کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

بدھ 25 اگست 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کے مصداق تبدیلی سرکار کو اوکاڑہ کی حالتِ زار بدلنے کا خیال آ ہی گیا۔ پی ٹی آئی کے مقامی رہنما اشرف خان سوہنا نے اوکاڑہ کے رہائشیوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ میونسپل کارپویشن اوکاڑہ کے لیے 3ارب کے فنڈز مختص کردیے گئے ہیں۔شہر میں نکاسی و فراہمی آب، سڑکوں کی تعمیر پر یہ فنڈز خرچ ہونگے۔ اوکاڑہ سے پی ٹی آئی کی نمائندگی نہ ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے مقامی رہنما نے تجاویز بھی مانگ لی۔

اس کے لیے ایک باقاعدہ فورم بنانے کی بات بھی کی گئی۔ اس فورم پر کس کس کو نمائندگی ملے گی اور تجاوز پر کس حد تک عمل ہوتا ہے اس پر حتمی رائے دینا ابھی مناسب نہیں۔ اہل اوکاڑہ کواعلانات اور بیانات کی حد تک خوش ہونے دیں یہی بہتر ہے۔
سب سے پہلے تعجب اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی میونسپل کارپوریشن کے تنظیمی صدر سیلم صادق کی جانب سے یہ اعلان نہیں ہوا بلکہ اشرف خان نے کپتان کے اوپن بیٹس مین کے طور پر اننگز کا آعاز کیا۔

(جاری ہے)

اب دیکھنا یہ ہی کہ دیگر کھلاڑی میدان میں کس ترتیب سے اترتے ہیں۔ کارکردگی تو بعد میں سامنے آئے گی۔ فل حال سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا وقت ہے۔ کون بہتر پرفامنس دِکھاتا ہے اسکا انحصار میڈیا مینجمنٹ پر ہے۔مقامی قیادت کے میڈیا پرسنز سے تعلقات اور نوازشات ہی مین آف دی میچ کا فیصلہ کریں گے۔
قارئین کرام! پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کی فعالیت اور مستقبل کا فیصلہ فنڈز کے درست استعمال پر منحصر ہے۔

راقم الحروف عرصہ سے اوکاڑہ کی حالت زار پر نوحہ گری کرتا آ رہا ہے۔ جنوبی اوکاڑہ ہمیشہ سے ہی نظر انداز رہا۔ اس پر ہمیشہ آواز اٹھائی۔ لیکن آوازِ ناتواں کبھی فیصلہ سازوں کی سماعتوں کو متاثر نہ کر سکی۔اگر یہ مان لیں کہ مقامی قیادت مسائل سے آگاہ ہے تو یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ قیادت فنڈز نہیں دے رہی تھی۔ یہ بے حسی سیاسی قیادت کی مجبوری تھی۔

فنڈز کی عدم دستیابی نے شہر کے مسائل کو دوگنا کر دیا۔
 ان دیگروں حالات کی ذمہ داری موجودہ قیادت پر ہی نہیں بلکہ سابقہ نمائندے بھی اوکاڑہ کو اسکا حق دلوانے میں ناکام رہے۔ مین جی ٹی روڈ گزشتہ دس سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس پر فلائی اور تعمیر ہوا۔ یہ میرے ایم این اے کا منصوبہ تھا۔ صاحب نے بہتر سمجھا اور اس پر فنڈز لگا دیئے گئے فلائی اور تک پہنچنے کے لیے سڑک نا قابل استعمال تھی اور آج تک نا قابل استعمال ہی ہے۔

فلائی اور کی تعمیر عوام کی خواہش تھی اور نہ ہی عوامی رائے اس میں شامل تھی۔ فنڈز استعمال ہوئے فلائی اور بن گیا اس کا واحد مقصد میری ناقص رائے میں یہی تھا کہ اس منصوبے کے افتتاح کے لیے خادم اعلی پنجاب شہباز شریف اوکاڑہ تشریف لاتے اوراسکا افتتاح کرتے۔اسطرح ایم این اے کو شرفِ میزبانی کا اعزاز حاصل ہوتا۔اس منصوبہ سے شہر کے باسیوں کی مشکلات میں کمی ہونے کی بجائے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔

مین جی ٹی روڈ کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ اس واحد مقصد کی تکمیل ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ شہر میں داخل ہی نہ ہوسکے۔بس ٹرمینل ویسے بھی موجود نہیں۔ ایک شکست حال لاری اڈا ہے جہاں بنیادی سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شہر میں نکاسی آب کا سنگین مسئلہ تین سال کا نہیں اس صورتحال کو بھی دس سال سے نظر انداز کیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جنوبی اوکاڑہ مستقل زیر آب ہے۔

مکینوں کی زندگیاں اجیرن ہیں۔ریلوے روڈ پر کاروبار ختم ہوچکا ہے اور پراپرٹی برباد۔۔۔لیکن سب ہی زندہ باد، فرزندِ اوکاڑہ، قائدِ تعمیرِ شہر,خادمِ اوکاڑہ سب ٹائٹل ہمارے نمائندوں کے پاس موجود ہیں۔بینظیر روڈ، بھٹو شہید ہسپتال، پیپلز انڈر پاس، بے نظیر ڈگری کالج جیسے منصوبہ جات ماضی کی عوامی سیاست کی نشانیاں ہیں۔ان منصوبہ جات کے نام بدل دیئے گئے۔

چہرے بدل گئے سیاسی وابستگیاں بدل گئیں نہیں بدلی تو اوکاڑہ کی قسمت نہیں بدلی۔
بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ضروریات کو مدِنظر رکھ کر دیکھیں تو نکاسی و فراہمی آب بنیادی مسئلہ ہے۔ شہر میں سٹرکوں کی تعمیر اور گرین بیلٹ، پارکس کی حالتِ زار کی بہتری میونسپل کارپوریشن کے لیے چیلنج ہے۔
شہر کا سیوریج سسٹم ناکارہ ہے اسکے لیے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔

اسکے بعد آمد و رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ نہر والے پُل کے ریلوے پھاٹک کی بندش ہے۔اس کے بعد پیپلز انڈر پاس کے منصوبہ میں توسیع ضروری ہے۔اس کا ڈیزائن ہی بنیادی ضرورت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ٹریفک جب انڈر پاس سے نکل کر لاری اڈا کی جانب مڑتی ہے تو ایک کار سے ہی سڑک بلاک ہوجاتی ہے۔ اس جگہ پر پرائیویٹ پراپرٹی کو سڑک میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔

اسکی توسعی تو ایک طرف یہاں مستقل تجاوزات ہی ختم نہیں کروائی جا سکیں۔شہر میں آمد و رفت میں یہ تجاوزات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس پر کبھی کام نہیں ہوا۔ وقتاً فوقتاً کاروائی ڈالی جاتی ہے۔ کارپوریشن کا عملہ صرف منتھلی لے کر شہریوں کو مستقل عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ تمام سڑکوں پر دس سے بیس فٹ مستقل تجاوزات ہیں۔ فُٹ پاتھ تک پر پختہ تعمیرات ہیں۔

ان حالات میں شہر کو سنوارنے کی باتیں خواب ہی لگتی ہیں۔فنڈز کا استعمال دوسری بات یہاں تو سیاسی پوزیشن کے لیے ہی پی ٹی آئی میں رسہ کشی جاری ہے۔ اس کی بڑی وجہ مختلف الخیال شخصیات کا پی ٹی آئی میں شامل ہونا ہے۔رہنمائی اور مقامی لیڈری کی خواہش مقامی رہنماوں کو متحد نہیں ہونے دیتی۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے موجودہ ایم این اے کے لیے کوئی قابلِ ذکر سیاسی مدِمقابل موجود نہیں۔

اس صورتحال میں انہیں عام آدمی سے میل ملاپ برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں۔ الیکشن سے قبل مقامی ایم این اے کا دیدار ہوا، اسکے بعد تاحال ملاقات کی خواہش باقی ہے۔وہ اخبارات اور میڈیا میں بھرپور نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں اوکاڑہ سیاسی نمائندگی سے ہی محروم ہے۔زمینی حقائق کے مطابق اوکاڑہ صفائی ستھرائی کے حوالہ سے گندہ اور نظر انداز شہر ہے۔لیکن حکومتِ وقت کے کاغذوں میں اوکاڑہ پنجاب کا صاف ستھرا شہر ہے۔

اس تاثر کو قائم کرنے میں سرکاری ترجمانی کے فرائض ادا کرنے والے میڈیا کے دوستوں کا بنیادی کردار ہے۔ کچھ سیاسی مراسم بھی چشم پوشی پر مجبور رکھتے ہیں۔ زمینی حقائق چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں شہر کو توجہ کی ضرورت ہے۔ نئے منصوبہ جات کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے لیکن سب کچھ سیاست کی نظر ہے۔یہ اہلیانِ شہر کا فرض ہے کہ وہ متحرک ہوں۔ فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ مقامی سیاسی نمائندوں کو اپنی سیاست کو خدمت میں تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔

بہتر منصوبہ بندی اور فنڈز کے استعمال کو یقینی بنائیں۔راقم الحروف سمیت شہر سے پیار کرنیوالے افرادجن کی رہائش صرف اسی شہر میں ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں رہائش نہیں رکھتے وہ میڑوبس یا دیگر خوشنما منصوبہ جات سے مرغوب نہیں ہو سکتے۔ پی ٹی آئی اپنے پروگرام کے مطابق ہر شہر کو اسکا حق دے۔لاہور کی ترقی ہی پنجاب کی ترقی نہیں۔اب اس سوچ پر عملدرآمد کا وقت ہے۔ آئندہ الیکشن سے قبل مساوی ترقی ضروری ہے۔خدا کرے یہ 3ارب کے فنڈز کے استعمال کی خوشخبری حقیقی خوشخبری ثابت ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :