

وگرنہ بڑے ہو کر تو ہر بدلتے لمحے کے ساتھ خود کو اس آنے والے وقت میں ڈھالنا پڑتا ہے۔
بچپن کے سہانے دنوں کی یاد آ گئی
نجانے کیوں اتنے سالوں کے بعد آ گئی
کیسا سہانا دور تھا
گھر میں ناچتا مور تھا
چاند کے پیچھے بھاگتے تھے
صبح ماما کے سنگ جاگتے تھے
فریج سے چیزیں کھاتے تھے
روز لائف بوائے سے نہاتے تھے
بابا سے جب پڑتی تھی
تپ بڑی ہی چڑھتی تھی
ماما کے دولارے تھے
سب کی آنکھ کے تارے تھے
نہ کوئی فکر تھی نہ کوئی تھی ٹینشن
نہ ٹویٹر کے پنگے تھے نہ فیس بک کے مینشن
دادی کہانی سناتی تھی
پرانے راز بتاتی تھی
عیدی ڈھیرو ملتی تھی
باچھیں ہماری کھلتی تھی
دس روپے کی پسٹل تھی
بابا سے ملنی اٹل تھی
پانی کا پستول بھی تھا
زکوٹا جن کا خول بھی تھا
مسجد میں جایا کرتے تھے
سجدے میں ٹانگیں اٹھایا کرتے تھے
بھائی کے کندھے کی سواری تھی
بچپن کی موج مستی ہمہ دم جاری تھی
نجانے کہاں چلا گیا وہ بچپنا
تھا کوئی خواب یا تھا کوئی سپنا

تین سال سے بارہ سال تک کی عمر کا دورانیہ ایک انسان کی زندگی کا سب بڑا خاصہ ہوتا ہے۔

اگر انسان کے بس میں ہو تو کوئی بھی اس دور سے چاہ کر بھی نہ نکلنا چاہے۔  مگر یہ قدرت کا اصول جو ٹھہرا کہ وقت کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا اور کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ جو پیدا ہوا ہے۔ اس نے بچپن کی گلیوں سے گزر کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ کر بڑھاپے کی منزل کو پہنچنا ہی پہنچنا ہوتا ہے۔ اور اپنے پیدا کرنے والے سے جا ملنا ہوتا ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کر لے قدرت کے اس اصول کو بدل نہیں سکتا۔

یوں کہہ لیں انسان زندگی کے پنجرے میں قید اک پنچھی ہے۔ اور خدا تعالی اس کے صیاد ہیں۔ جب تک اس پنچھی کے لیے موت کا فرمان جاری نہیں کر دیا جاتا۔ اس نے اسی قید میں رہنا ہے۔ پھر لاکھ چاہے یہ قید اسکی پسند کی ہو یا نہ ہو۔
چھوٹے بچے عموما اپنی مما کے ننھے منے جاسوس ہوتے ہیں۔ جو مما کے کہنے پر بابا کے ہر چھوٹے موٹے کام کی سی۔آئی۔ڈی مما کو چند پیسوں کے عوض بیچتے ہیں۔

عمر کے اس دور میں جب جاسوسی بنا کسی ٹریننگ کے سر انجام دی جاتی ہے۔ تب بابا کی تھوڑی ست کان کھچائی پر سب سچ خود بخود ہی سامنے بھی آ جاتا ہے۔ تب سب کے چہرے پر ہنسی اور بچے کے منہ پر روتلو شکل بن جاتی ہے۔ جو گھر کی رونق میں مذید اضافہ کیئے دیتی ہے۔ بچوں کی نیچر ان کے عمل و اعمال ہی دل لبھانے والے اور غم بھلانے والے ہوتے ہیں۔ پنجابی کا ایک مشہور قول ہے۔


''جواک بلائے دے ہندے نے''

یعنی بچے اس شخص کے ذیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ جو انھیں سب سے زیادہ پیار کرتا ہو۔ انھیں بلاتا ہو۔ ان کے ساتھ کھیلتا ہو۔ ہاں البتہ کبھی کبھار یہی بچے غصے میں بھی آ جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی ان کی بات ٹالی جائے۔ پھر ان کی سب سے بڑی ہٹ دھرمی اور غصہ دکھانے کا واحد ذریعہ زمین پر زگ زیگ بنانا یعنی ناگن ڈانس کرنا ہوتا ہے۔

جس کا مقصد اپنی جائز نا جائز خواہشات کو منوانا ہوتا ہے۔ مگر ان ننھے منے بچوں کا غصے بھی بڑا ہی پیارا ہوتا ہے۔ دل چاہے تو غصے کرتے کرتے آنکھوں سے آنسو بہانے لگ جائیں۔
بچے من کے بہت ہی کچے اور سچے ہوتے ہیں۔ بچوں کا من گویا کہ کسی کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ جس پر آپ جو چاہیں مرضی لکھ سکتے ہیں۔ مگر مٹا نہیں سکتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ گھر کے مسائل ڈسکس کرتے وقت بچوں کو پاس مت بٹھایا جائے ورنہ ان کے دماغ پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔

جیسا کہ ماں کو بچوں کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے۔ جو درسگاہ سے انسان کو سیکھنے کو ملتا ہے انسان ہمیشہ اسی پر عمل درآمد کرتا ہے۔ پھر چاہے وہ تربیت کی آڑ میں بچے کے ذہن میں دوسروں کے لیے فطور پیدا کیا گیا ہو۔ یا اسے مکھن کے پیڑے کی طرح نرم و گداز بنایا جائے۔ اس لیے ایک میاں بیوی کو بھی یہ چاہیے کہ اگر ان میں ان بن بن بھی جائے کسی معاملے میں نوک جھوک ہو بھی جائے۔

تو کبھی بھی اپنے بچوں کے پاس لڑائی جھگڑا یا اونچی آواز میں اس معاملے کو ڈسکس نہ کریں وگرنہ وہ تمام تر باتیں اس کے ذہن میں مافق کسی نابھولنے والی یاد کے سیو ہو جائیں گی۔  اسکی وجہ یہی ہے۔ بچہ چھوٹی عمر میں ہی ٹینشن لے گا اور اپنی بساط سے ذیادہ بوجھ اپنے سر لادے گا جسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اس بوجھ تلے دب جائے گا۔ بچپن میں جب بچوں کو گھر کی دہلیز پر اغواء کاروں سے دور رکھنے کے لیے بٹھایا جاتا ہے۔

اسکے پیچھے بھی یہی وجہ ہوتی ہے۔ کیونکہ بچے یوں کہہ لیں کہ برگد کے پیڑ کی ٹہنی کی طرح ہوتے ہیں۔ جنہیں جس طرف موڑا جائے گا۔ وہ اس طرف مڑتے چلے جائیں گے۔ جس سمت انکا رخ موڑنا چاہو گے وہ مڑ جائیں گے۔ بچوں کے اسی بھولے پن کا یہ ظالم لوگ فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں چاکلیٹس اور ٹافیوں کا لالچ دیتے ہوئے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس برگد کی ٹہنی کے ساتھ کبھی بھی کھینچ تانی نہ کی جائے وگرنہ وہ کہتے ہیں نا کہ آسمان کا تھوکا منہ پر ہی آن گرتا ہے۔

اسی طرح ان بچوں کی جیسے تربیت کرو گے جیسے رنگ ان کچے خاکوں میں بھرو گے کل کو وہی تمہیں دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر آج گندم بوئی ہے تو کل کو گندم ہی کاٹو گے۔ گندم بو کر مکئی کی یا کسی اور فصل کی امید کرنا سرا سر بے وقوفی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اک من چاہی بلڈنگ کھڑی کرنے کے لیے اس بلڈنگ کے عین مطابق اسکی بنیاد رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اپنے بچے کو ایک کامیاب فرد دیکھنے کے لیے اسکی ایک کامیاب تربیت کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

وگرنہ من چاہی چیز چاہ کر بھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
بچوں کی ایک خوبصورت بات جو مجھے بہت بھلی لگتی ہے وہ ہے انکی معصومیت جو کہ انھیں کسی بھی بات کو بےدھڑک بولنے کی ہمت دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ سننے والے کو بھلے ہی بری کیوں نہ لگے۔ ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جب میں چھوٹا تھا تب میرے بابا جانی اور میری آپو ایک پرائیویٹ اسکول کے اینوئل فنگشن پر ایز اے گیسٹ بلائے گئے۔

جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں ذیادہ تر نچلی سطح پر واقع اسکول ایریا وائز زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔ اس اسکول کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اپنے گھر کے ایریا کو دیکھتے ہوئے میری آپو وہاں سٹیج پر سب کے سامنے یوں گویا ہوئیں۔ اس اسکول سے بڑا تو ہمارے گھر کا ہال ہے۔ انھوں نے یہ بات کچھ ایسے بھولے انداز میں اور سفاک لہجے میں کہی کی پل بھر کے لیے سب سٹیا ہی گئے۔

لیکن اگلے ہی لمحے سب انکی معصومیت پر ہنسنے لگ گئے۔
جہاں ایک طرف بچے معصومیت کی پرچھائی ہوتی ہیں۔ وہیں دوسری طرف یہی بچے شیطان کے بھی باپ ہوتے ہیں۔ مگر ان کی شیطانیاں شر سے پاک ہوتی ہیں۔ انکی شیطانیوں کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کے تمام تر عملوں میں سب کے لیے پرمسرت لمحات چھپے ہوتے ہیں۔ مالٹے کے چھلکے کو دوسروں کی آنکھوں میں نچوڑ کر بھاگ جانا بھی انہی چھوٹے شیطانوں کے مشاغل میں سے ایک ہے۔

جسے کر کے ان کے چہرے خوشی سے کھل کھلا اٹھتے ہیں۔ شیطانوں کے ان چیلوں سے نپٹنا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ اگر انکا خود کا من کرے تو ہو سکتا ہے۔ یہ آپکے غصے کو بھی بڑی ہی نزاکت سے سہہ جائیں۔ اور دوسری طرف اگر انکے موڈ کی بتی گل ہو اور ایسے میں اگر آپ مذاق میں بھی انھیں کچھ بول دیں گے تو انکی آنکھوں کی ندیاں بہنا شروع ہو جائیں گی۔


یہاں میں اپنے بچپن کی ایک سنہری شیطانی ضرور بتلانا چاہوں گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک رشتہ دار کی شادی میں گیا۔ چونکہ چھوٹی عمر تھی اس لیے دوست بھی چھوٹے چھوٹے ہی تھے۔ سب ننھے منے دوستوں نے ایک پلان بنایا کیوں نا گلاب کے پھول پر لال مرچیں چھڑک کر سب کو سونگھایا جائے۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ اگلے لمحے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔

بس پھر کیا تھا جس نے بھی اس گلاب کی خوشبو سونگھی پھر فلائنگ چپل اور سلاوتیں ہی سننے کو ملیں،مگر ایسا کر کہ جو فن جو سرور ہمیں ملا شاید ہی پھر کبھی ملا ہو۔
کچھ بچے بچپن میں ہی جوانی کی دہلیز کو پہنچ جاتے ہیں۔ ''ناٹ ان دیٹ وے'' میں سوچ کی بات کر رہا زمہ داریوں کی بات کر رہا۔ کیونکہ جب چھوٹی عمر ہی باپ کا سایہ شفقت سر پر سے اٹھ جائے پھر بچپن اٹکیلیوں میں نہیں بلکہ روزگار کے مواقع ڈھونڈنے میں بیت جاتا ہے۔

ایسے بچے جوانی تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سوچیں اور فکریں انسان کو بہت جلد بوڑھا کر دیتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر نے باہر روڈوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو کام کرتے دیکھا ہو گا۔ کچھ پیسے مانگنے میں لگے ہوتے ہیں۔ تو کچھ کسی مستری کے ساتھ اینٹیں ڈھو رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو اپنی بیمار ماں کا علاج کروانا ہوتا ہے۔

تو کسی کو اپنے گول تک پہنچنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجا ہی فرمایا ہے کسی نے۔ضرورتیں انسان سے سب کچھ کروا لیتی ہیں۔
اگر یوں کہا جائے کہ یہ نرم و نازک دل بچے خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے ننھے منے فرشتے ہوتے ہیں،جو بچوں کا روپ دھارے ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ فرشتے بھی تو گناہوں سے پاک ہوتے ہیں جیسا کہ بچے ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہماری درندگی ان فرشتوں کو بھی حوس کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتی۔

آئے دن ایسے کئی سو کیسز سننے کو ملتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے۔ فلاں جگہ ایک پچپن سالہ مرد نے چھ سالہ چھوٹی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔ فلاں جگہ مدرسہ مولوی نے ایک کمسن بچے کے ساتھ زیادتی کر کے اسے گٹر میں دفن کر دیا۔ افسوس کہ ہمیں ان بچوں میں اپنے بچے نظر نہیں آتے۔ ایسا کرنا تو دور کی بات ایک ظرف والے آدمی کے لیے ایسا کرنے کا سوچنا بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہوتا۔ نجانے یہ کمظرف کس گندی نالی کے گندے کیڑے ہیں جو ایسے نازیبا اور دل دہلا دینے والی حرکات کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :