باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک

جمعرات 29 جولائی 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

25جولائی 2011ء بروز پیر میرے والد محترم ضمیر احمد قریشی اس دنیا فانی سے رخصت فرما کر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔موت کے فرشتے نے سر سے والد کا سایہ چھین لیا۔میری آنکھوں کے سامنے والد محترم نے بستر مرگ پر سامان رختِ سفر باندھا۔ بے اختیار میرے منہ سے آواز نکلی ابو، ابو لیکن کوئی جواب نہ آیا۔پاوں تلے سے زمین نکل رہی تھی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔

بے بسی اور رنج و الم کی تصویر بنے سرہانے کھڑا تھا زبان سے إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ ادا کرنے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔ دنیا یقینًا عارضی ٹھکانہ ہے۔ سب نے چلے جانا ہے لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں انکی موت واقعی ایک امتحان ہوتی ہے۔
25جولائی 2011 کو آخری بار لفظ ابو پکارا اس کے بعد یہ لفظ ادا کرنے کا حق میرے پاس نہ تھا۔

(جاری ہے)

قدرت نیلفظ ابو سننے اور ابو کے کردار کے لیے مجھے منتخب کر لیا تھا۔ وقت گزرتا گیا ۔گیارہ سال بیت گئے لیکن 25جولائی کا دن آج بھی قیامت خیز لگتا ہے۔ کاش 25جولائی کو ایسا نہ ہوتا۔
والد صاحب کا جسدِ خاکی جو خاک کی امانت تھا اپنے ہاتھوں سے مرکزی قبرستان (گھوڑے شاہ) میں سپرد خاک کر دیا۔ اب زندگی گزارنے کے لیے انکے افکار اور وہ نیک نامی بچی تھی جو انھوں نے کمائی۔

اسی سرمایہ کو اپنے دامن میں سمیٹ کر زندگی کے سفر پر آگے بڑھنا شروع کردیا۔الفاظ جتنے بھی بامعنی یا احترام سے بھرے لکھ لوں والد محترم کی جدائی کا غم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ آنکھیں نم، دل بے قرار، ماضی کی حسین یادوں کا ایک الجھا ہوا سلسلہ سوچ کو جکڑے ہوئے ہے۔ کچھ بھی لکھ لوں احساسات کو الفاظ کی شکل میں قرطاس پر منتقل کرنے کی صلاحیت سے خود کو عاری ہی محسوس کرتا ہوں۔


والد محترم ضمیر احمد قریشی نے زندگی ایک جہد مسلسل کی طرح گزاری۔ متحدہ ہندوستان میں ایک با حیثیت زمیندار گھرانہ قریشی الفاروقی میں آنکھ کھولی۔ قصبہ شاہ آباد ضلع کرنال مشرقی پنجاب کی آسودہ حال زندگی 1947کو بدل گئی جب پاکستان قائم ہوا۔ ہجرت کے وقت حقیقی بہن کو شہید ہوتے دیکھا۔ کرنال سے اوکاڑہ سکونت کا سفر بھی آگ و خون کے دریا کو عبور کرنے کے مترادف تھا۔

دادا حضور صوفی بشیر احمد نے جائیداد و املاک کی الائمنٹ میں دلچسپی نہ لی جب بہت سارے دنیادار جعلی کلیم کے ذریعے جائیدادیں بناتے رہے۔ ترک دنیا اختیار کرکے خود کو عبادت الہی میں مشغول کر لیا۔ والد صاحب نے رزق حلال کمانے اور بہن بھائیوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا کم عمری میں ہی ستلج کاٹن ملز میں ملازمت اختیار کی۔روزی روٹی کا سلسلہ کے ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

اسلامیہ ہائی سکول(جالندھر) اوکاڑہ میں بطور معلّم تدریس کا آغاز کیا۔ آج کے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول اوکاڑہ سٹی میں ہزاروں طالب علموں کی زندگیوں کو علم سے روشن کیا۔ باحیثیت استاد نیک نامی کمائی۔ وہ اپنے زمانے کے اردو کے بہترین استادوں میں شمار ہوتے تھے۔ہر شعبہ زندگی میں انکے شاگرد ملک و قوم کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور دے رہے ہیں۔

راقم الحروف جہاں بھی گیا والد صاحب نے جو نیک نامی کمائی اس عزت و احترام کی وجہ سے ہمیشہ محبت کا حق دار ٹھہرا۔ والد محترم نے عزت کے ساتھ معاشی وسائل کا بھی بندوبست کیا آج خدابزرگ و برتر کے کرم سے والد صاحب کی محنت کا پھل میّسر ہے۔ نیک نامی اور رزق حلال والد صاحب کے طفیل ہی میّسر ہے۔ دنیا کی سب نعمتیں میّسر ہیں کمی ہے تو والد کے سایہ کی، اس گھنی چھاوں کی جس کے ہوتے ہوئے کبھی خود کو کمزور محسوس نہیں کیا آج بے رحم دنیا میں ماں کی دعاوں کے سہارے کھڑا ہوں۔

ناتواں ہوں کمزور ہوں لیکن الحمدللّہ مجھے فخر ہے میں ضمیر احمد قریشی کا سپوت ہوں انکی کمائی نیک نامی اور تربیت نے مجھے ہمیشہ غلط اور صیحح راستہ میں تمیز کرنے پر کار پابند ہوں۔ اپنی خاندانی روایات سے ہٹ کر چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ دنیاو دولت کسی چیز کی تمنّا نہیں۔ احترام آدمیت کا قائل ہوں اور علم کی پیاس بجھانے کا متلاشی ہوں۔

میں ذاتی طور پر جو کچھ بھی ہوں اپنے والد ضمیر احمد قریشی کی وجہ سے ہوں۔ یہ عزت اور شہرت ملی اس میں اللہ تعالی کے فضل کرم، والد محترم کی محنت اور والدہ کی دعاوں کا نتیجہ شامل ہے۔ میرا سر فخر سے بلند ہوتا ہے جب لوگ شاندار الفاظ میں میرے والد کی خدمات اور شفقتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے میں ایسے باپ کا بیٹا ہوں جہنوں نے اپنی محنت اور دیانیتداری سے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری۔

مجھے وہ بچپن کا وقت بھی یاد ہے جب میرے والد توانا جسم، باوقار خوبصورت چہرے،خوش لباس شخصیت کے طور پر میرے ساتھ شفقت فرماتے تھے۔ میں اس وقت کو بھی فراموش نہیں کرسکتا جب وہ ضعف العمری میں عارضہ قلب اور شوگر کے مرض سے کمزور اور سہارے کے محتاج ہوگئے۔ آخری ایک سال میں انہیں باغرض علاج بلاناغہ ڈاکٹر اعظم کے پاس لے کر جاتا رہا۔ میں خود کو بھی ڈاکٹر اعظم کا مقروض سمجھتا ہوں انہوں نے اپنے استاد کا علاج بلا معاوضہ کیا اور محبت کا اظہار کیا۔


میں نے اپنے والد کی زندگی سے یہی سبق سیکھا ہے کہ دولت ورثا کے کام آتی ہے جبکہ نیک نامی اور محبت مرنے کے بعد بھی انسان کے لیے بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔ آج انکی برسی پر ان سے پیار کرنے والوں کی طرف سے کلام پاک کے تفحہ اور دعاوں کے پیغامات وصول ہوئے۔ الخدمت ویلفیر کونسل رینالہ خورد میں والد محترم کی یاد میں پروگرام رکھا انکے لیے دعا مغفرت کا اہتمام کیا۔

بس یہی حاصل زندگی ہے۔ میں سب کا ممنون ہوں جہنوں نے والد متحرم کے لیے دعائیں کی اور مجھ پر دست شفقت رکھا۔ برادر حقیقی اورراقم الحروف کی اہلیہ کس کس کے نام لکھوں جو میرے غم خوار ہیں۔ سب میرے لیے ایک سرمایہ ہیں۔ خدا تعالی میرے والد کے درجات بلند فرمائے اور انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔بقول شاعر
باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک
ماں دعا ہے جو صدا سایہ فگن رہتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :