”خوف ہے عیاں کاذب کی پیشانی پر“

بدھ 19 جون 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

انسان کے اندر اللہ پاک نے جو دل اور ضمیر بنایا ہے وہ بہت ہی شاندار تخلیق ہے جس انسان کا ضمیر زندہ ہو وہ انسان نہ تو کسی کا حق کھاتا ہے نہ کسی کا حق کسی کو کھانے دیتا ہے اور ضمیر کے ساتھ ساتھ دل کی دوستی بھی ہوگئی ہو تو انسان گناہ سے میلوں دور رہتا ہے اور پرسکون زندگی گزارتاہے کوئی اُس انسان کے اوپر کتنے ہی جھوٹے الزام لگائے کتنی ہی بُری سوچوں کے وار کرے وہ انسان اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے اور ہر مشکل میں اللہ ہی سے مدد مانگتا ہے سکو ن اس شخص کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے کیونکہ اُس نے وہ کام نہیں کیا ہوتا جس کے بارے میں اُس پر الزام لگایا جارہا ہوتا ہے ۔

لیکن اگر آپ کے اندر کا ضمیر مر چکا ہے یا پھرکسی بیمار ی میں مبتلا ہے اور آپ کے دل کی بھی اس سے دوستی نہیں ہے تو آپ پرسکون زندگی نہیں گزارسکتے آپ بظاہر تو اچھے خاصے انسان نظر آئیں گے اور لوگ آپ کے بناوٹی اخلاق کی تعریف بھی کریں گے پر آپ کے الفاظ آپ کے چہرے کا ساتھ نہیں دیں گے ۔

(جاری ہے)


پریشانی آپ کی پیشانی پر عیاں ہوگی اور اگر نہیں بھی ہوگی تو اگر کسی نے کوئی ذرا سی بھی بات کی تو آپ کو لگے گا شاید میرا ہی گریبان اب تخت سزا کے دربار میں پیش کیا جائے گااور آپ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے ۔

یہ سب علامات جھوٹے ،فریبی اور کسی کا حق کھا کر زندگی گزارنے والے کاذب انسان کی ہیں۔ نیک ایماندار اورسچے انسان تو وہ ہیں جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آئیں تو وہ یہ نہیں کہتے کہ تم کون ہوپوچھنے والے میں تمہاری ایسی کی تیسی کر دوں گاتم نے یہ سوال کیوں پوچھا ہے بلکہ انہوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایاکہ اس کی چادر مجھے ملنے کی وجہ سے میرا یہ کپڑا پورا ہوا ہے ۔

اب اگر بات کی جائے موجودہ سیاسی حالات کی تو پچھلی حکومتوں میں ہم صرف یہ دیکھتے آئے ہیں کہ آنے والے حکمران جانے والے حکمران کو گالیاں دیتے اسکی کرپشن کے قصے سناتے اپنی سیاست کوچمکاتے اور غریب عوام کو سنہرے خواب دکھا کر پانچ سال تک ان کے جذبات سے کھیلتے رہتے لیکن عملی طور پر کوئی کاروائی شادونادر ہی نظر آتی تھی۔بیشتر ایسی تقاریر اور باتیں ہم انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی نے زردے کی ڈیگ میں نمک ڈال دیا ہو اور پلاؤ کی ڈیگ میں چینی ڈال دی ہو ۔

ڈیگ پکانے والے کوتو کچھ نہیں کہا جاتا لیکن کھانے والوں کو کھانے پر مجبور کیا جاتاہے کہ کھاؤ گے تو ٹھیک ورنہ کھانے کو ہی چھین لیا جائے گا۔
مختلف حکمران آئے چلے گئے ،کسی نے اچھی بات کی کسی نے بری بات کی ،ہر بار وہ گندہ یہ اچھا ،یہ گندہ وہ اچھاکی باتوں سے آدھی عوام کو بیوقوف بنایا جاتااور آدھی عوام کو محرومیوں کے اندھیروں میں رکھا جاتا تھا۔

جب زیادہ لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے تو اس کے کہنے پر اُس کے کہنے پر ووٹ دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچتا تھا اب بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس کی شرح بہت حدتک کم ہوگئی ہے پہلے تو ایک فیملی کے 10لوگ ہیں اور10کے 10لوگوں نے ہی ووٹ دینا ہے تو گھر کے بڑے سربراہ نے جسے کہہ دیا سار ے گھر کے افراد اُسے ہی آنکھیں بند کر کے ووٹ دے آتے تھے ۔لیکن میڈیا اور تعلیم نے عوام کے اندر شعور پیدا کیا کہ ایسے کسی کو ایک دن ،ایک مہینے،ایک سال کیلئے خوش نہ کیا جائے بلکہ اپنا، اپنے ملک کا اور اپنے بچوں کے آنے والے مستقبل کے بارے میں سوچیں کہ آیا کہ ہم جس انسان کو ووٹ دے رہے ہیں یہ انسان ہمارے مسائل حل کرانے کی اہلیت رکھتا ہے یا بس چٹاان پڑھ ہے اور کیونکہ یہ ہمارے ابو کا دوست ہے اس لئے ہم نے اسے ہی ووٹ دینا ہے خواہ وہ پورے علاقے کے لوگوں کا سکون ہی غارت کر دے ۔


لوگوں میں شعور آنے کے بعد اب عوام کافی سوچ بچار کے بعد ووٹ دیتی ہے اورعوام میں ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح بھی زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت پہلے کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے لوگ اقتدار میں آئے جو ملکی و غیر ملکی مسائل بارے سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔تبدیلی وہ نہیں جو کوئی بندہ ہوا میں اُڑا دے اور وہ اُڑ کر ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیل جائے گی اور دیکھتے دیکھتے پورے پاکستان میں پھیل جائے گی ۔

تبدیلی کا لفظ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ آج ہر کوئی خواہ وہ عام شہری ہو ،حکومتی نمائندہ ہویا اپوزیشن کا نمائندہ اس لفظ کو استعمال ضرور کرتا ہے ۔یہ تبدیلی جب تک آپ کے اپنے اندرنہیں آئے گی کہیں بھی نہیں آسکتی ۔اگر آپ کے سامنے ظلم ہورہا ہے اور آپ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو کبھی بھی تبدیلی نہیں آنے والی،کیونکہ اللہ نہ کرے کل کو اگر آپ کے ساتھ بھی ظلم ہو تو کوئی بھی آپ کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھائے گا۔


اس وقت احتساب احتساب اور چوروں کو پکڑنے کی بہت باتیں ہر روز سننے میں آتی ہیں میرے خیال سے ہر باشعور پاکستانی احتساب کے حق میں ہے کیونکہ کام ہوتے تھے، ہوتے ہیں اور ہوتے چلے آرہے ہیں، آخر کوئی تو غلط کام کرتا تھا تبھی تو ہمارا پیا را ملک پاکستان آج مشکل حالات سے گزر رہا ہے لیکن اگر اب نیک نیت لوگوں نے ملک کو ٹھیک طرح سے چلانے کی ٹھان لی ہے اور ہر ایماندار قلم چلانے والا افسر اپنا کام ایمانداری سے کر رہا ہے تو صرف وہ ہی لوگ پریشان ہیں جن کی بھٹی میں بندر جلے ہیں ۔

کیا سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں جھوٹی تھیں ،کیوں ایک دوسرے کو چور کہہ کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنا کر معصوم پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ۔
عوام اب جاگ چکی ہے عوام اب کسی کے کہنے میں نہیں آنے والی ،عوام اب اسی کا ساتھ دے گی جو پاکستان کیلئے اچھی سوچ رکھتا ہے جو کچھ ہورہا ہے انہی کی چیخیں نکل رہی ہیں جن کے برتن کالے ہورہے ہیں اور جن کی فیکٹریاں سیل ہورہی ہیں کہنے اور کرنے کا عمل شروع سے کیوں نہیں ہوا آج سب کہہ رہے ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے تو شروع کیوں نہیں کیا گیا احتساب کیا چوروں نے اس دفعہ بھی یہ سوچا تھا کہ جیسے پہلے اس ملک کو لوٹا آگے بھی لوٹتے رہیں گے اورکوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔

موجودہ احتساب کا عمل جو شروع ہوگیا ہے اگر یہ احتساب کا عمل بلا تفریق چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی خوشحال ہوگا اور پاکستان کی مثالیں دنیا دے گی ۔ہم قرضوں سے آزاد ہوجائیں سارے چور جیلوں میں چلے جائیں گے ۔ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا ہمارے بچوں پر قرض نہیں ہوگاہم چین کی زندگی بسر کر سکیں گے ۔
 آج ہم دنیا کی طرف دیکھتے ہیں کہ فلاں ملک کتنی ترقی کر گیا ہے ہمارے نوجوان دبئی ،ملائیشیا ،سعودی عرب و دیگر ممالک میں نوکریاں تلاش کرتے ہیں اور اپنوں سے دور جاکر محنت مزدوری کرتے ہیں ملک کو قرضوں میں گھیرنے والے ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کیلئے پوری قوم کو متحدہوجانا چاہیئے اور یہ جان لینا چاہیئے کہ کون کیوں اور کس وجہ سے چیخیں مار رہا ہے اور انکی اصلیت کیا ہے ۔

ایسے لوگوں کو انکے منطقی انجام تک پہنچانے، ملک کے بہتر مستقبل اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے بھر پور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔اللہ پاک ہمیں سچے ،ایمانداراورنیک نیتی سے کام کرنے والے عہدیداران وافسران کا ساتھ دینے کا ہمت حوصلہ عطا فرمائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :