گفتن نشتن برخاستن

ہفتہ 12 فروری 2022

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطن عزیز میں آج کل سیاسی میدان میں ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ سردی کے کم ہونے کے ساتھ ہی سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے۔سیاستدانوں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔مختلف سیاسی رہنماوں کے مابین رابطے، ملاقاتیں جاری ہیں۔سیاسی جماعتیں احتجاج کرنے جا رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کے اعلانات کیے۔

صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے حکمران جماعت پی پی پی کے خلاف دھرنے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ٹی آئی نے پی پی پی کے لانگ مارچ کے جواب میں سندھ میں مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی اور پاک سر زمین پارٹی کے دھرنے مذاکرات کے بعد ختم ہوئے۔ ایم کیو ایم نے احتجاج کیا، سندھ حکومت کی جانب سے شرکا پر تشدد کرنے اور طاقت کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا۔

(جاری ہے)

پی ڈی ایم کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی کی قیادت کو ماڈل ٹاون میں دعوت دی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے مہمان بنے۔ ابھی چند دن پہلے ہی آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف لڑنے کی بات کی۔ لیگی قیادت کو دھرتی کے خلاف قرار دیا۔ پی پی پی دھرتی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومتی مخالفت میں ملنے پر مجبور ہے۔

آصف علی زرداری کو گھسیٹنے کا اعلان کرنے والے شہباز شریف انکا استقبال کرنے کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئے۔
حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کی قیادت بھی شہباز شریف کی لاہور میں مہمان بنی۔ پی پی پی کی قیادت مسلم لیگ (ن) سے ملنے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بیٹھی۔ اب مسلم لیگ(ن) بھی مسلم لیگ (ق) کے پاس جارہی ہے۔بلوچستان میں باپ پارٹی نے کھل کر تبدیلی سرکار سے اپنے تحفظات کا اعلان کیا۔

ایک ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کی خبریں آ رہی ہیں۔حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے نمبر پورے ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔حکمران جماعت نے بھی بڑے سیاسی اجتماعات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان خبروں کو پڑھیں تو گمان ہوتا ہے کہ ضرور کچھ ہونے جا رہا ہے۔
صدارتی نظام کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ یہ ایسا موضوع ہے کہ اس پر اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں۔

موجودہ پارلیمان سے آئین میں ترمیم کروانا آسان نہیں۔
قارئین کرام! سب سے غور طلب اور زیر بحث موضوع تو یہ ہے کہ اپوزیشن حکمران اتحاد میں نقب لگانے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں۔کونسی جماعت کس سے بغلگیر ہونے جا رہی ہے۔ یہ جپھیاں جادو کی جپھیاں کب بنیں گی۔۔۔؟آج کے حلیف کل کے حریف ہونگے، ایسا کب ہونے جا رہا ہے یا یہ سب خواہشات ہی رہیں گی۔

ان تمام سوالات اور خواہشات پر راقم الحروف پوری غیر جانبداری، دیانتداری اور ذمہ داری سے لکھے دیتا ہے یہ سیاسی سرگرمیاں صرف گفتن، نشتن برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں۔
حکومت پر دباو تو ضرور بڑھے گا لیکن حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ تبدیلی سرکار قائم رہے گی۔ حکومتی اتحاد میں اختلافات شدت اختیار نہیں کریں گے۔

سب اسی تنخواہ پر ہی کام کرتے رہیں گے۔اپوزیشن کے احتجاج کا فوری کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔احتجاج پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کرے گی لیکن اس کا فائدہ کسی اور کو ہوگا۔ماضی قریب میں مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تو اسکے ثمرات بعد میں سامنے آئے۔ اول نوازشریف اس دھرنا کے نتیجہ میں ملک سے باہر چلے گئے اور جے یو آئی نے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کیے۔

حکومت رخصت ہوئی نہ عوام کو جے یو آئی کے دھرنا کا کچھ فائدہ ہوا۔
پاکستان کی سیاست شطرنج کے کھیل کی طرح ہے پسپائی کبھی آگے بڑھنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے اور کبھی ایک ہی مہرہ کھیل کا نتیجہ بدل دیتا ہے۔ سیاست پروگرام یا نظریات کے تابع ہو تو ایسا نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں تو سیاست موقعہ پرستی پر ہی قائم ہے۔سیاسی شطرنج کے سب سے ماہر کھلاڑی بلاشبہ خطروں کے کھلاڑی آصف علی زرداری ہی ہیں۔

پی پی پی کی سیاسی پوزیشن بہتر ہو گی۔ جبکہ اک واری فیر شیر یہ نعرہ ہی رہے گا۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے والے درمیانی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے حکومتی اتحاد تو کمزور نہیں ہو گا لیکن مسلم لیگ(ن) کے مہروں کے سرکنے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ چند ماہ بعد ہی حکومت گرانے میں متحرک مسلم لیگ (ن) خود کو بچانے میں مصروف ہوجائے گی۔


حزب اختلاف کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں اور بیانات سے بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی محاذ آرائی کسی نئے دور کے آغاز کا عندیہ دے رہے ہیں۔ مگر اہم سوال یہی ہے کہ اس سیاسی کشمکش کی وجہ سے فائدہ میں کون رہے گا۔ اس کا جواب سطور بالا میں واضح لکھ دیا ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھ فوری کچھ آنے والا نہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزب اختلاف کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے اپوزیشن کو ایک بار پھر شکست ہوگی۔


سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود ابھی تک اُن کی حکمت عملی کچھ خاص واضح نہیں ہے۔یہ تمام سیاسی ملاقاتیں،رابطے خبروں میں ضرور رہیں گے۔لیکن آئندہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی ہونگے۔حکومت گرانے کے خواہش مند سب ہیں لیکن حکومت بنانے پر کوئی تیار نہیں۔مسائل اس قدر ہیں ان حالات میں مشکلات پر قابو پانا آسان نہیں۔ عام آدمی مہنگائی اور بڑھتی غربت کا جواب ووٹ کی طاقت سے ہی لیگا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک ساتھ اپنی پرفارمنس کا حساب دینا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :