''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''

جمعہ 31 دسمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سالا نہ نیوز کانفرنس کے درمیان کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ روسی خبررساں ادارے تاس کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا پیغمبر اسلام کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی خلاف ورزی ہیں۔اس قسم کے اقدامات شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے والے میگزین کے آفس پر حملے کا ذکر کیا۔

صدر پوٹن نے فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو بھی سراہا۔ اس آزادی اظہار رائے کی حدود کا بھی ذکر کیا انہوں نے کہا آزادی اظہار رائے سے دوسروں کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئیے۔ آرتھوڈوکس کرسچن پوٹن نے بہت عمدہ بیان دیا۔

(جاری ہے)

اس سے روس کے ڈیڑھ کروڑ مسلمان جوروسی آبادی کا دس فی صد ہیں اور عالم اسلام کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان خوش ہیں۔

حقیقت شناس، فہم و فراست اور دلیرانہ انداز بیاں کے حامل روسی صدر جو عالمی سطح پر اثرروسوخ رکھتے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پوٹن کی بات کو سنا جاتا ہے کیونکہ عالمی سیاست اور پالیسیوں پر روس کا کردار بہت اہم ہے۔
آزدی اظہار کے نام پر پیغمبر اسلام کی توہین جیسے شر انگیز اقدامات کی حمایت کرکے دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ایک تسلسل ہے۔

گستاخ رسول سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے (نائٹ ہڈ) سر کا خطاب دیا۔ مسلمانوں کے نزدیک انتہائی قابل نفرت شخص کو اعزاز دینے سے ان حرکات کی تائید ہی جھلکتی ہے۔مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ سلمان رشدی کی حرکت کا نوٹس لیا جائے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ایک جلیل القدر پیغمبر کی شان اقدس میں گستاخی کے الزام میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

لیکن حکومت برطانیہ نے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو منظور کرنے کی بجائے سلمان رشدی کو سرکاری طور پر تحفظ فراہم کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ سلمان رشدی کو تحفظ فراہم کر کے دراصل ”آزادی رائے کے حق کا تحفظ کر رہی ہے۔ مسلمانوں نے برطانوی حکومت کا یہ موقف کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کا موقف مسلسل یہی چلا آ رہا ہے۔
2008 میں نیدر لینڈکے سیاست دان گیرٹ وائلڈر نے 'فتنہ' کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں اسلام کے خلاف کئی دعوے کیے گئے تھے۔

نیدرلینڈ میں کسی ٹیلی ویژن کمپنی نے یہ فلم چلانے سے انکار کر دیا، اور کچھ سیاست دانوں نے اس پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی، مگر وائلڈرز نے اسے انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دیا، جس پر متعدد مسلمان ملکوں اور تنظیموں نے احتجاج کیا تھا جس کے دوران درجنوں افراد مارے گئے تھے۔۔2014فرانس میں یہ معاملہ جریدے چارلی ایبڈو میں خاکے شائع کیے جانے کے بعد انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر گیا تھا۔

مسلم دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا اور کئی مسلمان ملکوں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے یورپ میں ایک عرصے سے آزادیِ اظہار کی آڑ میں مبینہ توہینِ رسالت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن کا مسلم دنیا میں شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے اور اس دوران کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

گیرٹ وائلڈر اسلام مخالف موقف کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خاکے بنوانے کے مقابلے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے علاوہ وہ قرآن پر پابندی لگانے اور مسلمان تارکینِ وطن کو نیدرلینڈ سے نکالنے کی مہم چلانے جیسے متنازع کاموں میں ملوث رہ چکے ہیں۔
فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں پر شرانگیز بیان بازی کی۔

انکا کہنا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں بحران کا مذہب بن گیا ہے۔ یورپی حکومتوں نے صدر میکخواں کی حمایت کی۔ صدر فرانس نے کہا تھا کہ سمیول پیٹی نامی استاد اس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد کو ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا ہے۔ لیکن فرانس اپنے کارٹون (پیغمبراسلام کے خاکہ) نہیں چھوڑیگا۔ فرانس میں سیکولر ازم ملک کی قومی شناخت رکھتا ہے کسی ایک برادری کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اظہار آزادی پر قدغن لگانا ملکی اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔


مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبر اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔ آزادی رائے کا مطلب کسی قوم کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور اللہ تعالیٰ کے مقدس رسولوں کی شان میں گستاخی کرنا نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ناروے، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے اخبارات نے ”آزادی رائے“ کی آڑ میں جناب نبی اکرم کے گستاخانہ کارٹون چھاپے تو دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گئے۔

مسلمانوں نے مغرب کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور مقدس مذہبی شخصیات کی توہین اور ان کا مذاق اڑانا آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے۔اکتوبر 2018 میں یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق(ای ایچ سی آر) نے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار کی جائز حدود سے تجاوز کرتی ہے اسکی وجہ سے تعصب کو ہوا ملتی ہے اور مذہبی امن خطرے میں پڑسکتا ہے۔

یہ فیصلہ آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ای ایس نامی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلہ کی اپیل پر صادر کیا تھا۔
قارئین کرام! آزادی اظہار رائے ایک اچھی چیز ہے لیکن اظہار رائے اور شرانگیز سپیچ کے فرق کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہی اس مسئلہ کا اصل حل ہے۔ اپنے ملک میں پر تشدد احتجاج اور سیاست کرنے سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہوسکتا۔ یورپ کی وہ حکومتیں یا شخصیات جو آزادی اظہار کی غلط فہمی کا شکار ہیں انہیں بھی اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔

مسلمانوں کی بات سمجھ نہیں آتی تو آرتھو ڈوکس روسی صدر پوٹن کی بات سمجھیں۔ بہت واضح فرق ہے فری سپیچ اور شر انگیز سپیچ یعنی ''Hate Speech''میں۔جب کسی کی تقریر، تحریر یا رائے معاشرے میں نفرت پھیلانے اور معاشرے میں رہنے والے کسی بھی فرد یا گروہ کی دل آزاری کا سبب بننے لگے تو اس کو روکنا کسی بھی مہذب معاشرے کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ یہی سب کچھ اقوام متحدہ کی قراردادیں سکھاتی ہیں، اور اسلام بھی یہی تربیت دیتا ہے کہ نہ کسی کی دل آزاری کرو نہ کسی کے خدا یا مذہبی شخصیت کو برا کہو۔یہی کہنا ہے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کہ پیغمبر اسلام کی توہین اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :