سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت

بدھ 12 جنوری 2022

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حکومتی اور پارٹی ترجمانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سانحہ مری پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ جلد منظر عام پر لائی جائے گی۔ انہوں نے ریسکیو آپریشن میں فوج اور سول اداروں کی کاوشوں کو قابل تعریف قرار دیا۔وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ حکومت سیاحت کے فروغ پر بھرپور کام کر رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں 12سیاحتی مقام بنائے گئے ہیں۔اجلاس کے دوران حکومتِ پنجاب کے ترجمان حسان خاور نے وزیراعظم کو بریفینگ میں بتایا کہ ایک لاکھ 64ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔متذکرہ بالا اجلاس میں اس سوال پر بھی بات ہوئی کہ، کیا بر وقت اقدامات سے سانحہ مری کو روکا جاسکتا تھا۔۔۔؟
سانحہ مری پر قومی اسمبلی میں بھی بات ہوئی۔

(جاری ہے)

سیاسی تقاریر،مطالبات اور احتجاج سب مناظر دیکھنے میں آئے۔

اخبارات، ٹاک شوز ہر سطح پر سانحہ مری پر بیانات، اعلانات اور مطالبات کی بازگشت ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے سانحہ مری پر جوڈیشل کمیشن بنانے اور وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ سامنے آیا۔بطور اپوزیشن بہترین اخلاقی معیار پر کھڑی موجودہ تبدیلی سرکار جو ٹرین حادثہ پر وزیرِ ریلوے کے استعفی کا مطالبہ کیا کرتی تھی آج صرف انکوائری کمیٹی بنا کر ہی عوام کو مطمئین کرنا چاہتی ہے۔

جبکہ اپوزیشن حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر استعفے کا مطالبہ کرکے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کر رہی ہے۔بلاول بھٹو نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سیاست سے پہلے حکومت انسانیت سیکھے۔
قارئین کرام! سانحات پر سیاست,اور الزام تراشی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے جو یقیننا قابلِ شرم ہے۔ دیکھنا یہ ہے سانحہ مری کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور ذمہ داران کے تعین کے بعد کیا کاروائی ہوتی ہے۔

حکومتی بد اتنظامی اور غفلت سے انکار ممکن نہیں لیکن سب سے اہم بات بلاول بھٹو نے کہی کہ حکومت انسانیت سیکھیے۔ہم بلاول بھٹو سے متفق ہیں انسانیت سیکھنے کی ضرورت صرف حکومت کو ہی نہیں ہم سب کو ہے۔ مری میں انسان کی طرف سے جو غیر انسانی سلوک کیا گیا وہ بہت ہی قابلِ شرم ہے۔ دولت کی ہوس نے اخلاقیات کے ساتھ انسانیت کا جنازہ نکال دیا۔
یہ حقیقت ہے مری میں بدترین نا اہلی، نالائقی اور بدانتظامی کے ساتھ وہ سب بھی جواب دہ ہیں جو حکمران رہے۔

دعوئے بہت بڑے بڑے اور مطالبات وہی سیاسی مقاصد پر مبنی حکومت وقت رخصت ہو۔یہ بہت ہی سطحی باتیں ہیں۔ تعمیرات اور ترقی دینے کے چیمپئن سابق حکمران بتائیں کون سے ادارے بنائے گئے جو فروغِِ سیاحت میں اہم ہوتے اور سانحہ مری جیسے حالات میں فعال نظر آتے۔معصوم پاکستانیوں کو موت سے بچاتے۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر جو بہت ہی بہترین ایڈمنسٹیٹر کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں اور انہیں ایسا بنا کر پیش کرنے والے نہیں بتاسکتے کیسے پنجاب میں بچے آکسیجن نہ ملنے کی وجہ جاں بحق ہوئے۔

تھر میں ہلاکتوں پر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں نے خوب سیاست کی۔ دوسری طرف دیکھیں تو کوئی بھی عوام دوست پالیسی سامنے نہیں لاتا۔ سب کچھ ووٹ کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاحت بڑھتی گئی لیکن سیاحتی مقامات پر انفراسڑیکچر دہائیاں پیچھے رہ گیا۔ بہتر شاہراہوں کی تعمیر نے سیاحتی مقامات تک رسائی تو آسان کر دی، نئے ہوٹلز، پارکنگ پلازے، فعال ریسکیو ادارے کسی پر بھی تو کام نہیں ہوا۔

صوبہ پنجاب میں کوئی ایسا ادارہ جو موجودہ اپوزیشن لیڈر نے بطور حکمران قائم کیا ہو جو کسی ناگہانی آفت یا سانحہ کے وقت متحرک ہوتا۔موجودہ حکومت نے بھی زبانی جمع خرچ سب کچھ کیا۔حقیقت کو نہیں بدلا، حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر سابقہ حکمرانوں نے کاسمیٹک ترقی ووٹ کے لیے عوام کے سامنے رکھی تو تبدیلی سرکار بھی الزام تراشی سے آگے نہیں بڑھی۔


ہم مری میں ہوٹلز کے کرائے بڑھائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سیاحت مجبوری نہیں شوق ہے ، دوسری طرف یہ ایک بزنس ہے اور بزنس میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا قانون ہے۔دنیا بھر میں اسی طرح ہوتا ہے۔حج و عمرہ جیسی مذہبی عبادات کی ادائیگی کے حوالے سے سیزن اور آؤٹ سیزن کا کس کو علم نہیں کیسے پیسہ بنایا جاتا ہے۔

اب اگر کوئی پیک سیزن میں مہنگی ترین سیاحت کے لیے بچوں اور خواتین کے ساتھ گھر سے نکلیں گے تو پیسہ کمانے کے خواہش مند کیوں نہ تیار ہوں۔
 دنیا میں سیاحتی پروگرام کی ترتیب اور ہمارے رویے بھی مختلف ہیں۔ عام طور پربہترین سیاحت کے لیے 6 ماہ قبل پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔سب سے پہلے موسمی حالات، اخراجات کا تخمینہ، سہولیات کی فراہمی سب کو مدِنظر رکھا جاتا ہے پھر فیصلہ ہوتا ہے۔

ہم چند منٹوں میں یا ایک ہی نشست میں فیصلہ کر کے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔سیاحت کے حوالہ سے رہنمائی اور حکومتی سطح پر بھی کوئی پلان نہیں ہوتا سب کچھ حالات پر چھوڑ کر گھر سے نکل آتے ہیں۔ ایسے رویوں کی موجودگی میں پروگرام ترتیب دینے سے بہتر سیاحت اورتفریح ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے سوچ سے اپروچ تک، عام آدمی سے حکومتی سطح تک بہتر پلاننگ ہو۔

سفر پر نکلنے سے پہلے ضرورت اور ایمرجنسی کو سامنے رکھتے ہوئے گرم کپڑوں، خوراک اور پانی کا مناسب ذخیرہ اور ٹائر چین وغیرہ ساتھ لے کر نکلیں۔ کسی بھی مقام پر مقررہ تعداد میں افراد کو داخل ہونے دیا جائے۔گنجائش کے مطابق سہولیات فراہم ہو۔ مقررہ ریٹ، طعام و قیام کو یقینی بنایا جائے۔ ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لیے تمام انتظامات مکمل ہو۔

ہم وطنِ عزیز میں ہر حادثے کے بعد حکومت، انتظامیہ، ریسکیو اداروں، ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر تنقید شروع کر دیتے ہیں، اس حادثے کے بعد بھی ضرور ان اداروں کو کوسنا چاہیے اور ان کی نااہلی کا رونا رونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی عوام کو بھی تربیت اور شعور دینے کی ضرورت ہے،تا کہ آئندہ ایسے حادثات اور واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
سانحہ مری میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مدد کی ہے اور سینکڑوں افراد کو ریسکیو کیا ہے اگر یہ بھی نا ہوتا تو بہت بڑا المیہ جنم لے چکا ہوتا، مری اور گلیات میں سخت موسمی حالات میں لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔


اب حکومت بھی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ مری کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ ہوا۔امید کی جاسکتی ہے پنجاب میں پہلی بار سیاسی بنیاد پر نہیں عام آدمی کو سہولیات کی فراہمی کو سامنے رکھتے ہوئے نیا ضلع کوہسار قائم کیا جائیگا۔ خدا کرے یہ سانحہ سیاحت کے فروغ میں نیا موڑ ثابت ہو۔ قیمیتی انسانی جانوں کے ضیاع سے ہم سبق سیکھیں۔

لالچ اور کاروبار میں فرق کرنے والے بنیں۔ شعور کو بلند رکھیں الزامات کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے حکومت اپنی ذمہ داری قبول کرے۔اب تبدیلی بہت ضروری ہے، سوچ میں، رویے میں اور پلاننگ میں،حکومت کی تبدیلی صرف سیاسی خواہش ہو سکتی ہے عام آدمی کے حالات میں بہتری کے لیے صرف ترجیحات میں تبدیلی ہی اہمہے۔ وقت کا تقاضہ ہے سانحات سے بچنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :