بات مستقبل کی ہے۔۔۔۔!!

جمعہ 1 مارچ 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

چھوٹی کلاس سے شروع ہو کر ماسٹر لیول تک تین چیزیں ہمارے ذہن میں اچھی طرح موجودرہتی ہیں جن میں سرفہرست مستقبل ہوتا ہے پڑھائی کے لئے بچہ سکول داخل بعد میں کرایا جاتا ہے پہلے سوچ لیا جاتا ہے کہ ہم اپنے بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے ،انجینئر بنائیں گے یا حافظ قرآن بنائیں گے یعنی مستقبل ایسی چیز سمجھی جاتی ہے جس کے بارے میں وقت لگا کر اور محنت کر کے سوچا سمجھا جاتا ہے۔


 مستقبل لفظ کو دیکھا جائے تو سکول و کالجز میں ہمیں اس کے ساتھ حال اور ماضی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے تو انسان یہ بات سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے کہ گزرے ہوئے حالات و واقعات ماضی کہلاتے ہیں جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے اسے حال کہا جاتا ہے اور اگر آنے والے وقت کے بارے میں کچھ سوچا جائے تو وہ مستقبل کہلائے گا۔

(جاری ہے)

بالکل اسی طرح پاکستان کی ماضی کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس اعلیٰ قیادت تھی عوام کی نمائندگی کرنے والے افراد عوام کے بارے میں ہی سوچتے تھے اور عوام کے دکھ درد کو سمجھتے تھے سیاست بھی کی جاتی تھی لیکن سیاست میں عوام کو پہلی ترجیح دی جاتی تھی ۔

ماضی میں ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے صرف پاکستان کی خاطر ،ان میں وہ حب الوطنی کا جذبہ تھا جس کے تحت وہ اپنا تن من دھن پاکستان کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے ،انہوں نے یہ قربانیاں اس لئے بھی دی کہ ہماری آنے والی نسلیں مصیبتیں اور پریشانیاں نہ دیکھیں اورایک آزاد وطن میں سکھ کا سانس لے سکیں ۔

انکی قربانیوں کا رنگ اس صورت میں نکلا کہ جیت مسلمانوں کا مقدر بنی اور مسلمان اپنا الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی مختلف قیادتیں آئیں جنہوں نے پاکستان کو اپنی سوچ و سمجھ بوجھ کے مطابق چلایا اور آئین میں مختلف ترامیم کی گئیں وقت بدلتا رہا تبدیلیاں آتی رہیں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی لیکن پاکستان الگ وطن کی آزادی حاصل کرنے کے بعد آج تک اس قابل نہیں ہوا کہ قرضوں سے ہی آزادی مل جاتی ۔

1978کی تاریخ میں اگر ہم دیگر ممالک جن میں دبئی بھی ہے کو دیکھیں تو ہمیں 1978میں دبئی میں کی ایسی حالت نظر آتی ہے جیسے برون کا علاقہ ہو جہاں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے ہی نظر آتے ہیں یعنی ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے دبئی دنیا کی ایسی جگہ بن جاتا ہے جہاں دنیا کا ہر شہری جانے کی خواہش رکھتا ہے ۔دبئی کیسے اتنی ترقی کر گیا یقینا ہمارے ذہن میں یہ ہی آتا ہے کہ قیادت ایماندارمخلص اور محنتی ہوگی ۔

کیا سیاست وہاں نہیں ؟کیا وہاں جنات کام کرتے ہیں ؟نہیں۔۔۔۔ وہاں ایماندارانسان سیاست کرتے ہیں ایماندارانسان ہی کام کرتے ہیں پھر ترقی تو ہونی ہی تھی ۔
آج دبئی کی سڑکیں ،معیشت ،قانون اور کاروباری گراف کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ترقی کا پہیہ بہت تیزی سے دبئی کے حالات کو بدلتا چلا گیا”کیونکہ بات مستقبل کی ہے “تو وہاں کے لوگوں نے ماضی کے حالات سے سبق سیکھتے ہوئے ایسی منصوبہ بندی کی کہ مستقبل روشن ہو اور عوام اور ملک ترقی کی منازل طے کرسکیں ۔

اگر صحیح معنوں میں منصوبہ بندی اور مثبت پالیسیاں نہ بنائی جائیں تو کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے نہیں کرپاتا،دوغلی پالیسیاں اور ”میں “”میں“کرنے والے حکمران کبھی ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتے ۔ایسے حکمران اگر ملک پر مسلط ہوجائیں تو ملک ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے اور قرضوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔
سعودی عرب کا شہزادہ پاکستان میں انویسٹمنٹ کا اعلان کرتا ہے اور پاکستان کی عوام سے محبت کا اظہار کرتا ہے پاکستانیوں کے لئے ویزہ فیسوں میں کمی کردیتا ہے یہ سب کیسے ہوا؟کیا سعودی شہزادے کو خواب آگیا تھا یہ سب کرنے کا؟نہیں بالکل بھی نہیں ،جب آپ کے ملک کے حکمران دوسرے ممالک سے اچھے تعلقات رکھتے ہوں انکی عزت کرتے ہوں ایک فریم ورک او رٹیم ورک کے ذریعے وطن کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کیلئے سوچ رکھتے ہوں تب ہی ملک کے حالات بدلتے ہیں ۔

آپ ایک جگہ رہائش پذیر ہیں اور آپ کے گھر کے اردگرد اور بہت سارے گھر ہیں اب اگر آپ کا اخلاق اور کردار آپ کے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ اچھا ہوگا تو وہ بھی آپ کی قدر کریں گے آپ کے دُکھ سُکھ میں آپکے ساتھ کھڑے ہونگے ۔اسی طرح موجودہ صورتحال کے مطابق پاکستان اللہ کے حکم سے ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے او رو ہ دن دور نہیں جب غریب عوام بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرے گی ۔

جہاز اگر درست او ر صحیح سمت پر چل رہا ہو تو مقررہ وقت کے اند ر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور اگر جہاز اپنی سمت اور رستہ کھودے تو اُسے منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے کافی ٹائم لگ جاتا ہے ۔بہت جدوجہد کے بعد اب پاکستان میں سیاح آرہے ہیں اور پاکستان کو مثبت انداز میں پیش کررہے ہیں یہ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔
دوسری جانب اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر آتے دکھائی دے رہے ہیں دہشت گردی نے پاکستان کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالی اور پاکستان کی کمرتوڑ کر دکھ دی تھی لیکن پاک فوج اور پاکستان کے ہر شہری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اور آج پاکستان پوری دنیا میں دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والا ملک ہے ،اب پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ستارہ بلندیوں کی جانب رواں دواں ہے۔

ہم سب کو چاہیئے کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار کو مزید تیز تر کرنے کیلئے اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے مثبت انداز میں کردار ادا کریں کیونکہ بات مستقبل کی ہے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا قلع قمع کرنے کیلئے تیار رہیں تاکہ اس ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ جائیں ۔
حکومتی ممبران اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے کو اعتماد میں لیکر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچیں ۔

سیاست ضرور کریں مگر ایسی سیاست نہ کریں جس کی ہمارے پیار وطن پاکستان کی ساکھ اور اداروں کو نقصان پہنچے ،ذاتی مفادات کی آڑ میں عوام کو سڑکوں پر نہ لائیں،مذہب کے نام پر عوام کو گمراہ نہ کریں ۔اس ملک کی بنیادوں میں شہیدوں کا خون ہے سچے او ر نیک جذبوں کے ساتھ ملک کیلئے کام کریں ۔ہمار ے ملک کا مستقبل روشن ہوگا تو ہمارا مستقبل روشن ہوگا، پہلے ہمار ے وطن کی ترقی ہے بعد میں ہماری ترقی ہے ۔جس شعبے سے آپکا تعلق ہے جس برادری کی آپ نمائندگی کرتے ہیں اس میں وطن سے سچی محبت کے جذبے کو ابھاریں تاکہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نمبر1ملک بن جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :