ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل

بدھ 29 دسمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطنِ عزیز میں آج کل سیاسی میدان سرد موسم میں ڈیل، نو ڈیل کی قیاس آرائیوں سے گرم ہے۔ ایک طرف ڈیل کی باتیں ہیں دوسری طرف تردید ہے۔سالِ رواں کا اختتام ہے۔کچھ بھی کہیں لیکن کچھ چہروں پر خوشیاں جھلکتی نظر آتیں ہیں اور زیرِ لب مسکراہٹیں ہیں۔وزیراعظم عمران خان اضطراب میں مبتلا ہیں۔سیاسی انداز میں اظہار خیال کرنے کی بجائے وزیراعظم عمران اپنے ڈھنگ سے ہی بات کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

مایوسی اور غصہ عمران خان کے رویے سے واضح ہے۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے لندن میں نوازشریف سے ملاقات کے بعد جاری بیان نے نوازشریف کے معاملہ میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کردیا۔ایاز صادق کے مطابق نواز شریف واپس آرہے ہیں۔ان کا کہنا ہے نوازشریف سے لندن میں غیر سیاسی شخصیات رابطے کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

خفیہ رابطے کی تصدیق کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لوگ نوازشریف سے ملاقات کر رہے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لاکر انہیں ناکامی اور مایوسی ہوئی۔


جہاندیدہ سیاسی شخصیت آصف علی زرداری نے بھی اس ماحول کو اپنے بیان سے مزید گرم کر دیا۔انہوں نے مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ کے حوالے سے انکے ساتھ رابطہ کی بات کی۔ اس رابطہ کے جواب میں اپنا واضح پیغام بھی دے دیا عمران خان کی رخصتی لازم ہے اسکے بعد ہی بات ہوسکتی ہے۔
وفاقی وزیر شیخ رشید نے جواباً فخریہ انداز میں ببانگ داہل اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ ہونے کا اعلان کر دیا۔

یہ نعرہ مستانہ پی ٹی آئی کے تشویش میں مبتلا حلقوں کے لیے باعثِ اطمینان ہو سکتا ہے لیکن قیاس آرائیوں کا سلسلہ کم نہیں ہوا۔
ڈیل کی آرزو مند مسلم لیگ (ن) اپنے شیرازہ کو بکھرنے سے بجانے کے لیے شہباز شریف کے بیانیہ کو قبول کرتی ہے تو کبھی نواز شریف اور مریم نواز کی عوامی حمایت پر فخر کرتے ہیں۔ نوازشریف کی واپسی کے اعلانات کے ساتھ ہی انکے نہ آنے کے جواز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔


قارئین کرام! سیاستدانوں کے بیانات اور خواہشات اپنی جگہ زرائع بتاتے ہیں نواز شریف کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔مسلم لیگ(ن) نے اپنے ووٹرز کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ نوازشریف کی واپسی کی باتیں اس مصرع کے مصدق ہے '' غالب دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے ''۔اس سے زیادہ ان قیاس آرائیوں میں حقیقت نہیں۔نوازشریف کی واپسی کو زیرِ بحث بنانے میں عمران خان کے ردِ عمل نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

وزیراعظم اگر اس موضوع پر لب کشائی نہ کرتے تو یہ افوائیں اور قیاس آرائیوں کو اہمیت نہ ملتی۔ستم ظریفی دیکھیں کہ مسلم لیگ(ن) نے پہلے پی پی پی کی قیادت پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا الزام لگایا اور اب تاثر یہ دینے کی کوشش کی نواز شریف ہی خفیہ طاقتوں کی آخری چوائس ہیں۔
اعتزاز احسن نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ مجرم ہوتے ہوئے میاں نواز شریف بیرون ملک چلے گئے، وہ بہت اچھے طریقے سے محفوظ مقام تک پہنچ گئے، اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف درخواست تیار کر لی ہے جو جلد ہی سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اگر گِری تو اپنے ہی وزن سے گِرے گی، ن لیگ ایکسپوز ہو چکی ہے۔
سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو ہر طرف ڈیل کی ہی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کو ہی مرکز و محور گردانتے ہیں۔سیاسی لوگ اپنا مستقبل غیر سیاسی لوگوں سے وابستہ کیے نظر آتے ہیں۔مقتدر حلقوں سے ڈیل کی شنید ہے، ڈیل لینے والوں کا تذکرہ ہے لیکن ڈیل کرنے والوں کا کوئی ذکر نہیں۔

خفیہ ملاقاتوں کا تذکرہ ہے۔ بات چیت پر قیاس آرائیاں ہیں، سیاسی ڈائیلاگ کا ذکر نہیں۔ پی ڈی ایم مارچ میں مارچ کرنے جا رہی ہے اور پی پی پی نے جنوری میں حکومت کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کے اعلان کی نوید سنا دی۔ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد سے واپسی کی گارنٹی کے طور وعدہ کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کا تحفہ مل گیا۔ یہ سب سیاسی باتیں ہیں، ڈیل، نو ڈیل اور ابھی صرف ڈھیل ہے۔

آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا، لیکن جس کے حصہ میں کچھ نہ آیا وہ ڈیل نہ کرنے کے بیانیے پر ہی سیاست کرے گا۔ سیاست میں حکمت عملی ہوتی ہے، لائحہ عمل تشکیل دیا جاتا ہے اس کے تحت عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شومئی قسمت ہم ڈیل اور نو ڈیل کے گرداب میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔یہ ڈیل اور نو ڈیل کا چکر صرف ڈھیل کا نتیجہ ہے۔جس دن فیصلہ ہو گیا نوازشریف کی سیاست سیاسی انداز سے ہی ختم ہو جائے گی۔وزیراعظم عمران خان اگر اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرلیں یہ ڈیل کی قیاس آرائیاں بھی دم توڑ دے گی۔ڈیل اور نو ڈیل کر کے جمہوریت کو کمزور نہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :