ایک دلخراش حقیقت(موت)

بدھ 17 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

کل نفس ذائقہ الموت
ہر ایک(ذی روح) نے موت کا زائقہ چکھنا ہے۔(القرآن)
یہ زندگی گویا کہ پانی کا ایک بلبلہ ہے جسے نجانے کب کہاں کس موڑ پر موت کی ہوا اپنے ساتھ لے اڑے خبر نہیں، ہم اس دلخراش حقیقت کو کبھی جھٹلا نہیں سکتے۔ اس دنیا فانی میں بسنے والا ہر انسان ہر چرند پرند یہاں ایک مخصوص وقت کے لئے قیام پذیر ہے جب اسکو دیا وقت ختم ہو جائے گا وہ یہاں سے کوچ کر جائے گا اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو نجانے کتنی ایسی ہستیاں ایسے لوگ آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں جو کل ہمارے ساتھ تھے اور نجانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو کل نہیں تھے لیکن وہ آج ہماری زندگی میں اچھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں
لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو کل ہمارے ساتھ تھے انہیں ہم نے بھولا دیا یا انھیں ہم بھول گئے ہاں البتہ وقت ایسے دلخراش زخموں کے لئے اچھا مرہم ثابت ہوتا ہے رفتہ رفتہ زخم قدرے گھل جاتے ہیں اور تکلیف قدرے کم پڑ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ایسا کہنا کہ جو مر جاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ بھول جاتے ہیں یاد نہیں رہتے ایسا بالکل بھی نہیں ہے یہ صرف وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہو پنجابی میں کہتے ہیں
''گوڈا جسدا پھجا ہوئے پیڑ اس نوں ای ہوندی اے''
ابھی حال ہی میں جہاں پہلے ہی کورونا نامی وبائی مرض نے تہلکہ مچا رکھا تھا وہیں آج ہماری ٹی وی انڈسٹری کے ایک نامور اینکر ایک لیجنڈ پرسن طارق عزیز جو کہ پی ٹی وی پر نیلام گھر کے نام سے ایک شو چلاتے تھے مرض دل کی بدولت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
''دیکھتی آنکھوں،سنتے کانوں کا طارق عزیز کا خدا حافظ'' جیسے کلمات سے اپنے پروگرام کا اختتام کرنے والا آج سچ مچ میں ہی خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خداتعالی نے انسان کو فطرتا کچھ اس انداز سے بنایا ہے کہ یہ لاکھ پتھر دل ہونے کے باوجود کسی کے نقصان کا سن کر کسی کی موت کا سن کر آبدیدہ ضرور ہوتا ہےپھر چاہے چند سیکنڈوں کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ مرنے والے کا ہم سے خونی رشتہ ہو یا  اسے ہم فیزیکلی جانتے ہوں نہیں یہ میٹر نہیں کرتا۔

طارق عزیز سے ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم نے ان کے لئے نیر بہائے ان کے گھر والوں کے لئے صبر کی دعائیں کیں ان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں اور ایک باپ کا خون ہمیشہ اپنوں کو تکلیف و پریشانی میں دیکھ کر جوش مارتا ہے۔
لیکن کسی کے دور چلے جانے پر کسی کی وفات پر ہمارا رد عمل خود کو مار پیٹ یا نوحہ خوانی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ قدرت کا اصول ہے جو پیدا ہوا ہے اس نے ایک نا ایک دن مرنا ہے یہ الگ بات ہے کوئی پہلے مر گیا کوئی بعد میں مر گیا کسی بچے کی ماں کو کسی کے باپ کو پیدا ہوتے ہی اس سے کھونس لیا گیا۔

یہ سب اوپر والے کے کھیل ہیں۔ کچھ ماں باپ اور کچھ بچے ایسے بھی خوش نصیب ہیں جن کی تیسری سے چوتھی پیڑی چلتی آ رہی ہے لیکن ماں بھی حیات ہے باپ بھی حیات ہے اور تمام تر بچے بھی حیات ہیں۔اور کہیں ایسا بھی ہے کہ کسی کی نسل ہی جڑ سے ختم ہو چکی ہے۔
لیکن ہمیں ہر حال میں صبر کی راہ پر ہی چلنا چاہیے کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔ ہم چاہے لاکھ رو لیں پیٹ لیں لیکن جو چلا گیا ہے اس نے واپس تو نہیں آ جانا نا اس لئے پھر ایسی صورت میں ہمارے پاس صبر بچتا ہے۔

ہاں البتہ جو چلے گئے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد ہم  قرآن شریف پڑھ کر انھیں بطور ہدیہ پیش کر سکتے ہیں جسکا ثواب پا کر انکے درجات بلند بالا ہو سکتے ہیں خدانخواستہ اگر کوئی خداتعالی کے عذاب میں جکڑا ہوا ہے اسے خلاصی مل سکتی ہے۔
اس لئے جب بھی کوئی آپکا اپنا فوت ہو جائے یا کسی کے مرنے کی خبر آپ کے کانوں تک پہنچے بجائے خود کو پیٹنے کے آپ اس مرنے والے کے حق میں دعا کیا کریں
ہمارے بزرگ کہتے ہیں جو مر گیا سمجھو وہ گناہوں سے بچ گیا یعنی ہم جتنا ذیادہ جیئے گیں آئے دن اپنے اوپر گناہوں کا بھار بڑھاتے ہی چلے جائیں ماسوائے ان کے جن کو خدا نے اپنے نیک کاموں کے لئے چن لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :