
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021

سلمان احمد قریشی
پی ٹی آئی نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ صوبائی وزراء شوکت یوسفزئی اور عاطف خان نے شکست کی وجہ مہنگائی کو قرار دیا، وزیراعظم عمران خان نے امیدواروں کے غلط انتخاب کو شکست کا سبب قرار دیا۔
(جاری ہے)
قارئین کرام! سوال یہ ہے کہ اگر نتائج حکمران جماعت کے حق میں آتے تو کیا اپوزیشن تسلیم کرتی۔۔؟ آج اپنی کامیابی پر شادیانے بجانے والے کیاخاموش رہتے۔۔؟اس کا جواب یقینًا نہیں میں ہے۔ہماری سیاسی روایت ہے کہ کامیاب جماعت کو ہی الیکشن نتائج قبول ہوتے ہیں۔شکست کو تسیلم کرنے کی جرأت اور اعلیٰ اخلاقیات کامظاہرہ نہیں ہوتا۔ ان بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کو پی ٹی آئی کی طرف سے تسلیم کرنا بہرحال خوش آئند ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز جے یو آئی کی کامیابی کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کے کارکن را جہ رمیض احمد خاں کا کہنا ہے حکومت نے بڑی چال چلی ہے ان 17 اضلاع میں شکست تسلیم کر کے EVMمشین کو آئندہ استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس تنقید کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔ پھر بلدیاتی اداروں کو غیر فعال کر دیا جائے گا اور پی ٹی آئی دوبارہ دھاندلی کے ذریعے برسر ِاقتدار آ جائے گی۔اب اس دوراندیشی یا شکست کے خوف پر کیا تبصرہ کریں عوام بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ان بلدیاتی انتخابات کے سب سے تکلیف دہ پہلو پر بات کرتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ کا بے دریغ استعمال ہوا۔
ہمارے ملک کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ صرف سرمایہ سے عبارت ہے۔حکومت بھی سرمایہ داروں کی اور جمہوریت بھی سرمایہ داروں کے لیے، نظریاتی سیاست رو بہ زوال ہے۔ سرمایہ دار ہی سیاست کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ہماری سیاسی کہانیاں اپنے اندر عوامی رنگ اور نہ ختم ہونے والے اسرار و رموز سے مزین ہیں۔سیاسی مہمات میں صرف دولت کے بل بوتے پر عوامی جوش و خروش کا رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ الیکشن کسی بھی سطح پر ہو سرمایہ شرطِ اوّل قرار دیا جاتا ہے۔ ٹریڈ یونین کی سطح پر بھی ایسی ہی صورت حال بنا دی گئی ہے۔ امروز اوکاڑہ پریس کلب کے سابق صدر کلب کے انتظامی امور چلانے کے لیے منتخب باڈی کے صدر کے انتخاب کے لیے بھی کثیر سرمایہ کے ہونے کو ضروری قرار دے رہے تھے۔ موصوف بضد تھے کہ سرمایہ ہی اصل اہلیت ہے۔ ایسی سوچ کی موجودگی میں بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔کسی بھی سطح پر ووٹ کی طاقت کو کوئی تسلیم کرنے پر تیار نہیں، الیکشن کو مہنگا کر کے نظریاتی کارکنوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ اب ایسے ماحول میں جیت صرف سرمایہ دار کی ہی ہو گی۔ ووٹر صرف مخالفت ہی کمائیں گے۔یہ صورتحال شعوری طور پر بیمار ذہنیت کی عکاس ہے۔ سیاست جو عبادت تھی اور صحافت خدمت ہوا کرتی تھی اب ایسا کچھ بھی نہیں۔سیاستدان عوامی ترجمانی نہیں کرتے اور اہلِ قلم ان سیاستدانوں کے ترجمان بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔کہاں کی جمہوریت اور کہاں گیا جمہور، بس سب کچھ ہی جی حضوری کے تابع ہے۔
میئر پشاور کے انتخاب کے حوالہ سے مختلف خبروں میں ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں جے یو آئی کے پشاور سے سینیٹر حاجی غلام علی جن کے بیٹے زبیر علی میئر منتخب ہوئے انہوں نے اس انتخاب پر 20 کڑور لگائے۔ پیسے کے بے دریغ استعمال سے الیکشن ہائی جیک کر لیا گیا۔ انتخاب سے قبل یہی سمجھا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی اور اے این پی میں سخت مقابلہ ہے اور پی پی پی تیسرے حریف کے طور پر موجود ہے۔جے یو آئی تو اس دوڑ میں شامل ہی نہیں تھی۔ایسا چمتکار ہوا کہ نتائج جے یو آئی کے زبیر علی کے حق میں آئے۔ یہ بہت خظرناک بات ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مکمل طور پر سرمایہ دار کے قبضہ میں ہے۔ سب سے پہلے ٹکٹ کے حصول کے لیے ہی سیاسی نہیں سماجی حیثیت کو دیکھا جاتا ہے۔ میِئر یا چیرمین کی نشت کے لیے بھائی، بیٹے بھتیجے اور رشتہ دار ہی اہل قرار پاتے ہیں۔کارکن صرف نعرے لگانے یا ووٹ ڈلوانے کے لیے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ نظریاتی سیاست کو شکست دینے کے لیے ہر جماعت کے پاس قارون کا خزانہ ہے۔پارٹی قائد بیرون ملک اور شادی کی تقریبات سات دن پر محیط دولت اور رتبہ کی بھر پور نمائش لیکن پنجاب مسلم لیگ (ن) ہی کا رہے گا۔ کے پی کے میں جے یو آئی کے ارب پتی امیدوار اور ووٹر مدارس سے فارغ التحصیل غریب عام آدمی، ایسے ماحول میں کونسی کامیابی اور کیسی تبدیلی۔۔؟ سب مائع ہے۔
غریب اپنی ہی شکست کو فتح سمجھ کر جشن منانے میں مشغول ہیں۔ اپوزیشن یا حکومت کی کامیابی اہم نہیں۔جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاسی قیادت کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ عوام کے حالات بدلنے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، فکر و نظر کا دائرہ بدلنا ہوگا، اس نظام کو بدلنا ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخاب کامیابی نظریات یا جمہوریت کی نہیں با اثر طبقات ہی کامیاب ہوتے آئے ہیں اور کامیاب رہیں گے۔ انتخابی نتائج میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن یا حاصل کردہ ووٹ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف نے اعداد و شمار صرف ریکارڈ کے لیے پیش کیے ہیں ملکی سیاست پر ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج کوئی خوشگوار اثرات نہیں چھوڑیں گے اور موقع پرستی اور سرمایہ کاری کی سیاست ہی چلتی رہے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.