''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''

جمعہ 24 دسمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو بڑے اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔اپوزیشن جماعتوں کو واضح برتری حاصل ہوگئی۔جمعیت علماء اسلام (ف) نے ایسی کاری ضرب لگائی جس کی آواز ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے۔نتائج کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) نے کل 58 نشستوں میں سے 21 نشستیں جیت کر سب پر سبقت حاصل کرلی۔

تحریک انصاف نے 14, آزاد 9, اے این پی 7,مسلم لیگ (ن) 3, جماعت اسلامی 2, تحریک اصلاحات پاکستان 1, پیپلز پارٹی 1نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ایک میئر اور چیئرمین تحصیل کونسل کی نشست پر الیکشن ملتوی ہوا۔تا دمِ تحریر 6 نشستوں کے رزلٹ آنا باقی ہیں۔
پی ٹی آئی نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ صوبائی وزراء شوکت یوسفزئی اور عاطف خان نے شکست کی وجہ مہنگائی کو قرار دیا، وزیراعظم عمران خان نے امیدواروں کے غلط انتخاب کو شکست کا سبب قرار دیا۔

(جاری ہے)

مردِ کمال، طنز و مزاح میں مہارت رکھنے والے وفاقی وزیر فواد چوہدری شکست میں بھی فتح ہی دیکھتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ کو پی ٹی آئی کا ووٹ سمجھتے ہیں۔ایم این اے نور عالم نے ببانگ دہل ان نتائج کو پی ٹی آئی کی پرفارمنس سے جوڑتے ہوئے پارٹی کی ناکامی قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ہم آ نہیں رہے آگئے ہیں۔نتائج پر تبصرے، تجزیے اور سیاسی بیانات کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

انتخابات کا منصفانہ انعقاد اور نتائج کو تسلیم کرنا ایک اچھی خبر ہے۔
قارئین کرام! سوال یہ ہے کہ اگر نتائج حکمران جماعت کے حق میں آتے تو کیا اپوزیشن تسلیم کرتی۔۔؟ آج اپنی کامیابی پر شادیانے بجانے والے کیاخاموش رہتے۔۔؟اس کا جواب یقینًا نہیں میں ہے۔ہماری سیاسی روایت ہے کہ کامیاب جماعت کو ہی الیکشن نتائج قبول ہوتے ہیں۔شکست کو تسیلم کرنے کی جرأت اور اعلیٰ اخلاقیات کامظاہرہ نہیں ہوتا۔

ان بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کو پی ٹی آئی کی طرف سے تسلیم کرنا بہرحال خوش آئند ہے۔
 مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز جے یو آئی کی کامیابی کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کے کارکن را جہ رمیض احمد خاں کا کہنا ہے حکومت نے بڑی چال چلی ہے ان 17 اضلاع میں شکست تسلیم کر کے EVMمشین کو آئندہ استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس تنقید کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔

پھر بلدیاتی اداروں کو غیر فعال کر دیا جائے گا اور پی ٹی آئی دوبارہ دھاندلی کے ذریعے برسر ِاقتدار آ جائے گی۔اب اس دوراندیشی یا شکست کے خوف پر کیا تبصرہ کریں عوام بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ان بلدیاتی انتخابات کے سب سے تکلیف دہ پہلو پر بات کرتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ کا بے دریغ استعمال ہوا۔
ہمارے ملک کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ صرف سرمایہ سے عبارت ہے۔

حکومت بھی سرمایہ داروں کی اور جمہوریت بھی سرمایہ داروں کے لیے، نظریاتی سیاست رو بہ زوال ہے۔ سرمایہ دار ہی سیاست کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ہماری سیاسی کہانیاں اپنے اندر عوامی رنگ اور نہ ختم ہونے والے اسرار و رموز سے مزین ہیں۔سیاسی مہمات میں صرف دولت کے بل بوتے پر عوامی جوش و خروش کا رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ الیکشن کسی بھی سطح پر ہو سرمایہ شرطِ اوّل قرار دیا جاتا ہے۔

ٹریڈ یونین کی سطح پر بھی ایسی ہی صورت حال بنا دی گئی ہے۔ امروز اوکاڑہ پریس کلب کے سابق صدر کلب کے انتظامی امور چلانے کے لیے منتخب باڈی کے صدر کے انتخاب کے لیے بھی کثیر سرمایہ کے ہونے کو ضروری قرار دے رہے تھے۔ موصوف بضد تھے کہ سرمایہ ہی اصل اہلیت ہے۔ ایسی سوچ کی موجودگی میں بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔کسی بھی سطح پر ووٹ کی طاقت کو کوئی تسلیم کرنے پر تیار نہیں، الیکشن کو مہنگا کر کے نظریاتی کارکنوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔

اب ایسے ماحول میں جیت صرف سرمایہ دار کی ہی ہو گی۔ ووٹر صرف مخالفت ہی کمائیں گے۔یہ صورتحال شعوری طور پر بیمار ذہنیت کی عکاس ہے۔ سیاست جو عبادت تھی اور صحافت خدمت ہوا کرتی تھی اب ایسا کچھ بھی نہیں۔سیاستدان عوامی ترجمانی نہیں کرتے اور اہلِ قلم ان سیاستدانوں کے ترجمان بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔کہاں کی جمہوریت اور کہاں گیا جمہور، بس سب کچھ ہی جی حضوری کے تابع ہے۔


میئر پشاور کے انتخاب کے حوالہ سے مختلف خبروں میں ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں جے یو آئی کے پشاور سے سینیٹر حاجی غلام علی جن کے بیٹے زبیر علی میئر منتخب ہوئے انہوں نے اس انتخاب پر 20 کڑور لگائے۔ پیسے کے بے دریغ استعمال سے الیکشن ہائی جیک کر لیا گیا۔ انتخاب سے قبل یہی سمجھا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی اور اے این پی میں سخت مقابلہ ہے اور پی پی پی تیسرے حریف کے طور پر موجود ہے۔

جے یو آئی تو اس دوڑ میں شامل ہی نہیں تھی۔ایسا چمتکار ہوا کہ نتائج جے یو آئی کے زبیر علی کے حق میں آئے۔ یہ بہت خظرناک بات ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مکمل طور پر سرمایہ دار کے قبضہ میں ہے۔ سب سے پہلے ٹکٹ کے حصول کے لیے ہی سیاسی نہیں سماجی حیثیت کو دیکھا جاتا ہے۔ میِئر یا چیرمین کی نشت کے لیے بھائی، بیٹے بھتیجے اور رشتہ دار ہی اہل قرار پاتے ہیں۔

کارکن صرف نعرے لگانے یا ووٹ ڈلوانے کے لیے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ نظریاتی سیاست کو شکست دینے کے لیے ہر جماعت کے پاس قارون کا خزانہ ہے۔پارٹی قائد بیرون ملک اور شادی کی تقریبات سات دن پر محیط دولت اور رتبہ کی بھر پور نمائش لیکن پنجاب مسلم لیگ (ن) ہی کا رہے گا۔ کے پی کے میں جے یو آئی کے ارب پتی امیدوار اور ووٹر مدارس سے فارغ التحصیل غریب عام آدمی، ایسے ماحول میں کونسی کامیابی اور کیسی تبدیلی۔

۔؟ سب مائع ہے۔
 غریب اپنی ہی شکست کو فتح سمجھ کر جشن منانے میں مشغول ہیں۔ اپوزیشن یا حکومت کی کامیابی اہم نہیں۔جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاسی قیادت کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ عوام کے حالات بدلنے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، فکر و نظر کا دائرہ بدلنا ہوگا، اس نظام کو بدلنا ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخاب کامیابی نظریات یا جمہوریت کی نہیں با اثر طبقات ہی کامیاب ہوتے آئے ہیں اور کامیاب رہیں گے۔

انتخابی نتائج میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن یا حاصل کردہ ووٹ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف نے اعداد و شمار صرف ریکارڈ کے لیے پیش کیے ہیں ملکی سیاست پر ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج کوئی خوشگوار اثرات نہیں چھوڑیں گے اور موقع پرستی اور سرمایہ کاری کی سیاست ہی چلتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :