غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ

اتوار 19 دسمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

16دسمبر سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ 1971ء کو اسی دن پاکستان دولخت ہوا۔اس سانحہ کے اسباب جاننے اور ذمہ داران کے تعین کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا گیا۔اس کمیشن کی رپورٹ نے بہت سے چہروں کو بے نقاب کیا۔ مرکزی کرداروں کا تعین ہوا۔سرکاری سطح پر رپورٹ کے عام ہونے سے قبل ہی اس کے مندرجات شائع ہوتے رہے۔

اور 2000 ء میں بالآخر عام کردی گئی۔شومئی قسمت کرداروں کے تعین اور سزا کے عمل کی بجائے دیگر معاملات کی طرح اس سانحہ پر سیاست ہوتی رہی۔
راقم الحروف ان سطروں میں اس سانحہ کے حوالہ سے اداروں اور شخصیات کے کردار پر لکھنے کی بجائے مناسب سمجھتا ہے کہ اس پہلو پر دعوتِ فکر دے سکے، کس طرح شیخ مجیب الرحمن نے غیر مساوی ترقی کو بنیاد بنا کر عوامی حمایت کو متحدہ پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔

(جاری ہے)

مشرقی اور مغربی پاکستان کی ترقی کے موزانہ کرتے ہوئے بنگال کے استحصال کے تاثر کو عام کیا۔ اس بنیاد پر پاکستان کو تقسیم کر دیا۔چند ناعاقبت اندیش قلم کاروں نے ایوبی آمریت کو سنہری دور قرار دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ترقی اور طرزِ حکومت نے مشرقی پاکستان کی عوام کو مجبور کر دیا کہ وہ وفاق سے ہٹ کر اپنا لائحہ عمل اختیار کریں۔بس یہ مان لیا گیا کہ یہی واحد راستہ ہے جو بنگالی عوام کو استحصال سے نجات دلوا سکتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ترقی کے شور پر دھمال ڈالنے کی بجائے اس تاثر کا اثر زائل کرتے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔مسلم لیگ بنگال میں قائم ہوئی اور قیامِ پاکستان میں بنگال کا کردار کلیدی تھا۔لیکن 24سال بعد ہی بنگال پاکستان کا حصہ نہ رہا۔
قارئین کرام! ایک الیکشن کے نتائج یا سیاسی جماعت کا کردار اتنا طاقتور نہیں ہو سکتا کہ ملک دو لخت ہو جائے۔

اس سانحہ کے پیچھے قائد اعظم کے بعد آنے والی قیادت کی ہوس اقتدار اور طرز عمل تھا جو ملک کو دولخت کر گیا۔ایوب خان کے عہدِ حکومت کو ترقی کا دور کہنے والے یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ترقی کی سمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ غیر مساوی ترقی نے ہی علحیدگی کے بیج بوئے اور اس فضل کو شیخ مجیب الرحمن نے کاٹا۔بنگال کی عوام زبان، معاشی،اور ثقافتی تسلط، عدم مساوات کی شکایات کرتے رہے اور ہمارے حکمران اور دانشور صرف حب الوطنی کا درس دیتے ریے۔

سقوطِ ڈھاکہ کے حوالہ سے کچھ سمجھنے اور نتیجہ پر پہنچنے کے لیے 6 نکات پر جذباتی فضا سے نکل کر سنجیدہ غور و فکر ضروری ہے۔ کاش اس وقت اہلِ اقتدار کی آنکھیں کھلی ہوتیں۔بہتر ہے اب ہماری آنکھیں کھل جائیں۔
6 نکات میں سے پانچویں نکتے میں وضاحت سے کہا گیا کہ مشرقی پاکستان، پاکستان کے لیے سالانہ اربوں روپیہ زرمبادلہ کماتا رہا ہے۔مشرقی پاکستان کی کمائی مغربی پاکستان میں صنعتوں پر خرچ ہوتی رہی ہے اور ان صنعتوں سے جو بچت ہوتی ہے اسے مغربی پاکستان کی بچت قرار دے کر دوبارہ صنعتوں میں لگایا گیا۔

پاکستان کا دو تہائی زرمبادلہ پٹ سن سے حاصل ہوتا ہے لیکن اسے پٹ سن کے کاشتکاروں پر یا مشرقی پاکستان پر خرچ نہیں کیاجاتا تھا۔وفاق نے جو زرِمبادلہ صوبوں پر خرچ کیا اسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔61-1960میں مشرقی پاکستان 32کروڑ دو لاکھ، مغربی پاکستان 34کروڑ ایک لاکھ خرچ ہوا۔
مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔

پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955-60 کے پانچ سالہ منصوبہ میں 55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔
یہ اعدادوشمارایک طرف، شیخ مجیب کا ایک فقرہ کیا کہانی بیان کرتا ہے سن لیں''میں مغربی پاکستان گیا سڑک پر چلتے ہوئے ٹھوکر کھا کر گرا تو سڑک سے پٹ سن کی خوشبو آئی''۔شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کی ترقی کا جو نقشہ کھینچا اس نقشہ نے پاکستان کا نقشہ بدل دیا۔


وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''غیر مساوی ترقی سے ملک محفوظ نہیں رہتا''۔یہی وہ نقطہ ہے جس کو سقوط ڈھاکہ کے حوالہ سے نظر انداز کر دیا جاتا یے۔ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہم سقوطِ ڈھاکہ کو دشمن کی سازش، سیاستدانوں کی نااہلی قرار دے کر اپنا علم مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ ایک اخباری سرخی کی بنیاد پر بھٹو کو اس میں ملوث کرنے کے خواہش مند روزنامہ آزاد کے عباس اطہر کی اپنی تخلیق کردہ سرخی کی وضاحت کو اہمیت نہیں دیتے۔

کئی دانشور اس اخباری سرخی پر آج بھی یقین کیے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے بھٹو سے مقابلہ کی خواہش ہے۔ راقم الحروف نے علمِ سیاسیات میں پڑھا تھا کہ آمرانہ حکومت کے پیچھے صرف ایک شخص کی سوچ اور چند خوشامدی ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہے سقوطِ ڈھاکہ میں مجرمانہ کردار پر بھٹو کو پھانسی نہیں دی گئی اسکے لی? ایک قتل کے مقدمے کا سہارا لیا گیا۔

اگر سقوطِ ڈھاکہ میں بھٹو کا کردار منفی ہوتا تواس وقت کے امیرالمومینین کے غضب سے کیسے بچ سکتے تھے۔
ملک ایک نعرے سے نہ بنتے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔اس کے پیچھے کار فرما عوامل کو سمجھتے ہو ئے اس بات کے اقرار میں ہی ہماری بقا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں غیر منصفانہ ترقی کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اس خطرے کا زبان سے اقرار، عملی اقدامات کا بھی تقاضا کرتا ہے۔

آج کے پاکستان میں بھی وسیب اور بلوچستان سے ایسی آوازیں آتی ہیں۔ یہ آوازیں صرف وہی سن سکتے ہیں جو سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب کو سمجھتے ہیں۔ایوب خان کی ترقی کی تعریف و توصیف کرنے والے نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی ترقی کی علامت ثابت کرنے میں اپنا پورا زور لگاتے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے امید کی جا سکتی ہے وہ غیر منصفانہ ترقی اور اس سوچ کی نفی کرتے رہیں گے۔ اور جلد ہی اپنی بات کو عملی اقدامات کے ذریعے تاریخ میں اچھے الفاظ کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :